ایران ہمارا دوست ہے؟(حصہ اول)

بلوچستان کے علاقے نوشکی کے قریب ایک کار کے جلنے کا واقع پیش آیا جس میں دو افراد جان سے گئے اور ایسے گئے کہ لاشیں بھی قابل شناخت نہ رہیں .

اگر اس واقعہ پر غور کیا جائے تو فوری طور پر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ جن افراد کو ڈرون میں مارے جانے کی متضاد اطلاعات آرہی ہیں وہ لوگ کون ہیں اور یہ جلنے والے افراد کون.

ذرا سوچنے پر معاملہ مکمل طور پر سمجھ میں آجاتا ہے کہ "وہ افراد” جن کے بارے میں پینٹاگون اپنے بیانیے میں کہہ رہا ہے وہ اور یہ جلنے والے لگ بھگ کچھ ملتے جلتے ہیں . اس بات کی اس حوالے سے بھی تصدیق ہو جاتی ہے کے ملک کے ایک معتبر نیوز چینل نے بھی کچھ دیر پہلے اس حوالے سے ایک خبر شائع کی اور گاڑی سے ملنے والے پاسپورٹ اور ملا منصور اختر کی تصویر کو باہم ملا کے بھی دیکھا جو کہ کچھ کچھ ملتی جلتی بھی تھیں.

مگر حیرت اس بات کی ہوئی کہ جلنے والی ایک لاش جس کا یہ پاسپورٹ تھا اگر وہ ملا منصور ہی تھا وہ ایران کے کئی چکر لگا چکا تھا اور قوی امکان ہے کہ یہ سفر بھی ایران کی جانب ہی ہو.

مگر بھلا ہو امریکہ بہادر کا کہ اس نے ایسے وقت پر دوبارہ اپنا کام دکھا دیا جب پانامہ کے شور میں میاں صاحب کی آواز کافی کمزور محسوس ہو رہی تھی. اب کچھ دن پانامہ پیپرز کسی کو یاد نہیں رہے گا اور یاد رہے گا بھی تو یہ ڈرون جو شاید امریکہ کی پسندیدہ حکومت کی کچھ مدد کر گیا…

اب آتے ہیں اس جانب جس کا کافی دنوں سے میں اظہار مختلف تحریروں میں کر چکا ہوں وہ یہ کہ آخر کیا وجہ ہے کے اب ہر دھشتگرد کی شناخت کے بعد یہ معلوم کیوں پڑتا ہے کے اس کا کسی بھی طرح سے واسطہ ایران سے ہے.

آپ اس سال کی ہی مثال اٹھا کے دیکھ لیں تو ھمیں اندازہ ہوگا کے عزیر بلوچ ہو یا کلبھوشن عرف حسین مبارک یا پھر نوشکی میں مارا جانے والا نامعلوم ولی محمد جس کے بارے میں ایک میڈیا ھاؤس کا کہنا ہے کہ یہ ایک طالبان کمانڈر تھا آخر انکے تعلق ایران سے کیوں نکلتے ہیں.

کیا وجہ ہے کہ اب ایران مکمل طور پر پاکستان مخالف قوتوں کا سہولت کار بنا ہوا ہے. اس کی ایک وجہ تو پاکستان کا سعودی اتحاد میں شامل ہونا اور اس میں پاکستان کا کلیدی کردار ادا کرنا بھی ہو سکتا ہے اور یہ بات روزِ اول سے عیاں ہے کے پاکستان کا یہ کردار ایرانی حکومت کو ایک آنکھ نہیں بھایا تھا جس کا خاموش احتجاج بھی ایران نے کیا.خاموش احتجاج سے مراد ایران کی جانب سے پاکستانی بارڈر پر پھینکے گئے کچھ میزائل جن کا تحفہ پاکستانی بے گناہ عوام کی ہلاکت تھا.

اب آتے ہیں اصل اور اندرونی بات پر کہ آخر ایران چاھتا کیا ہے؟ مجھے آج تک امریکی پالیسز کچھ یوں بھی سمجھ نہیں آئیں کہ وہ دنیا بھر کے مسلمان ممالک کو تباہ کرنے کے در پر ہے آخر کیا وجہ ہے کہ وہ ایران جیسے کمزور ملک کے خلاف کبھی کوئی قدم نہیں اٹھاتا.

ھم نے یہی بات اپنے ایک دوست سے کہی جن کا ایران میں کافی آنا جانا لگا رہتا تھا. موصوف فرمانے لگے کہ ایرانی ایک طاقتور اور ایک مضبوط قوم ہیں.
بالکل صاحب مضبوط ہوں گے مگر افغانیوں سے زیادہ تو نہیں.

اس بات کا اندازہ مجھے تب ہوا جب امریکہ نے ایران کے ساتھ خفیہ جوپری معاھدے کیے . اور تو اور بھارت کو راضی کیا کہ وہ ایران کے علاقے چاہ بہار میں گوادر کی طرز پر ایک پورٹ قائم کرنے میں ایران کی بھرپور معاونت کرے .

اس ضمن میں امریکہ کی سرپرستی میں ہی بھارت کا ایران کیساتھ گوادر مخالف بندرگاہ کے لیے بھارت کو پچاس کروڑ ڈالرز کے معاھدوں کا ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ایران اپنے ہی برادر اسلامی ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے کس حد تک نیچے جا سکتا ہے اور پاکستان مخالف قوتوں سے وقت پڑنے پر ہاتھ بھی ملا سکتا ہے.جس کا انعام اکرام ایران کو خوب مل رہا ہے پھر گزشتہ سال اچانک یہ کام شروع بھی ہو گیا اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے علاقے بلوچستان میں کافی پیمانے پر شورش شروع ہوگئی.

اب اگر جیسے ہی پاکستانی فورسز کوئی ایکشن لیتی ہیں تو بین الاقوامی میڈیا کی ایماء پر کچھ پاکستانی این جی اوز ٹھیک ٹھاک ریلیاں نکال لیتی کہ جناب پاکستانی فورسز مظلوموں پر ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے، ہے کوئی جو انہیں بچائے ہے کوئی ملک جو پاکستان کو بلوچوں کی نسل کشی سے روکے.

مگر اس ساری سازش کے پیچھے بھارت اور ایران کا ایسا گٹھ جوڑ ہوا کہ یہ نکاح دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے. بھارت نے اچانک اپنے ملک کے دروازے ایرانیوں کے لیے کھول دیئے. اور دیکھتے ہی دیکھتے دونوں طرف سے مکمل تجارت شروع ہو گئی دونوں جانب سے کروڑوں ڈالرز کی سرمایہ کاری شروع ہوگئی.

یہ سب کچھ راتوں رات تو ہوا نہیں تھا کہ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتا اس کے پیچھے کئی سالہ محنت مشقت تھی جو درپردہ امریکہ بہادر کے کہنے پر بھارت ایران کے ساتھ کر رہا تھا اور ایران بدلے میں کلبھوشن جیسے کئی سانپ پاکستان کے خلاف پال رہا تھا.

یہ سب بھانپتے ہوئے پاک چائنہ تعلقات نے بھی اپنا از سرِ نو جائزہ لیا اور سی پیک جیسے معاہدے کو عملی جامہ پہنایا گو کہ اس عمل میں پاکستانی سیاسی قوتوں نے خوب رخنہ ڈالا مگر پاکستان کی عسکری قیادت نے جب سی پیک منصوبے کا اسٹیرنگ اپنے ہاتھوں میں لیا تو سیاسی حلقوں میں یک دم خاموشی چھا گئی گو کہ ابھی بھی کچھ کچھ حلقوں کی جانب سے دبی دبی چیخ سنائی دے جاتی ہے مگر وہ اتنی کارگر نہیں ہوتی کے اس پر متوجہ ہوا جائے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے