قیادت کا بحران

پاکستان میں کسی افغان شہری کا مقیم ہونا کبھی بھی کوئی حیران کن بات نہیں ہوسکتی کہ خود اقوام متحدہ کی دستاویز کے مطابق ہمارے یہاں دو ملین سے زائد افغان مہاجرین موجود ہیں، سو ان میں عام طالبان بھی ہوسکتے ہیں اور ملا عمر و ملا اختر منصور ایسے عالمی شہرت یافتہ قائدین بھی۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ کس طرح افغانستان میں امریکی ناک کے نیچے ٹی ٹی پی اور جماعت الحرار ایسی تنظیموں کی شکل میں مفرور پاکستانی شہریوں کے پورے پورے جتھے کام کررہے ہیں اور کیونکر ننگرہار میں ملا فضل اللہ کے ٹھاکوں پر کبھی ڈرون حملے نہیں ہوتے؟۔ جناب اگر ہم امریکہ کو مطلوب شیخ اسامہ بن لادن کی اپنی سرزمین پر روپوشی سے لاعلم رہے ہیں تو اسکی سزا ہمیں مطلوب براہمداغ بگتی کو باقاعدہ سرکاری مہمان کا پروٹوکل دیکرکیسے دی جاسکتی ہے؟

لیکن بات یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کی ان منافقانہ پالیسیوں سے زیادہ قصور ہماری سول و فوجی قیادت کا ہے۔ دالبدین میں جس گاڑی کو نشانہ بنایا گیا ہے اس سے مبینہ طور پر برآمد ہونے والا پاسپورٹ کس نے ذرائع ابلاغ کو جاری کیا؟ ملا اختر منصور کی موجودگی کا علم اگر ہمارےاداروں کو تھا تو انہوں نے انہیں کیونکر آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دی اور اگر وہ لاعلم تھے تو انٹیلجنس کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟ جس گاڑی کو نشانہ بنایا گیا وہ ایران سے پاکستان آرہی تھی، یوں اس واقعے میں ایرانی اور امریکی خفیہ اداروں کے ممکنہ رابطوں سے پاکستان کیوں بروقت باخبر نہ ہوسکا۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر وقوع پزیر ہونے والے اس واقعے کا علم خود پاکستان کو امریکی اطلاعات کے بعد ہی کیوں ہوا۔دونوں لاشیں سول اسپتال کوئٹہ میں موجود ہیں لیکن ذمہ دار شخصیات پھر بھی واقعے کی تصدیق یا تردید تو درکنار ، صورتحال کو پاکستان کے حق میں واضع کرنے کے لئے سامنے آنے کو تیار نہیں ہیں، ڈر ہے کہیں امریکہ بہادر ناراض نہ ہوجائے۔

بات بات پر ٹوئٹ کرنے والے جنرل عاصم باجوہ ہوں یا آرمی چیف، دونوں قومی سلامتی کے اس اہم ترین معاملے پر مکمل خاموش ہیں۔ آئی ایس پی آر اپنے ادارے کی ساخت اور اپنے سربراہ کی شخصیت سازی کیلئے جتنی متحرک نظر آتی ہے، اگر اسکا دس فیصد بھی قومی سلامتی سے متعلق عالمی سطح پر پائے جانے والے مغالطوں، غلط فہمیوں اور منففی نقطہ نظر کو درست کرنے اور دشمن کے پراپیگنڈے کا مقابلہ کرنے پر خرچ کرتی تو شاید نہ کشمیری حریت پسند دہشت گرد سمجھے جاتے اور نہ پاکستان میں طالبان رہنماوں کی موجودگی کی خبروں پردنیا ہمیں یوںمشکوک نظروں سے دیکھتی۔ سپہ سالار کی اصل قابلیت تصویروں ، بیانات او ر جھوٹے سچے قصوں میں نہیں اسکے منفرد اور حیران کن منصوبے میں پنہاں ہوتے ہیں، اس اعتبار سے جنرل راحیل شریف اب تک ایسے کونسے منصوبے اور کارنامے اپنے نام کرسکے ہیں جو ان سے قبل انکے کسی پیش رو نے نہ کئے ہوں۔ اگر فوج سول قیادت کو مطلع کئے بغیر انگورہ چیک پوسٹ افغانستان کے حوالے کرسکتی ہے تو خیرسگالی پر مبنی ان تحائف کے بدلے افغان علاقوں میں ٹی ٹی پی کے خلاف مشترکہ یا یکطرفہ کاروائی کی کوئی ترتیب کیوں بنائی نہیں جاسکتی۔

دوسری طرف ہماری سول انتظامیہ کی خارجہ پالیسی میں دلچسپی کا اندازہ تو صرف اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے تین برسوں سے کوئی باقاعدہ وزیر خارجہ ہی موجود نہیں ہے۔ چین کے علاوہ تمام دوسرے ہمسائیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں، پاکستان کی اقصادی ناکہ بندی کیلئے ایران، افغانستان اور ہندوستان ایک ساتھ کھڑے ہوچکے ہیں اور امریکہ ہمارے مقابلے میں ہمارے دشمنوں کی مدد کررہا ہے۔ لیکن ہمارے وزیر اعظم کو فی الحال کو اپنے ذاتی معائنوں سے فرصت نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میاں صاحب اس قائدانہ صلاحیت سے ہی یکسر محروم ہیں جو ایران اور افغانستان کو مرعوب کرسکے اور عالمی سطح پر پاکستان کے وقار کو بہتر کرے۔حزب اختلاف کے رہنما عمران خان کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اس لئے خاموش ہیں کیونکہ انکے باس خاموش ہیں، ہمیں حقیقت تو نہیں معلوم لیکن انکی خاموشی ضرور معنی خیز ہے۔

مختصر یہ کہ ہماری سول قیادت ہو یا فوجی کمان ، پاکستان کو درپیش مسائل کے حل کی صلاحیت سے دونوں ہی یکسر محروم ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ایوب خان اور ذولفقار علی بھٹو کے بعدملک کو دوبارہ کوئی ایسا جہاندیدہ رہنما میسر نہ آسکا جو ایک طرف عالمی سطح پر اپنی ذات میں انجمن تصور کیا جائے تو دوسری طرف ملکی سطح پر اسکا کوئی ہمسر نہ ہو۔ چلیں جہاندیدہ نہ سہی، ہمیں درمیانے درجے کی کوئی مخلص قیادت ہی میسر آجاتی تو یہ بھی غنیمت ہوتا!۔ کسی نے اس قومی المیے کی زیادہ بہتر الفاظ میں یوں غمازی کی کہ” گو قائد افغان طالبان کا قتل ہوا ہے، لیکن قیادت کا بحران پاکستان میں نظر آرہا ہے”۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے