رمضان ٹرانسمیشن اور دو مکتبہ فکر

سیدابولاعلی مودودی نے رمضان سے متعلق کہا تھا رمضان کی مثال اسلامی معاشرے میں ایسی ہے جیسے کسی قریب المرگ شخص میں زندگی کی رمق کے آثار دیکھنے ہوں تو اسکی ناک کے سامنے شیشہ رکھ دو اگر اس پہ دھند آجائے تو سمجھو ابھی سانس چل رہی ہے اسی طرح اگر کسی مسلم معاشرے میں جو اسلام پہ عمل پیرا نہ ہوا تو اُسے رمضان میں دیکھو کہ رمضان میں وہ اسلامی طرز زندگی اپناتا ہے تو وہ واپس اپنی اسلامی روح کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔یہ ماہ مقدس جو جنت کے حصول کا ذریعہ بن سکتا ہے گذشتہ کچھ برسوں سے ٹی وی چینلز کے درمیان ریٹنگ کے حصول کا ذریعہ بنتا جارہا ہے اور عوام کو رمضان المبارک جیسے نیکیوں کے موسم بہار میں جب ہر نیکی کا صلہ کئی گناہ بڑھ جاتا ہے ٹی وی چینلز نے عبادات سے بھٹکا کر گاڑی، موٹر سائیکل،موبائل اور برانڈز کے ملبوسات کے لالچ میں بھکاری بنادیاہے کچھ افراد کی رائے ہے کہ دور جاہلیت میں حج کی عظیم عبادت کا تقدس پامال کرنے کے لئے کفار مکہ عکاظ کا میلہ سجاتے تھے اسی طرح اورآج کے دور میں رمضان کی عظیم عبادت کے تقدس پامال کرنے کے لئے رمضان ٹرانسمیشنز نشر کی جاتی ہیں۔ عکاظ کے میلے کے آرگنائزرز ابوجہل اور ابو لہب جیسے لوگ تھے آج کے ٹی وی میلے کے آرگنائزرز ان کے پیروکار ہیں۔

اگست ۲۰۱۳ میں علماء کرام نے ایسی رمضان ٹرانسمیشنز کو حرام قرار دیا جن میں مخلوط محفلیں ہوں اور ان میں اداکار اور گلوکار شامل ہوں بلکہ میزبانی بھی کررہے ہوں۔مفتی نعیم کے مطابق ایسی رمضان ٹرانسمیشنزنشر کرکے میڈیا مالکان خدا کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔فتوی دینے والے مدارس میں جامعتہ العلوم الاسلامہ بنوری ٹاوٗن،جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی،جامعہ اشرف المدارس،جامعہ بنوریہ العالمیہ سائٹ اور جامعہ المدراسات الاسلامیہ گلشن اقبال شامل ہیں۔جامعتہ العلوم الاسلامہ بنوری ٹاوٗن کے رئیس دار الافتا مولانا مفتی انعام نے فتوی دیتے ہوئے کہا کہ ایسی رمضان ٹرانسمیشن جس میں مخلوط اجتماعات منعقد کئے جاتے ہیں جن میں اداکاروں اور گلوکاروں کو بلوایا جاتا ہے ایسے پروگرامات شریعت کی رو سے بالکل ناجائز ہیں۔جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کے استادالحدیث مہتم مولانا مفتی منظور احمد مینگل کا کہنا تھا کہ دین اسلام مسلمانوں کو احترام رمضان کا حکم دیتا ہے مگر میڈیا اور خصوصا ٹی وی چینلز نے رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر مذموم حرکات کا ارتکاب شروع کرکے اور خود عالمانہ رائے قائم کرکے خرافات کے راستے کھول دےئے ہیں۔رمضان المبارک میں ایسے پروگرامات منعقد کرنا سراسر رمضان کی بے حرمتی ہے۔رمضان المبارک اور دین کے نام پر جو کھیل تماشا ہورہا ہے وہ نہ صرف حرام ہے بلکہ ناجائز اور قبیح عمل ہے۔ایسے پروگرامات منعقد کرنا خدا کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔

گذشتہ برس۳۰ جولائی ۲۰۱۵ کو پیمرا نے سینٹ قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات،نشریات اور قومی ورثہ کے جاری ہدایت نامہ مورخہ ۳ جولائی ۲۰۱۵ کے پیش نظر تمام ٹی وی چینلز کو ہدایت نامہ جاری کیا۔جس میں غیر اخلاقی پروگراموں،گانوں اور مقررہ حد سے زائد اشتہارات و غیر ملکی مواد کو روکنے کے لئے احکامات صادر کئے گئے۔پیمرا نے متعدد عوامی شکایات کے پیش نظر تمام ٹی وی چینلز کو رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں نیلام گھر طرز کے پروگرام نشر کرنے اور مقدس مہینے کے تقدس کو پامال کرنے کا بھی سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ایسے تمام پروگراموں کو مسقبل میں نہ نشر کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔اب دیکھتے ہیں ۲۰۱۶ میں پیمرا کے اس ہدایت نامہ پر کتنا عملدرآمد ہوتا ہے۔اور سکے بعد چینلز کی رمضان ٹرانسمیشن کی ریٹنگ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ریٹنگ کی دوڑ میں گذشتہ سال جیو کے عامر لیاقت آگے رہے جو رمضان ٹرانسمیشن کے دوران عالم سے لیکر باورچی تک کا کردار با آسانی ادا کر لیتے ہیںآجکل صبح کا مارننگ شو کرنے کے بجائے شام کے ٹاک شوز میں تجزیہ کار بھی بن گئے ہیں اور اگر کوئی ا ینکر یا ٹاک شومیں شریک مہمان ان سے ایسا سوال کرلے جو انھیں پسند نہ آئے تو جناب جلال میں آجاتے ہیں اور ٹاک شو میں تم جاہل اور جواب میں تم جاہل مطلق جیسے الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔

وسیم بادامی اور جیند جمشید کی جوڑی نے بھی خوب پذیرائی حاصل کی یہ جوڑی اس سال بھی شان رمضان کے نام سے رمضان ٹرانسمیشن کریگی ۔مایا خان اور احسن خان نے ڈراموں کے بعد رمضان ٹرانسمیشن میں بھی اپنے فن کی بدولت ریٹنگ کی دوڑ میں نمایاں کارکردگی دکھائی۔ احسن خان سے جب اس حوالے سے سوالات کئے گئے تو اُنھوں نے بھی کوئی جواب نہ دیا۔ویسے اداکار صرف اسکرپٹ کے مطابق ہی جملے ادا کرنے کے قابل ہوتا ہے اُسکی اپنی سوچ اور نظریات کم ہی ہوتے ہیں۔
صحت سے متعلق پروگرام کی میزبانی کے فرائض کوئی ڈاکٹر ،قانون سے متعلق پروگرام کی میزبانی کوئی وکیل بہتر طور پر سرانجام دے سکتا ہے اسی طرح اسلامی پروگرام کی میزبانی کسی عالم یا شعائر اسلام پر عمل پیرا افراد زیادہ احسن انداز میں کرسکتا ہے پھر رمضان المبارک میں سنجیدہ اور پر وقار اسلامی پروگرامز کی جگہ اپنی اداؤں سے لبھاتے اداکار گاتے گنگناتے گلوکار قہقہے لگاتے مزاحیہ کردار رمضان ٹرانسمیشن میں میزبانی کیوں کرتے نظر آتے ہیں؟کیونکہ یہ ریٹنگ کا معاملہ ہے۔اشتہاری کمپنیوں کی مصنوعات کی تشہیر بھی تو کرنی ہوتی ہے جنکی بدولت پروگرام چلتا ہے چینل کا کاروبار بڑھتا ہے۔رمضان ٹرانسمیشن جو چینلز کو سال بھر کا اچھا کاروبار دیتی ہے۔۲۰مئی ۲۰۱۶ کو پیمرا کے چےئرمن ابصار نے رمضان المبارک میں جرائم پر تمثیل کاری پر مبنی reenactment شوز پر پابندی لگادی ہے۔اسی دوران جب ایک صحافی نے اُن سے سوال کیا کہ وہ اداکارائیں جو سارا سال رقص کرتی ہیں اور رمضان میں رمضان ٹرانسمیشن آپ اس پر بھی کچھ کرینگے تو ابصار عالم نے صحافی کو یہ کہہ کر ٹال دیا کے ہم کون ہوتے ہیں فیصلہ کرنے والے کہ کون گناہ گار ہے۔تو اس سال کچھ اور اداکاروں کا مزید اضافہ متوقع ہے جن میں شائستہ لودھی،عائشہ خان اور حمزہ علی عباسی بھی اس دوڑ کا حصہ ہونگے۔عائشہ خان اور حمزہ علی عباسی آج ٹی وی پر باران رحمت کے نام سے رمضان ٹرانسمیشن کی میزبانی کرینگے ویسے عائشہ خان اور حمزہ علی عباسی کی جوڑی دو فلمیں جوانی پھر نہیں آنی اور وار میں کامیابی حاصل کرچکی ہے تو چینل مالکان نے اس جوڑی کا انتخاب کیا ہوگا تاکہ رمضان ٹرانسمیشن بھی اچھی کمائی ہوسکے۔کچھ چینلز نے اداکاروں اور گلوکاروں کے بجائے سنجیدہ میزبانوں سے بھی رمضان ٹرانسمیشن کروائی اور اس رمضان ٹرانسمیشن کو سنجیدہ لوگوں نے پسند کیا اور ریٹنگ میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔گذشتہ سال رمضان ٹرانسمیشنز میں دنیانیوز کی رمضان ٹرانسمیشن جو انیق احمد نے کی پانچ نمایاں چینلز میں شامل تھی۔انیق احمد رمضان ٹرانسمیشن کے علاوہ بھی پیام صبح کے نام سے اسلامی پروگرام کرتے ہیں جس میں قرآن کی آیات کی تفسیر علماء کرام کیساتھ پیش کی جاتی ہے۔انیق احمدسحری کی ٹرانسمیشن کے بعد فجر کی نماز آفس میں باجماعت پڑھنے کے بعد گھر جا کے آرام کرتے ہیں نماز ظہر پڑھکر ۳بجے آفس آجاتے ہیں پھر افطاری ٹرانسمیشن عصر سے شروع ہوتی ہے اُسکے ختم ہونے کے بعد تراویح پڑھکر گھر پر تھوڑی دیر آرام کرتے ہیں پھر رات کے ۲ بجے دوبارہ آفس آجاتے ہیں سحری کی ٹرانسمیشن کے لئے۔جب انیق احمد سے پوچھا گیا کہ جب سے رمضان المبارک کے شوزجب سے کمرشلائز ہوئے ہیں تو کیا فرق پڑا ہے ؟ایک عام مسلمان کی زندگی اور عبادات میں کیا تبدیلی آئی ہے؟رمضان ٹرانسمیشن سے معاشرے پر کیامثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں؟وہ مکتبہ فکر جو رمضان ٹرانسمیشن کو لغویات ،وقت کا ضیاع اور عبادات میں خلل سمجھتا ہے آپ اُن کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟تو انیق احمدنے کہا کہ آجکل چینل مالکان نے رمضان ٹرانسمیشن کو پیسہ کمانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ رمضان ٹرانسمیشن Religious Entertainmetبن گئی ہے۔رمضان کا مہینہ لوگوں کی ہدایت کے لئے ہے اس میں روزہ کی فرضیت ہے تقوی کے حصول کی جدوجہد ہے مگر رمضان ٹرانسمیشن میں قرآن، اللہ، رسول ﷺ، کو نکال کہ باہر کردیا گیا ہے ۔اداکاروں،گلوکاروں سے رمضان ٹرانسمیشن کرواکر دین کیساتھ کھیلا جارہا ہے قصور وار چینل مالکان ہیں۔معاشرے پر اور عوام پر رمضان ٹرانسمیشن کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔انیق احمد کا کہنا ہے کہ ریاست رمضان کے تقدس کی پامالی کو محسوس کرے اور رمضان کے مقدس مہینے کا تقدس بحال کرے۔پیمرا کو اس سلسلے میں مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے صرف جرائم کے شوز پر پابندی لگا دینا کافی نہیں۔
اس سال ساحر لودھی سماء کے بجائے ٹی وی ون پر شبیر ابو طالب کیساتھ عشق رمضان ٹرانسمیشن کرینگے۔گذشتہ سال ساحر لودھی نے سماء پر رمضان ٹرانسمیشن کی تھی اور نیوز چینل میں سماء ریٹینگ میں سب سے آگے تھا۔ساحر لودھی کہتے ہیں رمضان میں کوئی ایسا فرق روٹین نہیں ہوتا۲۴ گھنٹے میں سے صرف ۲ یا ۳ گھنٹے آرام کرتا ہوں ہاں یہ ہے کہ رمضان میں روزے رکھتے ہیں۔سحری اور افطاری ٹرانسمیشن کرتا ہوں ریڈیو کا شو کرنا ہوتا ہے شوٹنگ ہوتی ہے اور آجکل میری فلم کی ایڈیٹنگ ہورہی ہے اُس میں مصروف ہوتا ہوں۔جب اُن سے سوال کیا گیا کہ اداکار و گلوکار جو رمضان ٹرانسمیشن کرتے ہیں اس بارے میں آپکی کیا رائے ہے۔تو ساحر نے کہا اللہ میاں کے پاس اختیار ہے لوگوں کو جاننے کا اور اپنے بندوں کے بارے میں فیصلے دینے کا۔میں حتی الامکان یہ کوشش کرتا ہوں کہ میں اسلام کو پریکٹس بھی کروں میں نے کبھی اسلام کی تبلغ کرنے کی کوشش نہیں کی۔جب اُن سے سوال کیا گیا کہ عصر سے مغرب دعاوں کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے اور اُس وقت لوگ رمضان ٹرانسمیشن دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ساحر کا کہنا تھا کہ گیم شوز افطار کے بعد ہوتے ہیں۔رمضان ٹرانسمیشن میں سب غلط نہیں ہوتا کچھ لوگوں کو اس سے فائدہ بھی ہوا ہے۔اس ملک میں اور کونسی چیزیں ہیں جو کمرشلائز نہیں پھر ہم رمضان ہی کو کیوں ٹارگٹ کرتے ہیں۔ وہ بیچارے جنکی مدد ہوسکتی ہے کسی بھی شومیں شامل ہوکر،بہت سارے لوگ باتیں کرتے ہیں کہ آپ شوز میں لوگوں کو بٹھا کر آنسو دکھاتے ہیں۔کیا ہمارے ملک میں ایسا کوئی سسٹم موجود ہے جس میں غریب کی سنی جائے۔آپ جیسے لوگ ہر چیز کی مذمت کرنے لگتے ہیں آپکو عام آدمی کے مسائل کا نہیں پتا۔میں آپکو دعوت دیتا ہوں دو دن میرے ساتھ گزارو پھر اپنی رائے لکھنا ۔آپکی رائے تبدیل ہوجائے گی آپ جو کہتی ہو کہ لوگ گفٹ مانگ رہے ہوتے ہیں آپکو معلوم ہے اُنکی زندگی کی پرابلمز کیا کیا ہوتی ہیں ۔ایسی تنقید صرف پیٹ بھروں پڑھے لکھوں کی باتیں ہیں،بیٹاہم اُن لوگوں کو ادب سکھانے چلتے ہیں جن کے پاس ایک روٹی نہیں ہو تی کھانے کو۔ساحر نے کہا کہ ساحر کہتا تھا۔
بھوک آداب کے کانٹوں میں نہیں مل سکتی
مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہونگے
میر ے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی
میرے ماحول میں انسان نہ بستے ہونگے
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہونگے

شبیر ابو طالب کے اُوقات کار رمضان المبارک میں کچھ یوں ہوتے ہیں سحری کی نشریات کے بعد 6:30بجے صبح سے دوپہر 1:30بجے تک نمازِظہرتسبیحات وتلاوت ،کاروباری مصروفیات، نمازِعصر ومطالعہ وظائف،افطار کی تیاری ونمازِمغرب ،سحری نشریات کی تیاری ۔نمازِتراویح کچھ آرام وذاتی امور کی ادائیگی
12:00سے5:30سحری نشریات چونکہ مجھے صرف رات کو سحری نشریات کرنی ہوتی ہے اس لیے درج بالاشیڈول کے مطابق تمام نمازیں،تلاوت ، وظائف اور مطالعے کاوقت باآسانی مل جاتا ہے
شبیر ابو طالب کہتے ہیں چونکہ میں فکر ی اعتبار سے اسلامی نظریات سے قریب ہوں لہذاجب ٹی وی اینکرنہیں تھا اُس وقت بھی محافل ،شبینہ ،افطارڈنر میں خطابات ،معتکفین کے اجتماعات میں حاضری اور محافل ختم قرآن میں شرکت معمول رہا ہے۔اینکر بننے سے پہلے اور بعد رمضان المبارک میں اجر وثواب پہلے بھی مقصدتھا اب بھی یہی مقصد ہے ۔شبیر ابو طالب کہتے ہیں دینی پروگرامز اوراسلامی نکات پر رائے دینا اُسی کے لیے بہتر ہے جو خود دین کا طالب علم ہو یا اسلام اُس کا Subjectہومگر چونکہ وہ لوگ دین کے نمائندے بن کر پروگرام کررہے ہیں جن کو دین کے بارے میں بنیادی معلومات تک نہیں ہیں لہذاانھیں ریٹنگ کے لیے اپنی صلاحیتوں اور مطالعے سے زیادہ کمرشلائیزڈ حرکتیں کرنا پڑتی ہیں جس کی وجہ سے رمضان شوز پربرُا اثر پڑا۔
ویسے تو ماہِ رمضان میں انسان کی طبیعت میں نرمی ،حقوق العباد کا زیادہ خیال پیدا ہوتا ہے ،روحانی کیف وسرور بیدار ہوتا ہے۔ان رمضان نشریات میں سے وہ نشریات جو خالصتاً معلومات دینیہ کادرس پیش کرتی ہیں وہ بنیادی رمضان ماحول کوبرقرار رکھنے میں کامیاب ہوتی ہیں اور جونشریات اصل راستے سے ہٹ جاتی ہیں وہ عام مسلمان کی زندگی اور عبارات میں کوئی تبدیلی پیدانہیں کرسکتی ۔
اگرشرعی اعتبار سے مناسب رمضان نشریات ہوتو کم از کم بیہودہ ڈراموں اور ناچ گانوں سے انسان دور رہتا ہے۔
اصلاح کی گنجائش تو ہر جگہ موجود رہتی ہے ۔نماز میں اگر رکوع ٹھیک نہیں تو رکوع کوٹھیک کرنے پر توجہ دینی چاہیے نماز کو ترک نہیں کیا جانا چاہے ۔یہی اصول ہے کہ رمضان نشریات سے لغویات اوراچھل کودکو نکال دیں تو اس سے بڑے فوائدبشمول روحانیت، معلومات اور گناہوں سے دوری کا جذبہ جیسے مقاصدحاصل ہوسکتے ہیں ۔مگر میں اس بات سے متفق ہوں کہ رمضان میں حضرات کو زیادہ وقت مسجدوں میں اور خواتین کو جاء نماز پر گزارنا چا ہیے ہاں جب جب ٹی وی کا سوئچ آن کریں تو معیاری نشریات دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے