ذہین لوگ کہاں گئے؟

پاکستان کے ابتدائی دنوں میں چونکہ یہاں ھر طبقے کے لوگوں کو تعلیم کی یکساں سہولتیں دستیاب تھیں
اس لیے پبلک سکولوں میں امیر اور غریب دونوں کے بچے پڑھتے تھے اور یہ تعلیم یونیورسٹی تک بغیر کسی فرق کے تھی – اس لیے ذھیں طالب علموں کے لیے ممکن تھاکہ وہ مقابلے کے امتحانوں میں کامیاب ھوجائیں یا دوسری ملازمتوں کے مقابلہ میں اپنی ذھانت کی بنیاد پر کامیابی حاصل کرلیں –
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس نظام میں تبدیلی آتی چلی گئی دولت مند اور امرا کا طبقہ اپنا اثر برھاتا چلا گیا -انہوں نے اپنے بچوں کے لیے پرائیویٹ سکولوں کی ابتدا کردی جو بڑھتے بڑھتے اسقدر مہنگے ھو گئے کہ غریب آدمی کی پہنچ سے دور ھوگیے اور ساتھ ھی سرکاری سکولوں کا معیار بھی گرتا چلا گیا
اور سلسلہ یہاں تک پہنچ گیا کہ غریب آدمی کے لیے تعلیم اور ترقی کے دروازے بند ھوتے چلے گیے اور یہاں بھی سرمایہ والے لوگوں کو آگے بڑھنے کا موقع مل گیا اور جو سرماے سے محروم ھیں چاھے کتنے ھی لائق اور ذھین کیوں نہ ھوں ان کے معاشرے میں کوی عزت اور وقار کی جگہ نہ رھی تھی
اور محروم طبقے کے پاس کچھ حاصل کرنے کے لیے ذھانت کی بجاے خوشامد سے کام لینا مجبوری ٹھہرا اور طبقہ اعلی سے جو کچھ بچ جاے وہ چاپلوسی سے حاصل کرلیں
ہاکستان کی سیاسی جماعتوں کو دیکھ لیں ان جماعتوں کے سربراہ یا تو بڑے جاگیردار یا سرمایہ دار ھیں اسی بات کی بنیاد پر انکو سربراھی ملی ھے اس لیے نہیں کہ ان میں کوی اھلیت ھے
صرف خوشامدی لوگوں کو پارٹی میں رکھا جاتا ھے جو اختلاف کرے حق بات کرے اسے پارٹی سے نکال دیا جاتا ھے
سیاسی خاندانوں کے تسلط کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ افراد جو محنتی اور ذھین ھیں ان کو جب معاشرے میں جگہ نہی ملتی تو وہ یا تو گوشہ نشینی اختیار کرلیتے ھیں اور یا پھر ملک سے ھجرت کرکے نیے مواقعوں کی تلاش میں باھر چلے جاتے ھیں
اس کا نتیجہ ھر شعبہ میں زوال اور پسماندگی کے آثار پوری طرح نمایاں ھیں اور ملک ترقی کی بجاے تنزلی کا شکار ھے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے