صحافت،،،فلسفہ اورحقیقت

صحافت صرف انفرادی ایونٹس کو رپورٹ کرنے کا نام نہیں ہے۔ صحافت اصل میں انسانی و معاشرتی رویوں کو پرکھنے، سمجھنے اور زندگی کے مختلف روپ پہچانتے ہوئے افراد اور معاشروں پر تحقیق کا نام ہے۔ موجودہ افراتفری کے دور میں بعض اوقات تو صحافت اقدار سے عاری نظر آنے لگی ہے۔ اخلاقیات کا پہلو تار تار نظر آتا ہے اور اگر بات کریں ثقافتی پہلو کے حوالے سے تو صحافت خود بھی کنفیوژن کا شکار نظر آتی ہے۔

کسی بھی معاشرے، ملک اور قوم کی اصل پہچان اسکی ثقافت ، اقدار اور روایات ہوتی ہیں۔ لیکن انتہائی معذرت سے کہنا چاہوں گا کہ بریکنگ نیوزاور ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی دوڑ نے صحافیوں کو ان اہم پہلوﺅں پر سوچنے کی فرصت ہی فراہم نہیں کی۔ تعلیمی میدان میں صحافت کے طلباءکو بتایا جاتا ہے کہ خبر انقلاب کا شاخسانہ ہوتی ہے لیکن عملی میدان میں خبر کاروبار کرتی نظر آتی ہے۔

خصوصی مناظر سب سے پہلے ہمارے چینل پر۔۔۔۔ ہماری خبر پر ایکشن۔۔۔۔ اور اس طرح کے جملوں نے خبر کو صرف سنسنی پھیلانے والا آئٹم نمبر بنا کر رکھ دیا ہے۔ خبر معاشرتی، ثقافتی اور معاشی معلومات کی بجائے اب صرف انٹرٹینمنٹ ، کاروبار اور ذاتیات تک محدود ہوتی جا رہی ہے۔ اگر اخبارات چند پیسوں کے عوض نیم عریاں تصاویر اشہار کی شکل میں شائع کریں گے، چینلز پاکستانی ثقافت کو تھر کی بھوک تک محدود کرتے ہوئے ہمسائے کے گھر سے آئے ہوئے کلچر کو فروغ دینگے اور ان سب باتوں کو آزادیءاظہار اور پبلک چوائس کا نام دیا جائے گا تو یقین کریں تباہی سے جلد ہاتھ ملانا ہوگا۔

ابھی بھی بگڑا کچھ نہیں ہے۔ بہت سے کہنہ مشق صحافی اس سارے ماحول کے خلاف نبرد آزما ہیں اور اپنے ہی اداروں میں بیٹھ کر اصلاح کی مسلسل کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے تمام صحافی یقینی طور پر ایوارڈز تو حاصل نہیں کر پائیں گے لیکن خراج تحسین کے حقدار ضرور ہیں۔

ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ عورت کی عصمت دری کی خبر کو چینلز ریٹنگ کے لیے استعمال کرنا ہے کہ معاشرے میں پیدا ہوتے بگاڑ کی تصیح کے لیے۔ ہمیں اپنی اقدار اور روایات کا خیال رکھنا ہے۔ جرم کو بار بار دکھا کر مجرم کو ہیرو نہیں بنانا اور نہ ہی جرم کے طریقہ کار کو ڈرامائی انداز میں پیش کر کے مزید مجرم پیدا کرنے سے کوئی بہتری ہو گی۔ ہمیں مثبت صحافت کے فروغ کے لیے عملی کام کرنا ہونگے۔ نوجوان صحافیوں کی عملی تربیت پر توجہ دینے کے لیے قابل احترام اور با عزت سینئر صحافیوں کو ایک قدم آگے آنا ہوگا تا کہ آج کے نوجوان سنسنی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کو اپنا صحافتی مشن بنا سکیں۔

میڈیا نے جس تیزی سے ترقی کی ہے اتنی ہی تیزی سے مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں تا ہم اب مسائل کے حل کے لیے اقدامات کرنے ہونگے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم نے اپنے تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے کیسے اپنے ملک کی ثقافت کو فروغ دینا ہے۔ دنیا کے باقی خطوں میں ثقافت کو جتنی اہمیت دی جاتی ہے اتنی پاکستان میں نہیں دی جاتی۔ پاکستانی ثقافت کو عالمی منظر نامے میں پیش کرنے کے لیے میڈیا کو اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ اقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی قومی روایات کو پروان چڑھانا ہے۔

اس سارے عمل میں ہر کسی کو انفرادی سطح پرذمہ داری لینا ہوگی۔ ہماری جامعات کو بھی صحافت کے شعبے میں مثبت تبدیلیاں لاتے ہوئے نصاب میں عملی تربیت کو زیادہ سے زیادہ شامل کرنا چاہئے۔ صحافت کے شعبے میں یہ چیز انتہائی اہم ہوتی ہے کہ صحافی کس خطے اور علاقے سے تعلق رکھتا ہے اور اسے کس جگہ اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اس صورت میں صحافی کی اپنے علاقے، ملک کی ثقافت، معاشرتی اقدار کے حوالے سے جانکاری کاطریقہ کار جامعات کو طے کرنا ہوگا۔ جامعات میں صرف انٹرنیشنل رائٹرز کے لکھے ہوئے مقالہ جات پڑھانے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ بنیادی صحافتی معلومات کے ساتھ ساتھ طلباءکو عملی طور پر صحافتی میدان میں سرخرو ہونے کے حوالے سے تربیت دی جائے۔

خبر سے انقلاب کے فلسفے کو زندہ رکھنے کے لیے تمام میڈیا کے اداروں کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی بھی کرنا ہوگی اور صحافت کی اصل روح کو قائم رکھنے میں عملی اقدامات کرنا ہونگے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے