جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی اسلام مخالف کیوں؟

جرمنی میں پہلے تارکین وطن اور پھر اسلام کی مخالفت شروع کر دینے والی سیاسی جماعت ’متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی کا ایک دو روزہ ملک گیر کنوینشن جنوبی جرمن شہر شٹٹ گارٹ میں ہفتہ تیس اپریل کو شروع ہوا۔ اس موقع پر دائیں بازو کی اس پاپولسٹ پارٹی کے مخالفین کی طرف سے مظاہروں اور پھر ان مشتعل مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں چند افراد زخمی ہو گئے جبکہ چار سو سے زائد کو پولیس نے گرفتار بھی کر لیا۔

’آلٹرنیٹیو فار جرمنی‘ کیا ہے اور کیا چاہتی ہے؟ چند بنیادی سوالات اور ان کے جوابات:۔

[pullquote]اے ایف ڈی کتنی بڑی سیاسی پارٹی ہے اور کب بنی؟
[/pullquote]

آلٹرنیٹیو فار جرمنی یا ’جرمنی کے لیے متبادل‘ (اے ایف ڈی) کے نام سے یہ پارٹی تین سال قبل قائم کی گئی تھی۔ جرمنی میں وفاقی صوبوں کی کل تعداد سولہ ہے اور گزشتہ تین برسوں میں جتنے بھی صوبوں میں علاقائی پارلیمانی الیکشن ہوئے، اے ایف ڈی نے ان سب میں حصہ لیا اور اب تک یہ پارٹی قریب نصف جرمن صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی حاصل کر چکی ہے۔ اب اے ایف ڈی کی نظریں اگلے برس ہونے والے وفاقی پارلیمانی انتخابات پر لگی ہیں اور اس کی پوری کوشش اور خواہش ہو گی کہ وہ پہلی بار برلن میں وفاقی جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی بنڈس ٹاگ میں بھی پہنچ جائے۔

[pullquote]اے ایف ڈی کا ملک گیر کنوینشن کہاں ہو رہا ہے اور اس میں کیا فیصلے متوقع ہیں؟
[/pullquote]

یہ دو روزہ پارٹی کنوینشن جنوبی جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کے دارالحکومت شٹٹ گارٹ میں تیس اپریل اور یکم مئی کو ہو رہا ہے۔ پارٹی قیادت کی خواہش ہے کہ اس کنوینشن کے دوران اکثریتی رائے سے اس جماعت کے اسلام مخالف موقف کو باقاعدہ طور پر اس کے منشور کا حصہ بنا دیا جائے۔ اے ایف ڈی بنیادی طور پر ایک پاپولسٹ یا عوامیت پسند جماعت ہے، جس کی دائیں بازو کی سوچ گزشتہ کئی مہینوں سے انتہائی دائیں بازو کی طرف جا رہی ہے۔ کئی سیاسی ماہرین اس جماعت کو سیاسی ابن الوقت بھی کہتے ہیں۔ یورو زون کے مالیاتی بحران کے دور میں اس پارٹی نے بحران کی شکار یورو ریاستوں کے لیے بیل آؤٹ پیکجز کی مخالفت کی تھی۔ پھر یورپی یونین کو مہاجرین کے بحران کا سامنا ہوا تو اس جماعت نے تارکین وطن کی مخالفت شروع کر دی۔ اب جب کہ جرمنی میں گیارہ لاکھ سے زائد تارکین وطن مہاجرین کے طور پر آ چکے ہیں، جن میں بہت بڑی اکثریت مسلمانوں کی ہے، تو اس پارٹی نے اسلام کی مخالفت کو اپنا نعرہ بنا کر جرمن رائے دہندگان کی ہمدردیاں حاصل کرنا شروع کر دی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت اس پارٹی کو چودہ فیصد جرمن ووٹروں کی حمایت حاصل ہے۔

[pullquote]جرمنی میں اسلام سے متعلق اے ایف ڈی کا موقف ہے کیا؟
[/pullquote]

اس پارٹی کی نائب سربراہ بیاٹرکس فان سٹورش کے مطابق کنوینشن کے ایجنڈے میں یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ جرمنی میں مسلمانوں کی تمام مذہبی اور سماجی علامات پر پابندی ہونی چاہیے۔ فان سٹورش کے مطابق ان علامات سے مراد یہ ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی ایسی کوئی مساجد نہ ہوں جن کے مینار ہوں اور جو باقاعدہ مساجد کے طور پرتعمیر کی گئی ہوں۔ اس کے علاوہ ان مساجد میں مؤذن اس طرح اذانیں نہ دیں کہ اذانوں کی آواز ارد گرد کے علاقوں میں بھی سنائی دے۔ آخری بات یہ کہ جرمن معاشرے میں مسلم خواتین کی طرف سے برقعہ یا پورے چہرے کا نقاب پہننے پر بھی پابندی ہونی چاہیے۔ ویسے اذانوں کی آوازوں کے حوالے سے مطالبہ تو اس لیے بھی غلط ہے کہ جرمنی میں پہلے ہی کسی بھی مسجد میں لاؤڈ اسپیکرز پر اس طرح اذانیں دی ہی نہیں جاتیں کہ انہیں مساجد یا ان سے ملحقہ کمیونٹی سینٹرز سے باہر ارد گرد کے علاقوں میں بھی سنا جا سکے۔

[pullquote]کیا اس اسلام مخالف سوچ کی دیگر سماجی اور سیاسی حلقے بھی حمایت کر رہے ہیں؟
[/pullquote]

بالکل نہیں۔ اس وجہ سے بھی نہیں کہ جرمنی میں، جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، مسلمانوں کی مجموعی آبادی قریب چار ملین بنتی ہے۔ وفاقی چانسلر انگیلا میرکل کئی بار کہہ چکی ہیں کہ اسلام آج کے جرمن معاشرے کا ایک ناقابل تردید حصہ ہے۔ کئی دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرح بہت سے سماجی ماہرین بھی اس مطالبے کے اس لیے خلاف ہیں کہ اس طرح جرمن معاشرے کو ایک متحدہ سماجی اکائی بنانے میں مدد دینے کی بجائے معاشرتی سطح پر مزید تقسیم پیدا ہو گی۔ اور قانونی طور پر تو ایسی کوئی بھی ممکنہ پابندی اس لیے بھی غلط ہو گی کہ وہ جرمن آئین میں دی گئی ان ضمانتوں کے بھی خلاف ہو گی، جن کے تحت اس یورپی ملک میں ہر کسی کو مکمل مذہبی آزادی کا حق حاصل ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے