ملا اختر منصور سے متعلق تمام خبریں اور اپ ڈیٹس ایک ہی کلک پہ

[pullquote]’ملا منصور حملے سے قبل ایران میں نہیں تھے'[/pullquote]

تہران: ایران نے افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصورکے حوالے سے ان خبروں کی تردید کردی ہے، جن میں کہا گیا تھا کہ وہ ایران سے پاکستان میں داخل ہوئے اور امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں ہلاک ہوگئے۔یاد رہے کہ پاکستانی عہدیداران نے ہفتے کو خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ بلوچستان میں ہلاک ہونے والا شخص ملا اختر منصور ہوسکتا ہے، جن کی گاڑی کو ایران سے واپسی پر ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا۔دوسری جانب امریکی صدر براک اوباما نے بھی ملا اختر منصور کی ڈرون حملے میں ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے اسے افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں ایک ‘اہم سنگ میل’ قرار دیا۔اے ایف پی کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ کے ترجمان حسین جابر انصاری نے ان رپورٹس کی تردید کی ہے کہ ڈرون حملے سے قبل افغان طالبان کے سربراہ ایران میں تھے۔

ترجمان کا کہنا تھا، ‘متعلقہ حکام نے اس بات کی تردید کردی ہے کہ یہ شخص اس تاریخ کو ایران کی سرحد عبور کرکے پاکستان میں داخل ہوا’۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ایران، افغانستان میں امن اور استحکام قائم کرنے کے حوالے سے ہر طرح کے مثبت اقدامات کا خیر مقدم کرتا ہے’۔دوسری جانب ایران نے طالبان گروپ کے خاتمے کے لیے افغان حکومت کی مدد اور حمایت کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے۔

[pullquote] ملا اختر منصور کون تھے؟[/pullquote]

• ملا اختر منصور کا تعلق افغانستان کے صوبے قندھار سے تھا، اُن کی عمر 50 سال تھی۔
[pullquote] • انہوں نے جولائی 2015 میں ملا عمر کی موت کے بعد افغان طالبان کی کمان سنبھالی۔[/pullquote]
• افغان طالبان کے امیر نے خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ کے جلوزئی مہاجر کیمپ میں دینی مدرسے تعلیم بھی حاصل کی تھی۔
[pullquote] • طالبان دور حکومت کے دوران ملا اختر منصور 2001-1996 تک افغانستان کے سول ایوی ایشن کے وزیر بھی رہے۔[/pullquote]
• افغانستان پر اکتوبر 2001 میں امریکی حملے کے دوران دیگر طالبان رہنماؤں کی طرح ملا اختر منصور بھی نامعلوم مقام پر روپوش ہوئے۔
[pullquote] • سابق سویت یونین کے خلاف جنگ میں ملا اختر منصور نے بھی حصہ لیا تھا۔ [/pullquote]

[pullquote]براک اوبامانے ملامنصورکی ہلاکت کی تصدیق کردی[/pullquote]

ہنوئی: امریکا کے صدر براک اوباما نے افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کی ڈرون حملے میں ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے اسے افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں ایک ‘اہم سنگ میل’ قرار دے دیا۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ویتنام کے 3 روزہ دورے کے موقع پر صدر براک اوباما نے اپنے پیغام میں کہا، ‘ہم نے ایک ایسی تنظیم کے سربراہ کو ہلاک کردیا ہے، جس نے امریکا اور اتحادی فورسز پر حملوں کا منصوبہ بنایا، افغان عوام سے جنگ کی اور القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیموں سے الحاق کیا۔’ براک اوباما کا کہنا تھا، ‘ملا اختر منصور نے سنجیدہ مذاکرات کی کوششوں اور افغان مردوں، عورتوں اور بچوں کی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے تشدد کے خاتمے کو مسترد کیا۔’انھوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ اب طالبان قیادت امن مذاکرات کا راستہ اپنائے گی، جو اس تنازع کے خاتمے کا ‘واحد راستہ’ ہے۔

اپنے بیان میں امریکی صدر نے کہا کہ ‘دہشت گردوں سے تمام قوموں کو خطرہ ہے اور ہم پاکستان کے ساتھ مشترکہ مقاصد کے تحت کام جاری رکھیں گے، تاکہ ان دہشت گردوں کے لیے کوئی محفوظ ٹھکانہ باقی نہ رہے’۔خیال رہے کہ امریکی محکمہ دفاع نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب اعلان کیا تھا کہ پاک افغان سرحد پر ایک دور دراز علاقے میں فضائی حملے میں افغان طالبان کے رہنما ملا اختر منصور ہلاک ہو گئے ہیں۔پینٹاگون کے ترجمان پیٹر کک نے بتایا کہ امریکی محکمہ دفاع نے پاک افغان سرحد پر ہدف کے عین مطابق کی گئی ایک فضائی کارروائی میں ملا اختر منصور کو نشانہ بنایا۔بعدازاں ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے اپنے بیان میں کہا کہ ملا اختر منصور پر کیے جانے والے ڈرون حملے سے قبل امریکا نے معلومات کا تبادلہ کیا تھا۔نفیس زکریا کے مطابق واقعے میں دو افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے ایک کی شناخت محمد اعظم کے نام سے ہوئی ہے۔ترجمان نے بتایا کہ ڈرون حملے سے متعلق معلومات آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم نواز شریف سے شیئر کی گئی تھیں۔افغان طالبان کے ایک سینئر کمانڈر ملا عبدالرؤف نے بھی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی ایک رپورٹ میں ملا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق کی۔

دوسری جانب وزیراعظم نواز شریف نے بلوچستان کے علاقے دالبندین میں ہونے والے فضائی حملے کو پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا۔لندن میں میڈیا سے گفتگو میں وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے 2 افراد میں افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور بھی شامل تھے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ نے ملا منصور کے بارے میں اطلاع ڈرون حملے کے بعد دی تھی۔ذرائع کا دعویٰ تھا کہ ملا اختر منصور کے ماضی میں پاکستانیوں کے ساتھ کچھ تعلقات تھے مگر ان تعلقات میں ان کے افغان طالبان کے امیر بننے کے بعد کشیدگی آ گئی تھی۔پاکستان نے گزشتہ کچھ عرصے میں متعدد بار کوشش کی کہ وہ افغان مفاہمتی عمل میں شامل ہو جائیں لیکن ملا اختر منصور کی جانب سے اس کو قبول نہیں کیا گیا۔امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں موجود سفارتی مبصرین اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ملا اختر منصور کی ہلاکت سے طالبان مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں گے، طالبان کے پہلے امیر ملاعمر کی ہلاکت پر طالبان پہلے ہی کئی دھڑوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔

[pullquote]افغان طالبان کی تصدیق[/pullquote]

افغان طالبان کے ایک سینئر کمانڈر ملا عبدالرؤف نے ملا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ میں انہوں نے بتایا کہ ملا منصور کو جمعے کو پاک-افغان سرحدی علاقے میں نشانہ بنایا گیا۔اس کے علاوہ افغان صدر اشرف غنی نے ایک بیان میں حملے کی تصدیق کی ہے تاہم انہوں نے ملا منصور کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی جبکہ افغانستان کے چیف ایکگزیکتو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نےملا منصور کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے.

[pullquote]اخترمنصور:قندھارسےطالبان کے امیر تک[/pullquote]

امریکی ڈرون حملے میں مارے جانےوالے ملااختر منصور نے جولائی 2015 میں ملا عمر کی موت کے بعد افغان طالبان کی کمان سنبھالی۔ملا اختر منصور کا تعلق افغانستان کے صوبے قندھار سے تھا، اُن کی عمر 50 سال اور تعلق افغان قبیلے اسحاق زئی سے بتایا جاتا تھا۔افغان طالبان کے امیر نے خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ کے جلوزئی مہاجر کیمپ میں دینی مدرسے تعلیم بھی حاصل کی تھی۔سابق سویت یونین کے خلاف جنگ میں ملا اختر منصور نے بھی حصہ لیا تھا اور 90 کی دہائی کے آخر میں جب افغانستان میں ملا عمر کی سربراہی میں تحریک طالبان بنائی گئی تو ملا اختر محمد منصوراُس میں شامل ہوئے۔

اختر منصور کو ملا عمر کے انتہائی قریب مانا جاتا تھا۔طالبان دور حکومت کے دوران ملا اختر منصور 2001-1996 تک افغانستان کے سول ایوی ایشن کے وزیر بھی رہے۔وہ طالبان کی حکومت میں ایوی ایشن کی وزارت کے ساتھ ساتھ قندھار میں کیا جہادی کمانڈر بھی تھے، جو داخلی انتشار پر قابو پانے کی جدوجہد کر رہے تھے، جبکہ ان کے ماتحت ایک ایسی وزارت تھی جس کے جہازوں کے لیے پرزے تک دستیاب نہیں تھے۔طالبان نے عمومی طور پر کابل سے افغانستان پر حکومت کی لیکن ملا منصور اس دور کے ایسے وزیر تھے جو قندھار سے ایوی ایشن کی وزارت کا کنٹرول سنبھالے ہوئے تھے۔افغانستان پر اکتوبر 2001 میں امریکی حملے کے دوران دیگر طالبان رہنماؤں کی طرح ملا اختر منصور بھی نامعلوم مقام پر روپوش ہوئے۔

کئی برسوں بعد طالبان قیادت دوبارہ منظم ہوئی تو وہ بھی منظر عام پر آئے اور قندھار میں طالبان کی قیادت کرتے رہے۔ملا اختر منصور جولائی 2015ء میں ملا عمر کی موت کی خبر سامنے آنے کے بعد افغان طالبان کے سربراہ بنے۔امارات اختر منصور کے پاس آنے کے بعد طالبان کی تحریک میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہوئی، طالبان کے بڑے رہنماء اپنے اپنے گروہ کے ساتھ بڑے عہدوں کے حصول کے خواہاں ہوئے، ایسے میں کئی بار طالبان کی شوریٰ میں اختلاف کی بازگشت سنائی دی۔

[pullquote]’ڈرون حملہ پاکستانی خودمختاری کی خلاف ورزی'[/pullquote]

وزیراعظم نواز شریف نے بلوچستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اس حملے کے خلاف امریکا سے شدید احتجاج کیا گیا ہے۔لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے بلوچستان کے علاقے دالبندین میں ہونے والے فضائی حملے کو پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا۔ٹی وی چینلز کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے 2 افراد میں افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور بھی شامل تھے۔

لندن میں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ امریکا نے ڈرون حملے سے متعلق آگاہ کیا تھا اور امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری کا ہفتے کی رات ساڑھے 10 بجے ٹیلی فون آیا تھا۔انہوں نے کہا کہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ نے ملا منصور کے بارے میں اطلاع ڈرون حملے کے بعد دی تھی۔وزیراعظم نے بتایا کہ جائے وقوع سے ولی محمد نامی شخص کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ ملا ہے جو قلعہ عبداللہ کا رہائشی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ڈرون حملے پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کی خلاف ورزی ہیں۔دوسری جانب افغان طالبان کے ایک سینئر کمانڈر ملا عبدالرؤف نے بھی ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ میں ملا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق کی۔

[pullquote]ملا اختر منصور پر ڈرون حملہ: ‘امریکا نے آگاہ کیا تھا'[/pullquote]

اسلام آباد: پاکستان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان رہنما ملا اختر منصور پر کیے جانے والے ڈرون حملے سے قبل امریکا نے معلومات کا تبادلہ کیا تھا۔ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا کے مطابق واقعے میں دو افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے ایک کی شناخت محمد اعظم کے نام سے ہوئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ جائے وقوعہ سے ملنے والے شواہد کی روشنی میں ہلاک ہونے والے دوسرے شخص کی شناخت کی تصدیق کی کوشش کی جارہی ہے۔ترجمان نے بتایا کہ ڈرون حملے سے متعلق معلومات آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم نواز شریف سے شیئر کی گئی تھیں۔انہوں نے کہا کہ یہ ڈرون حملہ پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی تھا اور امریکا کے ساتھ ماضی میں بھی یہ معاملہ اٹھایا گیا ہے۔ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری کا کہنا تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کو ٹیلی فون پر ڈرون حملے سے متعلق آگاہ کر دیا گیا تھا۔

[pullquote]بلوچستان میں ڈرون حملہ ’ریڈ لائن‘ کی خلاف ورزی[/pullquote]

اسلام آباد: افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کو نشانہ بنانے کے لیے امریکی ڈرون حملہ بلوچستان میں پہلا ڈرون حملہ تھا، جو طویل عرصے سے پاکستان کے لیے ’ریڈ لائن‘ رہا ہے۔لانگ وار جرنل کے ڈیٹا بیس کے مطابق 2004 سے اب تک، امریکا نے پاکستانی حدود میں 391 ڈرون حملے کیے، جن میں بنیادی طور پر القاعدہ اور طالبان رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا۔ان ڈرون حملوں میں سے چار کے علاوہ تمام حملے شورش زدہ قبائلی علاقوں میں کیے گئے، بندوبستی علاقوں میں کیے جانے والے چار حملوں میں ضلع ہنگو میں 2013 میں کیا جانے والا ڈرون حملہ اور بنوں میں 2008 میں کیے جانے والے 3 ڈرون حملے شامل ہیں۔مجموعی ڈرون حملوں میں سے 71 فیصد شمالی وزیرستان، جبکہ 23 فیصد جنوبی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں کیے گئے۔بنوں میں ڈرون حملوں کے بعد پاکستانی قیادت میں یہ خوف پھیلا کہ امریکا، ڈرون حملوں کا دائرہ قبائلی علاقوں سے بندو بستی علاقوں تک پھیلا رہا ہے۔سفارتی ذرائع نے انکشاف کیا کہ بنوں میں ڈرون حملوں کے بعد، پاکستان میں تعینات ایک امریکی سفارتکار اینے ڈبلیو پیٹرسن نے واشنگٹن انتظامیہ کو آگاہ کیا کہ ’بنوں میں ڈرون حملوں کے حوالے سے اُن سیاست دانوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے جو دہشت گردوں سے تھوڑی بھی ہمدردی نہیں رکھتے۔‘اگرچہ پاکستانی حکومت ہمیشہ سے ڈرون حملوں کی مذمت اور انہیں پاکستان کی خود مختاری کے خلاف قرار دیتی آئی ہے، لیکن 2010 میں امریکا کو ’ریڈ لائنز‘ واضح کردی گئی تھیں، جس میں خاص طور پر بلوچستان کو نو گو ایریا بتایا گیا تھا۔اس حوالے سے اوباما انتظامیہ کو بھیجی جانے والی دستاویز میں ’ریڈ لائنز‘ کے حوالے سے واضح کیا گیا تھا کہ ’ڈرون حملوں کا دائرہ بلوچستان تک نہ پھیلے۔‘

[pullquote]ملا منصور: ’دھیمے مزاج کے مالک اور مذاکرات کے حامی‘[/pullquote]

رفعت اللہ اورکزئی
بی بی سی پشاور

افغانستان میں طالبان تحریک کے سربراہ ملا محمد اختر منصور کی پاکستان میں ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کی تصدیق جہاں افغان اور امریکی حکام کی جانب سے کر دی گئی ہے وہیں افغان طالبان اور پاکستان کی جانب سے تاحال اس بارے میں شک کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ملا اختر منصور کو گذشتہ برس جولائی میں افغان طالبان کی اہم کونسل رہبر شوریٰ کی جانب سے امارت اسلامیہ کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔اسحاق زئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ملا منصور کا تعلق افغانستان کے صوبے قندہار سے تھا جس کی سرحد پاکستان کے صوبے بلوچستان سے ملتی ہے۔وہ’افغان جہاد‘ کے دوران خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ میں جلوزئی کے مقام پر ایک مہاجر کیمپ میں دینی مدرسے کے طالب علم بھی رہے۔

طالبان ذرائع کے مطابق ملا اختر منصور نے سابق سویت یونین کے خلاف ایک مختصر عرصے تک جہاد میں حصہ لیا اور اس وقت وہ افغان جہادی پارٹی حزب اسلامی افغانستان (یونس خالص) گروپ سے منسلک تھے۔ وہ سابق افغان صدر ڈاکٹر نجیب کی سوویت یونین نواز حکومت کے خلاف بھی لڑتے رہے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ 90 کی دہائی کے آخر میں جب افغانستان میں ملا عمر کی سربراہی میں تحریک طالبان کا ظہور ہوا تو ملا اختر محمد منصور نے بھی اس تحریک میں شمولیت اختیار کر لی۔وہ طالبان دور حکومت کے دوران سول ایوی ایشن کے وزیر اور کچھ عرصہ تک قندہار ایئرپورٹ کے انچارج بھی رہ چکے ہیں۔

تاہم اکتوبر 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو دیگر طالبان رہنماؤں کی طرح ملا اختر منصور بھی نامعلوم مقام پر روپوش ہوگئے اور ایک لمبے عرصے تک غائب رہے۔لیکن جب طالبان قیادت دوبارہ منظم ہوئی تو وہ بھی منظر عام پر آئے اور اس دوران وہ قندہار صوبے کے لیے طالبان کے ’شیڈو‘ گورنر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کے ایک اہم رہنما اور ملا عمر کے نائب ملا عبید اللہ آخوند جب پاکستان ایک آپریشن کے دوران گرفتار ہوئے تو اس کے بعد ملا عبدالغنی برادر کو ملا عمر کا نائب مقرر کیا گیا اور اس دوران دو نائب بھی منتخب ہوئے جن میں ایک ملا اختر منصور بھی شامل تھے۔پشاور میں افغان امور پر کام کرنے والے سینیئر افغان صحافیوں کا کہنا ہے کہ سنہ 2010 میں جب ملا عبدالغنی بردار کو پاکستان کے شہر کراچی میں پاکستان اور امریکی فورسز کی ایک مشترکہ کارروائی میں گرفتار کیا گیا تو اس کے بعد ملا اختر منصور کو ملا عمر کا نائب مقرر کیا گیا اور اس دوران انہیں طالبان کے ’رہبر شوری ‘ کے قائم مقام سربراہ کی ذمہ داری بھی سونپی گئی۔وہ طالبان کے سربراہ مقرر ہونے تک یہ ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہے تھے۔سینیئر افغان صحافی سمیع یوسف زئی نے کئی مرتبہ طالبان کے نئے سربراہ ملا اختر منصور سے ملاقات کی اور ان کے مطابق وہ ایک دھیمے مزاج کی مالک شخصیت اور مذاکرات کے حامی بھی بتائے جاتے ہیں۔

[pullquote]امیر جو بھی ہو ، پالیسیاں وہی ہوگی .[/pullquote]

افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا ہے کہ افغان طالبان نے ابھی تصدیق نہیں کی کہ ملا اختر منصور ڈرون حملے میں مارے گئے ہیں اور جب تک وہ تصدیق نہیں کرتے، یہ خبر مصدقہ نہیں کہلائی جا سکتی۔ان کا کہنا تھا کہ بعض اطلاعات کے مطابق افغان طالبان کے کمانڈر ملا عبدالروف نے طالبان کے سربراہ کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے، لیکن بعد میں ملا عبدالروف نے اس کی تردید کر دی۔رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ طالبان کی تردید کے باوجود ایسے ٹھوس شواہد ملے جن سے تصدیق ہوتی ہے کہ افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور ہی امریکی ڈرون حملے کا نشانہ تھے۔ان کے بقول ملا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق افغان حکام کی جانب سے کی جا رہی ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ انھیں یہ خبر امریکی حکام نے دی ہو گی۔سینیئر تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کے سربراہ کو پاکستان کے صوبے بلوچستان کے علاقے نوشکی کے قریب نشانہ بنایا گیا۔

ان کے بقول تمام تر معلومات کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ جب تک طالبان اس بات کی تصدیق نہیں کرتے، ہم اس خبر کو مصدقہ نہیں کہہ سکتے۔ایک سوال کے جواب میں رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ ملا اختر منصور امن مذاکرات کے مخالف تھے اس لیے امریکہ ان کو امن کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر دیکھتا تھا اور شاید اسی لیے امریکہ نے انھیں نشانہ بنایا ہے۔رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ افغان اور امریکی حکام پاکستان سے کہتے آئے ہیں کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کردار ادا کرے یا پھر افغان طالبان کے خلاف کارروائی کرے، جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ وہ اس سلسلے میں ہر ممکن مدد کرے گا، لیکن افغان طالبان کے خلاف کوئی فوجی کارروائی نہیں کی جائے گی کیونکہ پیچھلے 15 سالوں میں امریکہ اور اتحادی افواج کی کا جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کے باوجود امن قائم نہیں کیا جا سکا۔

[pullquote]نیا امیر کون ؟ ملا ہیبت اللہ خانزادہ یا پھر سراج الدین حقانی[/pullquote]

اس حملے کے بعد امن مذاکرات بالکل ناممکن ہو جائیں گے اور عین ممکن ہے کہ طالبان کی کارروائیوں میں تیزی آ جائے۔ایک سوال کے جواب میں رحیم اللہ یوسف زئی نے بتایا کہ ملا اختر منصور کی ہلاکت کی صورت میں ملا ہیبت اللہ خانزادہ یا پھر سراج الدین حقانی کو طالبان کا نیا سربراہ منتخب کیا جا سکتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کے سابق سربراہ ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب کو بھی سربراہ بنایا جا سکتا ہے اور ان کے نام پر طالبان کے تمام دھڑوں میں اتفاق آسان ہو گا۔رحیم اللہ کے بقول جو بھی نیا امیر آئے گا اس سے طالبان کی پالیسیوں میں فوری طور پر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

[pullquote]’افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور ہلاک‘[/pullquote]

واشنگٹن: امریکی محکمہ دفاع نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب اعلان کیا کہ پاک افغان سرحد پر ایک دور دراز علاقے میں فضائی حملے میں افغانستان کے طالبان کے رہنماء ملا اختر منصور ہلاک ہو گئے ہیں۔پینٹاگون کے ترجمان پیٹر کوک نے بتایا کہ امریکی محکمہ دفاع نے پاک افغان سرحد پر ہدف کے عین مطابق کی گئی ایک فضائی کارروائی میں ملا اختر منصور کو نشانہ بنایا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی صدر نے اس حملے کی اجازت دی تھی جبکہ پاکستان اور افغانستان کو حملے سے متعلق مطلع کر دیا گیا تھا۔پیٹر کوک نے بتایا کہ ملا اختر منصور افغانستان میں طالبان کے سربراہ تھے جبکہ وہ افغانستان میں موجود امریکیوں، افغان شہریوں کے ساتھ ساتھ افغان سیکیورٹی اداروں اور اتحادی افواج کے لیے ایک مستقل خطرہ تھے۔امریکی حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملا اختر منصور افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والی مفاہمت میں بھی سب سے بڑی روکاوٹ تھے، کیونکہ افغانستان میں تنازع کے خاتمے کے لیے شروع کیے گئے امن عمل میں انہوں نے طالبان رہنماؤں کے شریک ہونے پر پابندی عائد کی ہوئی تھی۔پینٹاگون کے مطابق ملا عمر کی ہلاکت کے بعد قیادت سنبھالنے والے ملا اختر منصور کی سربراہی میں طالبان نے کئی حملے کیے، جس میں افغانستان کے ہزاروں عام شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ کئی امریکی اور اتحادی فوجی بھی ہلاک ہوئے۔

[pullquote]پاک افغان سرحد سے 2 جلی ہوئی لاشیں برآمد[/pullquote]

کوئٹہ: بلوچستان میں پاک افغان سرحد کے قریب 2 افراد کی جلی ہوئی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔دونوں افراد کی لاشیں ایک تباہ شدہ گاڑی سے برآمد ہوئیں، یہ گاڑی جلی ہوئی حالات میں دونوں ممالک کی سرحد پر ایک ویران علاقے سے ملی۔حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کی فوری طور پر شناخت نہ ہو سکی تاہم ان کی لاشیں کوئٹہ کے سول ہسپتال منتقل کی گئیں۔کوئٹہ کے سول ہسپتال میں پوسٹ مارٹم میں یہ بات سامنے آئی کہ دونوں افراد کی ہلاکت بارودی مواد کے دھماکے سے ہوئی۔دھماکے سے دونوں افراد کے جسم اس حد تک خراب حالت میں تھے کہ ان کی شناخت ممکن نہیں تھی۔بعد ازاں ان افراد کی شناخت ولی محمد اور محمد اعظم کے نام سے ہوئی۔پولیس کے مطابق ولی محمد بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کا رہائشی تھا جبکہ تباہ ہونے والی گاڑی سے برآمد ہونے والے اس کے پاسپورٹ کے مطابق وہ 14 اپریل کو پاکستان سے ایران کیا تھا جبکہ بعد ازاں وہ تفتان سے 21 مئی کو دوبارہ پاکستان آیا تھا۔محمد اعظم ٹیکسی ڈرائیور تھا جو کہ بلوچستان کے علاقے تفتان کا رہائشی تھا، محمد اعظم کے اہل خانہ کو اس کی لاش حوالے کر دی گئی۔ٹیکسی ڈرائیور محمد اعظم کے اہل خانہ کے مطابق وہ گزشتہ روز ایک ہی سواری کو تفتان سے لے کر روانہ ہوا تھا۔مقامی انتظامیہ کی جانب سے اس علاقے میں کسی بھی دھماکے کی تردید کی گئی۔قبل ازیں یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ اس علاقے میں ڈرون حملے میں گاڑی تباہ ہوئی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے