صحافیوں کو کون کنٹرول کرتا ہے؟

[pullquote]میڈیا میں لفظوں کا انتخاب اور ان کا اثر
[/pullquote]

الفاظ کسی واقعے کی شدت کو کس قدر کم کر سکتے ہیں اور بڑھا سکتے ہیں، یہ شاید آپ کو نہ پتہ ہو لیکن نفسیات دان اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔

مغربی یونیورسٹیوں میں میڈیا کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک انداز پر تحقیق ہوتی ہے۔ میرے بہت سے صحافی دوست میری طرح خود کو پڑھا لکھا، صاحب علم اور پتہ نہیں کیا کیا سمجھتے ہیں لیکن حقیقیت یہ ہے کہ ہم سب ’طاقتور لوگوں کے لفظوں‘ اور نیوز ایجنسیوں کے غلام بن چکے ہیں، ہم پینٹاگون، فوجی دماغوں، جنرلوں اور سیاسی تھنک ٹینکس کے بنائے ہوئے لفظوں کے غلام بن چکے ہیں اور ہمیں ایک لمحے کے لیے بھی احساس نہیں ہوتا کہ ’ہم صحافیوں‘ کو بھی کوئی کنٹرول کر رہا ہے۔
ہم اب لفظوں کو ’سطحی طور‘ پر پڑھتے ہیں، کتابوں کی ورق گردانی کرتے ہیں لیکن ہم نے ’ڈیپ سٹڈی‘ چھوڑ دی ہے، ہم نے لفظوں کے اثرات اور ٹرمینالوجی کے پیچھے چھپے ہوئے ارادوں کو پڑھنا چھور دیا ہے، ہم نے کتابیں پڑھنا چھوڑ دی ہیں، ہم نے تاریخ پڑھنا چھوڑ دی ہے، سیاستدان ہمارے سامنے تاریخ سے متعلق جھوٹ بولتے ہیں لیکن ہمیں پتہ نہیں چلتا۔

ہم سب کے لیے ’لفظوں کی غلامی‘ اس وجہ سے بھی خطرناک ہوتی جا رہی ہے کہ اب ’آٹو کوریکشن سافٹ وئیر‘ دماغوں کو مزید زنگ آلود کرتے جا رہے ہیں۔ اب وہی سچ بنتا جا رہا ہے، جو وکی پیڈیا، گوگل اور انٹرنیٹ بتا رہا ہے جبکہ لفظوں کا مفہوم بھی سافٹ وئیر اور انٹرنیٹ طے کر رہے ہیں۔

مشہور کہاوت ہے کہ ’تاریخ وہ لکھتا ہے، جو طاقتور ہوتا ہے، جو جنگ جیتتا ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہے، لاکھوں انسانوں کی قتل و غارت کے باوجود جیتنے والا اپنی تاریخ ’سنہری حروف‘ میں لکھ رہا ہے اور خود کو انسانی حقوق کا علمبردار بھی بتا رہا ہے۔ اس کھیل میں ہم ’غلام صحافیوں‘ کی اوقات صرف اس شاہی مورخ جتنی ہے جو دو وقت کی روٹی کے بدلے دن کو رات اور رات کو دن لکھنے پر تیار ہوتا ہے۔ آزادی صحافت کا نعرہ لگانے والا ’ لفظی غلامی‘ کی آخری منزل پر ہے لیکن اس بات کا اسے علم ہی نہیں۔ آج کا میڈیا ’منافقت‘ کی آخری منزل پر ہے لیکن کوئی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں۔

خیر ہم میڈیا پر استعمال ہونے والے لفظوں اور ان کے انسانی دماغ پر اثرات کی طرف آتے ہیں، کیونکہ آج کل قومی یا بین الاقوامی میڈیا اور اخبارات کے ایڈیٹوریل، حقیقت میں ’سیاسی تقریروں‘ کا روپ دھار چکے ہیں۔

میں صرف چند مثالیں پیش کرتا ہوں کہ ہم صحافی طاقتور لوگوں کے لفظوں کے کیسے غلام بن چکے ہیں۔ یہ جارج ڈبلیو بش کے وزیر خارجہ کولن پاول تھے، جنہوں نے اپنے تمام سفارت کاروں کو یہ ہدایات جاری کیں کہ مشرق وسطیٰ میں ’مقبوضہ فلسطینی‘ علاقوں کو ’متازعہ فلسطینی‘ علاقے پڑھا اور لکھا جائے۔ یہ ٹرم امریکی میڈیا میں آئی اور پوری دنیا کے میڈیا میں استعمال ہونے لگی۔ آج کل امریکی پالیسی تبدیل ہے اور اب ’مقبوضہ فلسطینی علاقوں‘ کا لفظ استعمال کیا جا رہا ہے۔ دونوں لفظوں کا انسانی دماغ پر مختلف اثر ہوتا ہے۔ اسی طرح اسرائیلی ’وال‘ کو اب ’سکیورٹی بیرئیر‘ کہا جاتا ہے۔

عراق اور افغانستان میں امریکی حملے کے بعد تشدد میں اضافہ ہوا تو جنرلوں نے ’تشدد میں اضافے‘ (اِنکریز ان وائلنس) کی بجائے اس کے لیے نیا فقرہ ’سپائیک‘ استعمال کیا۔ اب ’’سپائک ان وائلنس‘‘ کا مطلب ہے کہ تشدد ایک دم اوپر اور ایک دم نیچے آ سکتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تشدد میں اضافہ ایک دم کم نہیں ہوتا۔ دونوں لفظوں کا اثر انسانی دماغ پر مختلف ہے۔

افغانستان میں طالبان کے ہمراہ لڑنے والے زیادہ تر گروپوں کو بین الاقوامی میڈیا ’’فارن فائٹرز‘‘ کا نام دیتا ہے یا دیتا رہا ہے۔ اس لفظ کا تاثر یہ ہے کہ یہ دیگر ملکوں کے ’عسکریت پسند اس ملک میں مداخلت‘ کر رہے ہیں لیکن ان ’فارن فائٹرز‘ کو کیا کہیں گے، جو نیٹو کی اور امریکی وردیاں پہنے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے لیے لفظ ’’ نیٹو فورسز اِن افغانستان‘‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر طالبان کے ہمراہ دیگر قومیتوں کے لڑنے والے افراد ’’فارن فائٹرز‘‘ ہیں تو طالبان کے لیے ’’لوکل فائٹرز‘‘ کا لفظ استعمال ہونا چاہیے لیکن یہ نہیں کیا جاتا کیونکہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ’لوکل فائٹرز‘‘ کو مزاحمت کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس لفظ کا اثر بالکل مختلف ہوتا ہے۔
ایسے سینکڑوں لفظ ہیں، جیسے ’’پاور پلیئرز، ایکٹیوزم، نان اسٹیٹ ایکٹرز، کی پلئرز، پِیس پراسس، مینینگزفُل سولشنز، جو طاقتور لوگوں نے ہم پر مسلط کیے ہیں۔ امریکی خصوصی نمائندے کے لیے AF-PAK کا لفظ علاقائی، سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے غلط ہے۔ پاکستان کا افغانستان میں کردار بھارت کے حوالے جڑا ہوا ہے لیکن اس میں انڈیا کا لفظ جان بوجھ کر شامل نہیں کیا گیا، وجہ اگر انڈیا بھی اس لفظ میں شامل کیا جاتا، تو مسئلہ کشمیر بھی ہائی لائٹ ہوتا۔۔۔ اصل میں اب دفاعی محکمے صحافیوں کی ڈکشنری بن چکے ہیں۔

آپ بریکنگ نیوز کو ہی لے لیجیے۔ پہلے بین الاقوامی میڈیا پر جب بھی بریکنگ نیوز دینا ہوتی تو ہر مرتبہ نشریات کے درمیان نیوز کاسٹر آتا اور وہ بریکنگ نیوز دیتا۔۔ میڈیا کے محقیقین کے مطابق اس سے بریکنگ نیوز کا اثر انسانی دماغ پر زیادہ ہوتا ہے، لہذا بریکنگ نیوز کا کوئی دوسرا طریقہ بھی ہونا چاہیے، جس سے یہ تاثر بھی نہ ملے کہ خبر چلائی نہیں گئی اور خبر کا زیادہ چرچا اور اثر بھی نہ ہو۔۔۔ اس کے نتیجے میں ’’نیوز ٹِکر‘‘ کا آئیڈیا سامنے آیا۔۔۔ اب اگر کسی خبر کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہو تو نیوز اینکر خود آتا ہے اور اگر خبر دبانی ہو تو ’نیوز ٹِکر‘ ہی کافی ہوتا ہے۔۔۔۔۔ دوسرا یہ کہ بریکنک نیوز کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ بار بار بریکنک نیوز چلائی جایا کرے تا کہ بریکنگ نیوز بذات خود ایک عام سی خبر بن کر رہ جائے۔۔ اس کی بہترین مثال آپ کو پاکستانی میڈیا میں مل سکتی ہے۔
بار بار لفظ استعمال کرو کا طریقہ لفظ ’’واٹر گیٹ اسکینڈل‘‘ کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس کے بعد جان بوجھ کر متعدد اسکینڈلز کے ساتھ لفظ ’’گیٹ‘‘ شامل کیا جاتا رہا تا کہ لفظ عام ہو جائے اور ’واٹر گیٹ‘ اسکینڈل کی اہمیت کم ہو جائے اور یہ ایک عام سا اسکینڈل لگے۔ ایسی درجنوں دوسری مثالیں بھی ہیں۔

ناظرین یا سامعین پہلی خبر کو اکثر دوسری خبر سے جوڑتے ہیں۔۔ فرض کریں کہیں بھی بم دھماکا ہوا ہے اور آپ کو پتہ بھی نہیں کہ کس نے کیا ہے تو بم دھماکے کی خبر دے کر دوسری خبر اس ملک یا پھر گروپ کے متعلق نشر کریں، جس کی طرف آپ شک ڈلوانا چاہتے ہیں۔ یہ خبر چاہے بم دھماکے سے متعلق ہو یا نہ ہو۔۔ لوگ یا انسانی دماغ خود بخود دھماکے کو اس گروپ سے یا ملک سے جوڑ لیتے ہیں۔۔۔ کسی ثبوت اور لفظ کے بغیر لوگوں کے دماغ میں یہ بات پلانٹ کی جا سکتی ہے۔۔۔۔ کرپشن ہوئی ہے ، اس کے بعد یہ خبر چلا دیں کی زرداری صاحب نے نئی سڑک کا افتتاح کیا ہے، کچھ کہے بغیر کرپشن کا شک زرداری صاحب پر جائے گا۔۔۔

اسی طرح آپ نے کسی بھی اہم واقعے کی کریڈبیلٹی یا اہمیت کم کرنی ہے تو خبر کے بعد نیوز اینکر کی ہلکی سی مسکراہٹ خبر کی اہمیت کو ختم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ نیوز اینکر جتنا سیرئیس ہوگا، اتنا ہی ہی خبر کا اثر زیادہ ہوگا۔

اگر میڈیا کسی شخصیت کو خطرہ بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے تو اس شخصیت کی تصویر ہمیشہ نیچے سے اوپر کی طرف لی جاتی ہے۔۔ تاکہ وہ بڑا یا دیو قامت نظر آئے، اس کا مکا اور چہرے پر پڑے بل نظر آئیں تاکہ وہ واقعی خطرہ محسوس ہو۔۔۔ اس کی بہترین مثال احمدی نژاد تھے۔۔ آپ بین الاقوامی میڈیا میں ان کی تصویر کشی دیکھ سکتے ہیں۔ ان کی اکثر تصویریں آپ کو نیچے سے اوپر کی طرف کھینچی ہوئی ملیں گی۔ یہ طریقہ دوسری عالمی جنگ کے دوران بھی استعمال کیا گیا تھا۔ امریکیوں کو جنگ میں شمولیت کے لیے تیار کرنے کے لیے ٹی وی پر جرمنی کو ایک دیو کی شکل میں دکھایا جاتا تھا، جو ان کے گھروں کو مسمار کرتا چلا جاتا تھا۔ اس موقع پر ’’لوگوں کے خوف یا امید سے کھیلو‘‘ والی تھیوری اپنائی گئی تھی۔ اسی طرح کسی کو چھوٹا ثابت کرنا ہو تو ہمیشہ اس کی تصویر یا فوٹیج اوپر سے نیچے کی طرف لی جاتی ہے۔۔۔
ایسے ہی درجنوں طریقے ہیں اور الفاظ ہیں، جو آپ معمول کے مطابق سمجھ رہے ہوتے ہیں لیکن لاشعوری طور پر وہ آپ کی دماغ سازی کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ سب کچھ لکھنے کا خیال مجھے ایسے آیا کہ چند ہفتے پہلے نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں مارے جانے والے ایک فلسطینی کے لیے لفظ ’ہلاک‘ ’’Killed ‘‘ کی بجائے متبادل لفظ "neutralised” استعمال کیا تھا۔۔۔۔۔۔ یہ لفظ ایک اسرائیلی جنرل کے منہ سے نکلے تھے اور ویسے ہی چھاپ دیے گئے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر یہ لکھا جائے کہ کوئی شخص ہلاک ہو گیا ہے تو اثر زیادہ ہوتا ہے اور خود بخود لوگوں کی ہمدردیاں ہلاک ہونے والے کی طرف جانا شروع ہو جاتی ہیں۔۔ لیکن اگر یہ لکھا جائے کہ فوجیوں نے ایک حملہ آور فلسطینی کو ’نیوٹرلائزڈ‘ کر دیا ہے تو اثر یہ ملتا ہے کہ ایک خطرہ تھا جو اب نہیں رہا۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے