دین ، مذہب اور ہم

عام طور پر لوگ مذہب کو دین سمجھ کر ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں، ایک جیسا مانتے ہیں اور دونوں کے ساتھ ایک جیسا ہی برتاو کرتے ہیں، لیکن خاکسار کی رائے میں ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔
موضوع کو چھیڑنے سے پہلے یہ بات واضح کرتا چلوں کہ اس تحریر کا اکثر حصہ اسلام اور اس کے مذاہب کو پیش نظر رکھ کر لکھا گیا ہے، لہذا دوسرے مذاہب و ادیان کے پیروکار نہ تو پریشان ہوں اور نہ ہی رنجیدہ خاطر۔
خداوندمتعال، اسلام ہی کو دین کہتا ہے، یعنی قرآن کے مطابق دین فقط اور فقط اسلام ہے، اب سوال یہ ہے کہ پھر یہودیت ، نصرانیت، سابئیت اور مسیحیت کیا ہے؟ یا پھر پیامبر اسلام [ص] کی آنکھ بند ہوجانے کے بعد، شیعیت، سنیت ، مالکیت، حنفیت، شافعیت، حنبلیت، یا پھر آخری چند صدیوں میں پیدا ہونے والی وہابیت، دیوبندیت، بریلویت، وغیرہ کیا ہیں؟ یہ تو چند مشہور نام ہیں جو آج باقی ہیں ، ورنہ فرقوں کی کتابیں اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ فرقے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہیں۔
مختصر جواب یہ ہے کہ یہ سب کے سب مذہب ہیں۔۔۔۔۔ مذہب ۔۔۔۔
اب ہر مذہب اگر دین ہوتا تو پھر اسے مذہب نہ کہا جاتا ، اور اگر ہر دین مذہب ہوتا تو پھر مذہب بنانے کی ضرورت ہی نہ پیش آتی بلکہ مذہب وجود میں ہی نہ آتا۔
تو پھر دین و مذہب کی کہانی کیا ہے؟
دوستو یہ باتیں جو کہنے جا رہا ہوں ، نہ تو وحی منزل ہیں اور نہ ہی پیر مغاں کے سنجیدہ نصائح، بلکہ ان کی حیثیت ایک عقلی و فکری تجزیے کی ہے جو ادیان کی تاریخ اوران کے معاشروں کی مجموعی صورتحال کو دیکھنےکے بعد ذہن میں آیا ہے، اس کی صحت و سقم دونوں کا امکان ہے، اگرچہ میں اسے صحیح ہی سمجھتا ہوں۔آپ سے فقط عقل کے ترازو پر تولنے کی استدعا ہے ، کیونکہ تعصبات کی عینک حقیقت کے مشاہدے سے روکتی ہے۔
اسلام بلکہ تمام ابراہیمی ادیان کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالنے سے ہم اس نتیجے پر پہنچنے میں بالکل بھی نہیں کتراتے کہ مذہب ، دین کو ماننے والوں کے افکاراور جذبات کی پیداوار ہے۔ یہ افکار ان کے شعور ، ادراک اور ایمان ، بلکہ علم ، ثقافت اور افکار و اطوار، فقط یہی نہیں بلکہ سیاسی ، معاشرتی اور اقتصادی حالات سے متاثر ہو کر بنتے اور پنپتے ہیں۔ مذہب دین کی کوکھ سے پیدا ہوتا ہے اور اسی کی آغوش میں پروان چڑھتا ہے۔
اس لیے دین کی بنیاد ہمیشہ خدائی ہوتی ہے جبکہ مذہب اس دین کی بشری سطح کی پیداوار ہواکرتا ہے۔ دین آپ کو اصول سکھاتا ہے، جبکہ مذہب ان اصولوں پر چلنے کے لیے راستے تلاش کرتا ہے، جو کہ عام طور پر مختلف اور متعدد ہوتے ہیں۔ دین کا محور خداوند کی ذات ہوتی ہے، جبکہ مذاہب عام طور پر کسی انسان کے محور میں گھومتے ہیں۔
دین کے اندر کئی ایک تفسریں ہو سکتی ہیں، اور وہ اس دین کے لیے قابل برداشت ہوتی ہیں، جبکہ مذاہب ہمیشہ اپنی اندرونی تفسیروں کو تہس نہس کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔
دین انسان کو وحدت دے سکتا ہے، جبکہ مذاہب میں تعدد ہی بنیادی اصول ہوا کرتا ہے۔ لہذا مذہب کبھی وحدت سے دلچسپی نہیں لیتا۔
دین کے دشمنوں کی تعداد ، مذہب کے دشمنوں سے بہت کم ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب کسی بھی دین کی عینی تصاویر کو رقم کرتاہے ، اور یہ تصاویر معرض دید میں ہوتی ہیں، جبکہ خود دین پیچھے بیٹھ کر اس کو گائیڈ کرتا ہے۔
دین کو اگر ایک درخت کہا جائے ، جو ہر دور میں ، ہر معاشرے کے اندر، ہر قوم کے حساب سے کاشت کیے جانے کے لائق ہوتا ہے، اور مذہب کو اس درخت کا ثمر قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کوئی بھی دیندار انسان ، مذہب سے جدا نہیں ہو سکتا ، کیونکہ وہ دین کو کسی نہ کسی قالب اور ڈھانچے میں سمجھتا ہے۔ یہ ڈھانچہ اس کے افکار، اطوار، ارد گرد کے ماحول، سیاسی و معاشرتی اور تاریخی اقدار ، والدین ، اساتید اور اس قسم کے دیگر عناصر سے تشکیل پاتا ہے، اور یہ چیزیں کیونکہ ایک جیسی نہیں ہوتیں ، اس لیے مذہب بھی ایک جیسا نہیں ہوتا۔
اس لیے گہری نظر سے دیکھا جائے تو جہاں جہاں افکار کی آزادی رہی ہے، وہاں وہاں مذاہب کا گڑھ رہا ہے، آپ تاریخی طور پر مدینہ النبی [ص] کو شہر ِکوفہ سے مقایسہ کریں تو انگشت بدندان ہو کر رہ جائیں گے۔ آپ دیکھیں گے کہ مدینہ میں اتنے بڑے فقہاء ہونے کے باوجود چند گنے چنے مذہب وجود میں آئے ، اور وہ بھی ان کے اس دنیا سے جانے کو عرصہ دراز بیت جانے کے بعد، جبکہ کوفہ میں دوسری اور تیسری صدی میں فرقوں اور مکاتب فکر کی ایک لمبی فہرست نظر آتی ہے۔ یہ فرقے انہی چند افکار کا مجموعہ ہوتے تھے جو خاص طور پر اس مکتب کے طرز تفکر رکھنے والے اپنا لیا کرتے تھے۔
یہیں سے ہمیں اس سوال کا جواب بھی آسانی سے مل جاتا ہے کہ آج مذاہب یا جدید مکاتب فکر کی تعداد کیوں کم ہو گئی ہے؟ وجہ یہ ہے کہ مذاہب کو اگر انسانی افکار سمجھ کر تنقید اور تنقیح کے ترازو میں رکھا جائے تو ان میں تبدل و تغیر بلکہ ترقی کے چانس ہوتے ہیں ، جبکہ اگر تقدس کا لبادہ اوڑھا کر ان کی تقلید کی جانے لگے تو وہ آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتے ہیں۔ پس یہ بات دور از حقیقت نہیں ہو گی کہ مذہب کا تقدس اس کی موت کا باعث بنتا ہے، جبکہ دین کا تقدس اس کی حیات کا ۔
میرے خیال میں مذہب تب تک مذہب رہتا ہے جب تک وہ مقدس نہیں بنتا، ورنہ دین کی جگہ لے لیتا ہے۔ مذہب بشری واقعیت ہے، تقدس کے بجائے ، احترام کا زیادہ حقدار ہے۔ مذاہب جتنا تقدس پیدا کرتے ہیں، معاشرے میں عدم برداشت کو فروغ ملتا ہے۔ کیونکہ ہر مذہب دوسرے کی نفی کرتا ہے، اور اگر کسی کے تقدس کی نفی کی جائے تو تشنج کا پیدا ہونا معمولی بات ہے۔ احترام کے کئی درجات ہیں، جبکہ تقدس کا ایک ہی درجہ ہے۔ کیونکہ کوئی چیز یا تو مقدس ہے یا پھر نہیں ؟ اگر مقدس ہے تو پھر کتنی اور کس قدر کا سوال نہیں آتا ، جبکہ ہر چیز کا احترام اس کے اپنے حساب سے ہے۔
آج ہمارے معاشروں میں عدم برداشت کو فروغ کیوں مل رہا ہے؟ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کی آپس میں مذہبی بنیادوں پر تبھی سے جنگیں شروع ہوئیں جب مذاہب کو تقدس ملا ۔ اس سے قبل آپ دیکھیں کہ دوسری صدی ہجری میں شہر کوفہ دسیوں مکاتب فکر کو پروان چڑھا رہا ہے، لیکن کبھی جنگ و جدال کی نوبت نہیں آئی۔ اس کے برعکس آپ بغداد کوچوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں دیکھیں جب یہ شہر مذہنی منافرت کے نتیجے میں خانہ جنگی کا گڑھ بن چکا تھا۔
ہماری اپنی تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ معاشرے میں احترام کو رواج دینے کے لیے ، مقدسات کی فہرست میں کمی کرنا پڑے گی۔ ہم تبھی دوسروں کے مذاہب کو احترام دے سکیں گے جب اپنے مذہب کو تقدس سے ہٹا کر احترام کے درجے پر لا کھڑا کریں گے۔
اور آخر ی بات: دین اپنے مذاہب کے لیے ایک ماں کی حیثیت رکھتا ہے، اس کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ اس کی اولاد آپس کے لڑائی جھگڑوں سے پرہیز کرے ۔ کیونکہ بچوں کے زخموں سے ہمیشہ ماں ہی رنجیدہ خاطر ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اپنی اولاد کو تفرقہ سے بچنے کا ارمان دل میں لیے نصیحتیں کرتی ہے، سمجھاتی بجھاتی ہے ۔ یہ آرزو تبھی پوری ہو سکتی ہے، جب دین کو تقدس اور مذاہب کو احترام دینے پر ہم سب متفق ہو جائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے