کیا ہمارا اتنا جگرا ہے…؟؟؟

ایم-آئ-ٹی (MIT)، ہارورڈ یونیورسٹی (Harvard) اور سٹین فورڈ ( Stanford) امریکا ہی نہیں بلکہ دنیا کے بہترین تعلیمی ادارے سمجھے جاتے ہیں… مقابلے کے ان اداروں (Competitors) کے مختلف شعبوں میں تدریس و تحقیق کا انتہائی اعلی معیار برقرار رکھا جاتا ہے اور اس کے لئے دنیا بھر سے بہترین دماغوں کو چنا جاتا ہے… ان اداروں میں سالانہ شایع ہونے والے تحقیقی مقالوں (Research Papers) کی تعداد پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں میں شایع ہونے والے تحقیقی مقالوں سے زیادہ ہوتی ہے…. حیرت انگیز امر یہ ہے کہ کسی ایک ادارے میں ہونے والے تحقیقی کام سے دوسرے ادارے کے محققین زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں… مثال کے طور پر اگر ہارورڈ بزنس سکول (Harvard Business School) کے کسی استاد یا طالبعلم کا کوئی تحقیقی مقالہ منظر کسی بین الاقوامی مجلے (International Journal) میں شایع ہوتا ہے تو ایم-آئ-ٹی میں متعلقہ شعبے یعنی سلون سکول آف مینجمنٹ (MIT Sloan School of Management) کے اساتذہ و طلباء اس مقالے کا گہری تنقیدی نظر (Critical) سے تجزیہ کرتے ہیں… اس سلسلے میں اساتذہ و طلبہ اپنے اپنے طور پر اور اجتماعی طور پر ورکشاپس اور سیمینارز میں اس مقالے میں بیان ہوۓ تصورات (Concepts)’ طریق تحقیق (Research Methodology) اور حاصل شدہ نتائج (Conclusions) کا الگ الگ اور مجموعی تجزیہ کرتے ہیں… پھر اس تحقیق کی بنیاد پر نئی تحقیق کے امکانات تلاش کرتے ہیں کیونکہ بڑے سے بڑے صاحب علم کی آراء کو بھی حتمی یا آخری راے نہیں سمجھا جاتا… اس سلسلے میں ہارورڈ بزنس سکول کے صاحب مقالہ کو اپنے ادارے یعنی ایم-آئ-ٹی میں بلانے’ اس کے مقالے کے مندرجات سننے اور پھر حاضرین مجلس کے سوالوں کے جوابات دینے کا موقع دینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا بلکہ اس چیز کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے… ایک ادارے میں شایع ہونے والی تحقیق اور کتب و رسائل دوسرے ادارے کی لائبریریز میں وافر ملتے ہیں جس سے ہر ادارے کے متلاشیان علم بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں… الغرض تحصیل و تدریس علم میں مصروف طلباء ہوں یا اساتذہ… سب کی عزت کی جاتی ہے اور ایک دوسرے کے تحقیقی کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے… تعصب و نفرت کی بجاے مسابقت (Competition) کی فضاء قائم ہے…

یہی حال برطانیہ کے تعلیمی اداروں کا ہے… لیسٹر یونیورسٹی (Leicester University) میں دوران تعلیم اسائنمنٹس مکمل کرنے اور امتحانات کی تیاری کے لئے ہمارے اساتزہ کرام نے ہمیں کم و بیش دنیا کے ہر نمایاں صاحب علم کی علمی خدمات سے متعارف کروایا… وہ اس بات کی حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ ہم جہاں جہاں سے بھی’ جس جس منبع علم سے بھی ممکن ہو علم کشید کریں اور پہلے سے موجود علمی کام کی بنیاد پر نیۓ نیۓ تصورات و اختراعات کا امکان سوچیں… میری زندگی کا یہ انتہائی شاندار دور تھا جب مجھے اپنے مضمون میں دنیا بھر کے صاحبان علم و تحقیق کے کام کے جائزہ لینے اور مختلف امور کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لینے کا موقع ملا… ہماری یونیورسٹی کے کل پرچوں کا پچیس فیصد دوسری یونیورسٹیوں میں چیکنگ کے لئے بھیجا جاتا… خود میری اپنی تحقیق (Dissertation) پر میرے سپروائزر نے زیادہ نمبر لگاہے لیکن کسی دوسرے نے کچھ نمبر کم کر دئیے تھے… ہر روز کچھ نہ کچھ نیا دیکھنے’ پڑھنے’ سیکھنے کو ملا کرتا… اس چیز سے مجھے اپنی ذاتی زندگی اور پیشہ وارانہ زندگی… دونوں میں بہت زیادہ فوائد حاصل ہوئے…

مجھے بعض دینی مسائل کو سمجھنے کے لئے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ (Madinah Islamic University) میں بھی جانے اور وہاں کے اساتذہ و طلباء کے ساتھ مکالمے اور مباحثے کا شرف حاصل ہوا… وہاں ہر کوئی ایک دوسرے کا نکتہ نظر بڑے تحمل اور سکون سے سنتا اور سب ایک دوسرے کے دلائل پر غور و فکر کرتے… وہاں کے اساتذہ جب پڑھاتے اور کسی متنازعہ فیہ مسلہ کو زیر بحث لاتے تو اس سلسلے میں ماضی و حال کے تمام اہل علم کی تحقیق سے طلباء کو متعارف کرواتے ہوئے اپنی راے کا اظہار کرتے اور متعلقہ دلائل بھی دے دیتے… اس کے بعد طلباء پر کوئی پابندی نہ تھی کہ وہ اپنے استاد کی راے کی لازمی تقلید کے پابند رہیں… اسی طرح جب میں شیخ الازہر کے پاس ملاقات کرنے جامعہ الازہر (Al-Azhar University) قاہرہ گیا تو انہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کیا اور میرے سوال کا مدلل جواب عنایت فرمایا تھا… ان دونوں اداروں میں اعلی پاے کا تحقیقی و تصنیفی کام ہو رہا ہے… ان اداروں میں آپ کو مختلف مکاتب فکر کے اساتذہ و طلباء انتہائی خوشگوار اور دوستانہ ماحول میں تعلیم حاصل کرتے اور ایک دوسرے کے ساتھ مباحثہ و مجادلہ (Discussion & Argument) کر تے نظر آئیں گے… بعض اوقات نکتہ ہاے نظر کا اختلاف ایک سو اسی درجے پر نظر آے گا لیکن مجال ہے جو یہ اختلاف فکر و نظر کبھی دشمنی میں بدل جائے… کسی کی کردار کشی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا…

[pullquote]اس کے برعکس…[/pullquote]

چند ایک مستثنیات کو چھوڑ کر… جب میں اپنے دینی مدرسوں کی عمومی حالت دیکھتا ہوں تو کوئی دل خوش کن مناظر سامنے نہیں آتے… بلکہ دل میں ایک درد سا اٹھتا ہے… اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے دینی مدارس نے ماضی میں اسلام کی حفاظت اور مسلمانوں کو اسلام پر قائم رکھنے میں شاندار کردار ادا کیا تھا اور اب بھی کسی نہ کسی حد تک اس کوشش میں مصروف ہیں… لیکن وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ دنیا بہت بدل چکی ہے… انسانی تمدن ایک مسلسل تغیر (Continuous Change) کی حالت میں ہے… روز کوئی نیا سماجی مسلہ یا سائنسی معاملہ سامنے آتا رہتا ہے… قدیم فلسفوں کے ساتھ اب نیۓ نیۓ سماجی فلسفے سامنے آ رہے ہیں… دنیا جدیدیت (Modernism) سے ما بعد جدیدیت (Post-Modernism) کی طرف عازم سفر ہے… تہذیبوں کے تصادم (Clash of Civilizations) اور تہذیب کے خاتمے (End of Civilization) کی بات ہو رہی ہے… جمہوریت کے بعد ما بعد جمہوریت کے منظر نامہ پر غور و فکر جاری ہے… اسی طرح سوشل ازم (Social Ism) کے بعد اب سرمایہ داری (Capitalism) کی ناکامی کے اعلان ہو رہے ہیں… جو انسان سو’ دو سو سال پہلے مذھب سے برگشتہ ہو چلا تھا… اب انہی کی نسلیں پھر سے کسی آفاقی نظریے یا روحانی رستے (Spiritual Anchor) کی تلاش میں ہیں… الغرض اس دور کا انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ازسرنو استواری کے لئے سرگرداں ہیں…

[pullquote]سوال مگر یہ ہے کہ…[/pullquote]

کیا ہمارے پاکستان کے دینی مدارس اس سارے فکری و جدلی منظر نامے میں کوئی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کیا یہ ایسا ماحول فراہم کر رہے ہیں جہاں اعلی معیار کی علمی تحقیق جاری ہو اور دور حاضر کے انسان کی روحانی پیاس کا علاج کر سکے اور ان کی مادی ضروریات کی تکمیل کی راہ دکھا سکے؟

اگر دیانتداری سے دیکھا جائے تو آج دینی مدارس میں بہت کچھ قابل اصلاح محسوس ہوتا ہے… چند ایک مستثنیات کو چھوڑ کر ان مدارس کا مجموعی ماحول کسی حقیقی گہری علمی تحقیق کی اجازت نہیں دیتا… ہماری یونیورسٹیوں کی طرح یہاں بھی زیادہ تر کورس ہی مکمل کروانے پر توجہ ہوتی ہے… یہاں ایسی کوئی روایت موجود نہیں کہ کسی ایک مکتبۂ فکر کے مدرسے میں کسی دوسرے مکتبۂ فکر کے کسی صاحب علم کی کوئی تحقیق یا کتاب موجود ہو… اپنے سے مختلف مکتبہ فکر کے کسی بڑے سے بڑے صاحب علم کو بھی اپنے مدرسے میں درس و تدریس تو دور کی بات… اس مدرسے کے طالب علموں کے سامنے اپنا نکتۂ نظر اور متعلقہ دلائل تک سامنے رکھنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی… کوئی طالب علم اپنے مکتبۂ فکر کے اساتذہ کے ساتھ خالص علمی بنیادوں پر اختلاف کر بیٹھے تو پھر اس کی زندگی بھی اجیرن ہی سمجھیں… یا تو وہ اپنی راے سے "توبہ” کرے یا راندۂ درگاہ ہو جائے… سب سے زیادہ "واہ واہ” کا حقدار وہ استاد یا طالب علم ٹھہرتا ہے جو دوسرے مکتبہ ہاے فکر کے زیادہ لتے لے سکے… جدید فلسفوں پر تحقیق و تنقید کا کوئی خاص اہتمام نہیں تو ان کا توڑ کیا سکھایا جاتا ہو گا؟ تقابل ادیان اگرچہ نصاب کا حصہ ہے لیکن دور جدید کے تناظر میں مختلف معاشروں میں اسلام کے نفوز کو کیسے ممکن بنایا جائے کہ وہ معاشرے کی قیادت پر فائز ہو جائے؟ اس پر بھی کوئی خاص تحقیق نظر نہیں آتی… اسی طرح مختلف فقہی مکاتب کے تقابل کا رواج بھی کم کم ہی ہے… اگرچہ بعض طلباء و اساتذہ اپنی ذاتی توجہ اور کوشش کے زریعے کچھ انتہائی اعلی درجہ کا علمی و عملی کام کر گزرتے ہیں لیکن کوئی مستقل اجتماعی نقشہ (Pattern) نہیں بن پاتا کیونکہ یہ کوششیں محض انفرادی ہوتی ہیں… اب ایسی صورتحال میں کسی اعلی معیار کی تحقیق کا کیا امکان ہو سکتا ہے؟ ایسے بند ماحول میں مختلف مکاتب فکر کے اساتذہ و طلباء کے دل و دماغ کس طرح ایک دوسرے کو برداشت کر سکتے ہیں؟ کیسے کوئی مضبوط علمی روایت (Tradition of Quest) جنم لے سکتی ہے؟ کیسے کسی عمل اجتماعی (Collective Effort) کا وجود ممکن ہو سکتا ہے؟ کیسے وحدت امت کا اور اسلام کی نشاط ثانیہ (Renaissance) کا خواب پورا ہو سکتا ہے؟

میں نے اوپر امریکہ کے تین اہم تعلیمی اداروں اور پھر مسلمانوں کے دو اہم دینی تعلیم کے اداروں میں موجود تحصیل و تحقیق علم کے لئے موجود ماحول کا ذکر کیا ہے… اس ماحول میں علم و تحقیق کی نئی نئی جہتیں آشکار ہو رہی ہیں جبکہ دوسری طرف… بس کبھی کبھی ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایسی ہی بے باک علمی و تحقیقی سرگرمیوں کے لئے اپنے دینی مدارس میں کبھی ہم بھی ایسا ہی ماحول فراہم کرنے کی ہمت کر سکیں گے؟

[pullquote]اور کیا ہمارا اتنا جگرا ہے؟[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے