”ہلکا تشدد” اور اُدھوری تشریحات

اسلامی نظریاتی کونسل نے 163 شقوں پر مشتمل حقوق نسواں بل تیار کر لیا ۔ سوشل میڈیا پر دیگر 162 شقوں کو چھوڑ کر ایک شق کہ ’شوہر بیوی پر ہلکا تشدد کر سکتا ہے‘ کو بنیاد بنا کر اسلامی نظریاتی کونسل کے بل کی مذمت کی جارہی ہے ۔ آج مولانا شیرانی سے پوچھا گیا کہ ہلکے پھلکے تشدد کی تعریف بیان کر دیں تو مولانا نے فرمایا ’شوہر اگر بیوی کی طرف منہ کر کے سوتا ہے تو اپنا منہ دوسری جانب کر لے یہ ہلکا تشدد ہے‘

سورہ النساء کی آیت 34 میں مارنے کا ذکر آیا ہے لیکن مولانا شیرانی نے بتایا کہ ایسا تشدد جس سے جسم پر خراش آئے اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ۔

مولانا سے ہم نے سوال کیا کہ تشدد چونکہ سخت لفظ ہے اس لیے زیادہ شور کیا جاتا ہے تو اس کا متبادل لفط بھی تو کوئی ہوگا، تو انہوں نے بتایا کہ تشدد کی جگہ ہم لفظ ’ترھیب‘ استعمال کریں جسکا معنی ہے ڈرانا یا روکنا ۔ کیونکہ مرد اگر عورت کا محافظ ہے تو اس کو سمجھانا بھی مرد کی ذمہ داری ہے ۔ بنیادی طور پر قرآن کی سوارہ النسا کی آیت 34 بھی یہی کہتی ہے ۔

جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ مار یا ترھیب آخری آپشن ہے پہلا نہیں ۔ ’ہلکا تشدد کر سکتا ہے‘ کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ تشدد کرنا ہی کرنا بلکہ بالکل آخری آپشن کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت ہے ۔

یہ بات بھی قابل تشویش ہے کہ جب ہیڈ لائن چل جاتی ہے تو اس طرح کی بات سن کر شوہر بیویوں پر تشدد کو اپنا حق سمجھ کر پھینٹی لگانا نہ شروع ہو جائیں ۔ میڈیا بازی لے جانے کی دوڑ میں خبر یا حساس بیان کا سیاق و سباق بتائے بغیر صرف ایک جملے کو چلا دیتے ہیں جو انتشار کا باعث بنتے ہیں ۔

ہم بجائے سنی سنائی بات کو آگے پھیلانے اور تحقیق کرنے کے اسلامی فیصلوں کو تضحیک کا نشانہ بناتے رہیں گے تو معاشرے میں بگاڑ مزید بڑھے گا ۔

پھر اسی طرح ایک ٹی وی ٹکر پر لوگ مضمون لکھ ڈالتے ہیں اور اس کو سوشل میڈیا پر ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے اسلامی نظریاتی کونسل کوئی اسلام دشمن ادارہ ہے ۔اگرچہ جب سے اسلامی نظریاتی کونسل بنی ہے اس کی سفارشات پر کسی حکومت نےعملدرآمد نہیں کیا لیکن یہ قصور حکومتوں کا ہے کونسل کا نہیں ۔

اس سلسلے میں علماء کو اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے جو اپنے اور ’گنہگار‘ لوگوں کے درمیان فاصلے کو کر کے اس کنفیوژن جو دور کر سکتے ہیں ۔

ساتھ ہی لکھاری، کالم نگار، بلاگرز اور تجریہ نگاروں کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسا مسائل پر ’قدامت پرست علماء اور ’روشن خیال‘ لبرلز کے درمیان کے خیلج کو کم کریں تاکہ معاشرے میں موجود مختلف سوچ رکھنے والے ایک دوسرے کی بات کو بہتر انداز میں سمجھ سکیں ۔

ایک دوسرے کے قریب آنے کے لیے محبت بھرے جذبات کی ضرورت ہے اور ہمارا دین بھی محبت ہے ، سراسر محبت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے