فرقہ وارنہ ذہنیت کیسے بنتی ہے؟

محمد حسین نوجوان لکھاری ہیں اور امن کے سفیر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔زیر نظر مضمون میں بھی انھوں نے پاکستان میں امن کے قیام اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا نہ صرف ناقدانہ جائزہ لیا ہے بلکہ ایسی تجاویز بھی دی ہیں جو قیام امن میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں۔

پاکستان میں سلامتی امور پر نظر رکھنے والے ایک غیر سرکاری تھینک ٹینک’’ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز‘‘ نے سکیورٹی اعداد و شمار پر مبنی سالانہ رپورٹ 2015شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان میں ہونے والے بم حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی اعداد و شمار اور ان کے نتیجے میں ہونے والی اموات اور زخمیوں کی تعداد کو سامنے لایا گیا ہے۔2015کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2014 کے مقابلے میں گزشتہ سال یعنی2015 میں اگرچہ فرقہ وارانہ حملے کم ہوئے تاہم فرقہ وارانہ قتل و غارت میں مرنے والے افراد کی تعداد2014کی نسبت زیادہ ہے۔اس رپورٹ کے مطابق2015میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ میں تقریباً تین سو اافراد مارے گئے، جن میں سب سے زیادہ نشانہ بننے والے207 افراد کا تعلق شیعہ (اثنا عشری)، 45 افراد کا شیعہ اسماعیلی اور بوہری جبکہ 20فراد کا تعلق سنی مسلک سے بتایا گیا ہے۔ گزشتہ چھ سالوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں بالترتیب سن2010، 2012ور2013میں فرقہ وارانہ قتل و غارت بہت زیارہ ہوا ہے جبکہ2014میں سب سے کم ہوا ہے، نیز2015 میں فرقہ وارانہ حملوں کی تعداد میں واضح کمی دکھائی دیتی ہے۔ بدقسمتی سے فرقہ وارانہ تشدد کا نشانہ بننے والے افراد میں پروفیسروں، دانشوروں، علماء، وکلاء، تاجروں، ڈاکٹر وں، انجینئروں، سول و عسکری آفیسروں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے علاوہ نوجوان طلبہ، بچے، بوڑھے اور خواتین شامل ہیں جن کو قتل کرنے کی اہم ترین وجہ ان کی مسلکی وابستگی تھی۔ اس کی وجہ سے ایک طرف خوف اور منافرت کی فضا عام ہو رہی ہے اور دوسری طرف ہماری سب سے زیادہ زیادہ کار آمد اور پیداواری و تخلیقی صلاحیتوں کے حامل افراد ملک چھوڑ کر بیرون ملک جار رہے ہیں۔ یہ رجحان کسی بھی قوم کے مستقبل کے لیے خطرناک علامت سمجھا جاتا ہے۔

بلا شبہ اس وقت پاکستان کے سماجی مسائل میں سے ایک بنیادی اور اہم مسئلہ ’’فرقہ واریت ‘‘ ہے۔ اس کے اسباب زیادہ تر سیاسی و سماجی نوعیت کے ہیں تاہم کچھ چیزیں علمی نوعیت کی بھی ہیں۔ چاہے سیاسی مفادات کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جائے یا فرقہ وارانہ سوچ کو سیاسی انداز میں آگے بڑھایا جائے دونوں صورتوں میں سماج کی تعمیر و ترقی اور امن و خوشحالی بری طرح متاثر ہو جاتی ہے۔ دونوں صورتوں میں مفاد پرست طبقہ اور ان کے مفادات محفوظ رہتے ہیں جبکہ جذباتی کارکنان اور عقیدت و تقلید ک جذبے سے سرشار عوام الناس فرقہ وارانہ تشدد کے شکار ہوجاتے ہیں اور ان کے مفادات اور حقوق مسلکی حمیت میں مارے جاتے ہیں۔

فرقہ واریت کے سماجی اثرات

فرقہ واریت کے سماجی اثرات پورے سماج کو گھیر لیتے ہیں اور انتہائی تکلیف دہ ہوتے ہیں۔یہ زہریلے اثرات ذہنو ں اور دلوں میں نفرت کی آگ بھڑکاتے ہوئے قتل و غارت اور خانہ جنگی تک پہنچ جاتے ہیں، ایسی صورت حال میں ہر طرف سے زندگی کے آثار معدوم ہونے لگتے ہیں اور ہر طرف موت، تباہی، بربادی، خوف، دہشت، خون، لاش اور آگ ہی نظر آنے لگتی ہے۔ جس کی تازہ مثالیں مشرق وسطیٰ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ فرقہ واریت کی آگ ایک دفعہ بھڑکنے کے بعد اس پر قابو پانے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ سمجھ دار قوم وہی ہے جو آگ بھڑکنے کے بعد اس پرپانی ڈالنے میں اچھل کود کے بجائے ایسے اقدامات کرتی ہے جس سے آگ بھڑک نہ پائے۔ اور بے قوف قوم وہ ہے جو اپنے ہی گھر میں لگی آگ پر پانی کے بجائے تیل چھڑکے۔ اور بے قوف ترین قوم وہ ہے جس کے گھر میں آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں اور وہ بھڑکتے شعلوں کا ہی انکار کرے۔

فرقہ واریت کے اسباب

فرقہ واریت کے بہت سے سیاسی، سماجی، تاریخی، فقہی، علمی، نفسیاتی اور تربیتی اسباب ہیں۔ تاہم چند نمایاں اسباب درج ذیل ہیں۔

 جہالت: دین کی بنیادی تعلیمات اور وسیع تر مقاصد سے جہالت اور دوسرے فرقوں کے بارے میں لاعلمی۔

 معاشرتی شکست و ریخت: جب مختلف فرقوں سے وابستہ لوگوں کے درمیان دْوریاں پیدا ہوں تو ان کے درمیان ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیاں، غلط تصورات اور افواہیں عام ہوجاتی ہیں اور وسائل ایک دوسرے کے مسائل میں اضافہ کرنے کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں۔

 شناخت کا بحران: جب مختلف مسالک سے وابستہ لوگ اپنے اپنے مسلک کے بارے میں یہ محسوس کرنے لگیں کہ ان کے ساتھ ریاستی یا سماجی سطح پر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، ان کے ساتھ تفریق کی جاتی ہے، ان کے حقوق مارے جاتے ہیں تو ان میں احساس محرومی بیدار ہوتا ہے نیز اسی طرح جو طبقہ/مسلک ریاستی اور سماجی سطح پر اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ مضبوط، متحرک اور حصہ دار سمجھتا ہے تو ان میں احساس برتری اور غلبہ کی نفسیات طار ی ہو جاتی ہے۔ احساس محرومی اور احساس برتری میں مبتلا طبقات کے لیے شناخت کا مسئلہ اہمیت کا حامل بن جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر وہ سماجی تفریق، تعصب اور تشدد کے لیے جواز تلاش کرتے ہیں۔

 غلو: اپنے فرقہ سے متعلق شخصیات اور مقدسات کے متعلق غلو اور مبالغہ آرائی سے کام لینا۔

 تنقیص و تحقیر: دوسرے فرقہ سے متعلق شخصیات اور مقدسات کی تنقیص، تحقیر، تکفیر اور توہین کرنا۔

 تعصب: ظلم و زیادتی پر بھی اپنے فرقہ سے متعلق لوگوں کی اعانت کرنا اور دوسرے فرقہ کے لوگوں کے بارے میں متعصب رویہ اختیار کرنا

 نفرت: محبت و نفرت کا معیار جب فرقہ قرار پاتا ہے تو انسان دوسرے فرقوں سے وابستہ لوگوں سے نفرت کرنا مسلکی غیرت و حمیت سمجھتا ہے۔

 تشدد: فرقہ پرست انسان دین کی تمام تعلیمات کو پس پشت ڈال کر فرقہ کے لیے دوسروں پر تشدد کرنے اور قتل و غارت کو اپنا دینی فریضہ سمجھتا ہے۔

 اشتعال انگیزی: فرقہ پرست اپنے الفاظ، رویوں اور سوچ کو مذہبی اصطلاحات اور تعلیمات کا لبادہ چڑھا کر فرقہ وارانہ آگ کو بڑھکاتا ہے اور اپنے مفادات حاصل کرتا ہے۔

 الزام تراشی: کسی بھی وقوع پذیر ہونے والے واقعہ پر بلا تحقیق ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنا اور اسے فرقہ وارانہ رنگ دینا

 فرقہ پرستوں کی فکری، اخلاقی اور عملی سرپرستی: علماء ، دانشوروں، سیاسی و سماجی رہنماؤں اور عوام الناس کی جانب سے فرقہ پرستوں کے جرائم پر خاموشی، سہولت کاری اور تعاون فرقہ اریت کے پھیلنے کا باعث بنتا ہے اور فرقہ واریت کو سماجی قبولیت حاصل ہوتی ہے۔

 دوسرے فرقہ کے بارے میں ان کے مستند موقف پر اعتبار کرنے کے بجائے اپنے خود ساختہ فہم اور تعبیر پر یقین کرنا

 مکتب کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کے بجائے لوگوں کے ذاتی افعال اور حرکتوں سے ان کے بارے میں رائے قائم کر لینا

 دوسرے فرقہ کو صرف رد کرنے اور گمراہ ثابت کرنے لیے صرف محدود و مخصوص موضوعات کا مطالعہ کرنا۔

 مفاہمانہ اور مکالمانہ انداز گفتگو کے بجائے مناظرانہ، مدافعانہ اور جارحانہ طرز گفتگو

 دوسرے کی رائے کے ہمیشہ غلط ہونے اور اپنی رائے کے ہمیشہ صحیح ہونے پر یقین رکھنا

 ذرائع ابلاغ: مختلف ملکوں، شہروں اور علاقوں میں مختلف اوقات میں پیش آنے والے واقعات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے بارے میں غلط تصورات و تعصبات پر مبنی غیر مستند تقاریر و تحاریر اور افواہوں کو عام کرنا

 فرقہ وارانہ تقسیم پر مبنی دینی نصاب و تعلیمی نظام اور فرقہ وارانہ مفادات کے لیے قائم فرقہ وارانہ ادارے اور تنظیمیں

 ریاستی اداروں، علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں کے فرقہ وارانہ رجحانات، اندرون ملک اور بیرون ملک فرقہ پرستی پر مبنی پالیسیاں اور حکمرانوں کے طرز حکمرانی میں موجود خامیاں فرقہ واریت کی شدت کو بڑھاوا دینے والے رویے

 دوسرے فرقوں کے مطالعہ کے لیے ’’اپنوں‘‘ کے لکھے ہوئے لٹریچر کا مطالعہ اور’’اپنے‘‘ علما سے رجوع کرنا۔

 دوسرے مسلک کو صرف رد کرنے، باطل ثابت کرنے اور گمراہ ثابت کرنے لیے صرف محدود و مخصوص موضوعات کا مطالعہ کرنا۔

 غلط تصورات و تعصبات پر مبنی غیر مستند تقاریر و تحاریر اور افواہوں، پر یقین

 علمی ارتقاء کے سفر کو منجمد کرنا

 کچھ عام افراد کے کچھ مخصوص ذاتی فعل سے پورے مکتب کے بارے میں رائے قائم کرنا

 دوسرے فرقہ سے وابستہ لوگوں کو اپنے سے کم تر اور گمراہ مسلمان سمجھنا اور تکفیر و تشدد پر اتر آنا۔

 دوسرے پر ہونے والے تشدد اور مظالم کو برحق اور جائز سمجھنا اور ان کی طرف سے ان مظالم پر احتجاج کو شدت پسندی قرار دیناو اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو ظلم عظیم قرار دے کر احتجاج کرنا اور سب سے یہ توقع کرنا کہ وہ بھی ان کے ہمنوا بنیں۔

 دوسروں کے سامنے یہ رویہ اختیار کرنا کہ آپ وہ نہیں جو آپ کہہ رہے یا کر رہے ہیں بلکہ وہ ہیں جو میں سمجھ رہا ہوں۔ یعنی دوسروں کے بارے میں ان کے اپنے بیان اور عمل سے زیادہ اپنے فہم اور ظن پر اعتبار کرنا۔

 کسی اور زمان و مکان اور حالات میں دیے گئے فتاویٰ،نظریات اور واقعات کی بنیاد پر موجودہ حالات پر رائے قائم کرنا اور اپنا غصہ دوسرے فرقہ سے وابستہ سامنے بیٹھے ہوئے بے گناہ انسانوں پر نکالنا اور ان کو بھی شریک جرم قرار دینا۔

 دوسروں کے مذہبی رسومات کو انتہائی بے وقوفانہ حرکتیں اور اپنے رسومات کو مقدس بنا کر پیش کرنا۔

 شک، نفرت، بد اعتمادی اور بدظنی کا رویہ اختیار کرنا۔

فرقہ واریت کی شدت کو کم کرنے والے رویے

 ہر فرقہ کے مطالعہ کے لیے ان کے نزدیک مستند لٹریچر اور ذمہ دار علماء سے رجوع کیجئے!

 مناظرانہ، مدافعانہ اور جارحانہ طرز گفتگو کے بجائے مفاہمانہ اور مکالمہ کا طرز اختیار کیجئے!

 دوسرے کو سنتے ہوئے یا پڑھتے ہوئے ان کے بارے میں قائم اپنے مفروضوں کو معطل کیجئے!

 مکالمہ اور مفاہمانہ عمل سے پہلے نتیجہ اخذ کرنے سے گریز کیجئے!

 دوسرے کو جاننے کے لیے توجہ سے سنئے ! ماننے کے لیے یا منوانے کے لیے نہیں!

 دوسرے کو اختلافی رائے رکھنے کا حق اور اس کو اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کا پورا موقع دیجئے!

 مکالمہ کا موضوع، مقصد اور سمت مکالمہ میں شامل ہر ایک کے لیے واضح کیجئے!

 ایک وقت میں صرف ایک شخص سے بات کیجئے!

 لب و لہجہ ہمیشہ دھیما رکھ لیجئے!

 اعلیٰ اخلاقی اقدار کا عملی مظاہرہ کیجیے!

 کم علمی محسوس ہونے کی صورت میں مزید مطالعہ اور مکالمہ کے لیے وقت نکال لیجئے!

 دوسرے کی رائے میں صحت اور اپنی رائے میں غلطی کے امکان کو سامنے رکھ لیجیے!

 سماجی تعامل کو بڑھا دیجیے اور سماجی بندھنوں، رشتوں اور مفادات کے تعلق کو مضبوط تر کیجیے!

 تنوع اور اختلاف کے فطری وجود اور اس کی مزید گنجائش کو تسلیم کیجیے!

 وسائل کو ایک دوسرے کی بربادی اور نقصان پر خرچ کرنے کے بجائے قوم کی مجموعی تعمیر و ترقی اور امن و خوشحالی پر لگانے کی کوشش کیجیے!

 اپنے آپ کا احتساب کیجیے کہ کیا فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں حصہ لے کر میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور انسانیت کی فلاح و صلاح میں کون سا قابل ذکر خدمت انجام دے رہا ہوں۔

 کسی بھی مسلک یا قوم کے بارے میں ایسی کوئی غلط بات منسوب نہ کیجیے جو آپ عدالت میں یا روز آخرت اللہ تعالیٰ کے حضور ثابت نہ کر سکیں!

 ہمیشہ بات کرنے اور قدم اٹھانے سے پہلے بغور سوچنے کی عادت ڈالیے! ذرائع ابلاغ اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں منافرت، تعصب اور تشدد پر مبنی دوسروں کے گناہوں کا سبب کہیں آپ کی باتیں، تقریریں یا تحریریں نہ بن رہی ہوں!

فرقہ وارانہ تشدد کا خاتمہ کیسے ہوگا؟

فرقہ وارانہ تشدد کا بغور جائزہ لینے سے اس کے مراحل سمجھ میں آتے ہیں جو فرقوں کی بنیادر پر تقسیم سے شروع ہو کر، سماجی فاصلے، سماجی تفریق، منافرت، مخصوص طبقات کی ریاستی و سیاسی سرپرستی، مخالف کے جینے کے حق کا انکار سے ہوتا ہوا فرقہ وارانہ قتل و غارت تک پہنچ جاتے ہیں۔ فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لیے عمل درآمد (Implementation) کے مرحلہ پر کام کرنے والے کردار کو سزا دینا ہر گز کافی نہیں بلکہ پہلے مراحل پر ہی اس کی روک تھام کے لیے سنجیدہ حکمت عملی بنانی ہوگی۔ اور ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جس سے فرقہ واریت کے زہر آلود پھل کے ساتھ ساتھ اس کا تنا، اس کی جڑ اور اس کی بیج کا بھی خاتمہ ہو۔

ہمارے معاشرے کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی و امن کے لیے فرقہ واریت ایک خطر ناک زہر ہے۔ معاشرے کو اس زہر کے اثرات سے پاک کرنے کے لیے ہم میں سے ہر ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ وہ کردار یہ ہے کہ کم از کم ہم کسی فرقہ وارانہ سرگرمی کا حصہ نہ بنیں۔ اس کے علاوہ جن کے پاس فکر، صلاحیت، ہمت اور موقع ہو تو وہ مزید آگے بڑھ کر اس سماجی مرض میں مبتلا لوگوں کو اس سے نجات دینے کی کوشش کریں!

شکریہ سہ ماہی تجزیات

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے