"وفاداری” اور ” کمیشن”

چند روز قبل میں ایک اٹالین فلم دیکھ رہا تھا جس میں ایک "وفادار” کتے کی اپنے "گھر” اور مالک سے "وفاداری” نے میری آنکھیں نم کر دییں۔
اٹالین زبان پر تو عبور نہیں پر اس فلم کی کہانی اتنی جاندار تھی کہ مجھے ساری فلم کے دوران کبھی بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ یہ اٹالین زبان میں ہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اداکاری خالصتاً اردو زبان میں ہو رہی ہے۔
اس "وفادار”کتے کا مالک ایک درمیانے درجے کا امیر اور شہرت کا حامل شخص تھا۔ اس کی وجہ شہرت سے بہت سے لوگ اس سے جلتے تھے اور اسی وجہ سے وہ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طور اس کو لوٹا جائے۔ یہ شخص اکیلا اس بنگلے میں رہتا تھا۔ ( اس فلم میں اس کتے کو مالک کے گھر میں اکیلا ہی دیکھایا گیا ہے۔ اگر گھر سے متعلق کو اور کردار بھی ہوتا تو میں اس کو بھی شامل کرتا)۔

کئی بار ایسا ہوا کہ چور چوری کی غرض سے گھر میں داخل ہونا چاہتے تھے مگر "وفادار” کتے نے بھرپور مزاحمت کی اور اس کے مسلسل بھوکنے کی وجہ سے چور ناکام ہوئے۔ کئی بار "واردات” کے لئے آئے افراد نے کتے کی جانب گوشت بھی پھینکا مگر اس "وفادار” کتے نے "گوشت ” کی بجائے "گوشت پھینکنے والے ” کا تعاقب کیا۔ ایک بار بھاگتے ہوئے چوروں کی فائرنگ سے "وفادار” کتا بری طرح سے زخمی ہوا مگر پھر بھی "گھر ” اور اپنے "مالک” کی جانب کسی کو بڑھنے نہ دیا۔

مالک کو کتے سے بھی بے حد پیار تھا اور کتے نے بھی مرتے دم تک
گھر کی پوری طرح سے حفاظت کی اور ایک مثال قائم کر کہ رکھ دی۔

ایک دفعہ کسی نے اس کتے کے مالک پر اس وقت فائر داغہ جب وہ اپنی کار میں کسی طرف سفر کر رہا تھا اور کتا بھی اس وقت مالک کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔ مالک کی گردن میں گولی لگی۔ جس سے وہ بری طرح زخمی ہو گیا۔ اسے ہسپتال پہنچایا گیا جہاں گہرے زخم اور خون کے زیادہ بہنے کی وجہ سے مالک کا انتقال ہو گیا۔
مالک کو ہسپتال سے جب تابوت میں بند کر کہ جنازے والے کار میں رکھنے لگے تو کتے سے یہ دیکھ کر برداشت نہ ہوا اور فرش پر گر کر جان دے دی۔ جانورں کے ڈاکٹروں نے کتے کی موت کی وجہ "ہارٹ اٹیک” بتائی۔ !!!
یہ ایک” جانور "کی محبت تھی اپنے گھر اور مالک سے۔
میں نے انگلینڈ میں بھی دیکھا ہے کہ ہر دسويں مرد اور ہر تیسری عورت کے پاس پالتو کتا ہوگا مگر اٹلی میں صورت حال کچھ مختلف ہے۔ یہاں کتوں کی نسل اور تعداد انگلینڈ کی نسبت کچھ زیادہ ہی ہے۔ یہاں کوئی خوش قسمت ہی بچہ ہو گا جس کو والدین نے گود میں لیا ہو گا یا سینے سے لگا رکھا ہو گا۔ مگر بہت کم چھوٹے کتوں کو پیدل چلتے دیکھا ہو گا۔
گاڑی میں مالک کے ساتھ والی سیٹ پر اس کا پالتو کتا براجمان ہو گا جبکہ پچھلی جانب بچہ اپنی مخصوص سیٹ پر ہوگا۔ بوڑھے والدین کو جب ان کے جوان سالہ بچے "اولڈ ہومز” یا "نرسنگ ہومز” منتقل کرتے ہیں تو یہ "وفادار” بھی اپنی ہمدردیاں نہیں بدلتے بلکہ ان کے ساتھ یہ بھی وہ گھر چھوڑ جاتے ہیں۔
"فادرز ڈے ”
اور "مادرز ڈے” پر بچے ہر سال ان کو پھول اور تحفے دینے آتے ہیں تو ان کے لئے بھی کچھ نہ کچھ لے آتے ہیں۔ اس دوران مالک کی کسی چیز کو کسی دوسرے کو ہاتھ تک نہیں لگانے دیتے۔ یہاں تک کہ مالک کی کرسی پر بھی کسی دوسرے کو برداشت نہیں کرتے۔۔۔

کلائمیکس :

ہمارے ملک سے اربوں روپیہ بیرون ملک منتقل ہو گیا اور کسی "وفادار” کو یہ احساس نہیں ہوا کہ گھر کا مال غیر قانونی طریقے سے باہر منتقل ہو رہا ہے !!!! کسی نے بھی آواز نہیں لگائی !!! ہمارے ملک کے وہ "وفادار” جن کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ قانونی "ان”اور "آوٹ” پر نظر رکھیں۔ وہ اپنی ڈیوٹی کو بھول کر لالچ کے لئے "پھینکا ہوا گوشت” کھانے میں مصروف ہو گئے اور لوٹنے والے لوٹ کر لے گئے۔

اب کیا ہو گا ؟؟؟

میں نے میٹرک یا ایف اے کی اردو کی کتاب میں ایک کہانی پڑھی تھی "کمیشن” ۔۔۔۔۔
جس میں بتایا گیا تھا کہ جب کوئی حکومت کسی بڑے اہم مسلئے کو حل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو وہ اس مسلئے کو الجھانے کے لئے حکومت وقت ایک "کمیشن ” تشکیل دے کر اس مسلئے کو طول دی دیتی ہے۔ اور اس کمیشن کا مقصد حقائق کو سامنے لانا نہیں ہوتا بلکہ حکومتی مدت کو آگے کی جانب دھکیلنا ہوتا ہے۔
جتنے عرصہ تک یہ کمیشن کسی مفروضے تک پہنچتا اس وقت تک عوام آئندہ انتخابات کے حتمی نتائج کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ اور ویسے بھی اتنےعرصے تک انسان اپنی حقیقی رشتوں کے داغ مفارقت کا غم بھول جاتا ہے!!!! یہ کون سا کسی کا انفرادی مسلئہ ہے یہ تو قومی مسلئہ ہے !!!! اور قوم تو ابھی سو رہی ہے!!!! ۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے