ہمارا کتا کتا ۔۔تمہارا کتا ٹامی۔۔۔ کیوں؟

ایک زمانہ تھا جب آپ کسی سیاستدان پر تنقید کرتے تو ان کے بڑے سے بڑے حمایتی بھی کبھی آپ پر جوابی تنقید نہیں کرتے تھے۔۔ خیر گئے وقت میں تو ایسے سیاستدان بھی نہیں ہوتے تھے، چیف جسٹس نے آپ کے خلاف فیصلہ دے دیا تو غصہ میں اس کو چمک کہنا بھی بہت بڑی بات ہوا کرتی تھی لیکن ہمارے محبوب وزیر اعظم کے کیا کہنے آپ نے پہلے تو چیف جسٹس کو خریدنے کے لیے مولوی رفیق تارڑ کو بمعہ بریف کیس بھیجا اور نہ ماننے پر سپریم کورٹ پر حملہ۔۔۔

اب لیکن معاملہ اس سے بھی زیادہ آگے نکل گیا ہے، پہلے حملہ کرنے والے کو سزا بھی مل جاتی تھی، اب یہ جرم چھوٹا سا محسوس ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ، پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملہ کرنا، اس کا اعلان کرنا، اپنے لوگوں کو شاباش دینا۔۔ پھر بعد میں اس سے مکر جانا۔۔

لوگوں کی شناخت ہونے کے بعد بھی انہیں کوئی پکڑ کے دکھائے، جو پکڑے جائیں انہیں آ کر سیاسی راہنما تھانوں سے لے جائیں، اس کی بھی وڈیو فوٹیج موجود ہوتی ہے مگر وہ ثبوت تو نہیں۔۔ ثبوت تو عام آدمی کے لیے ہوا کرتے ہیں بلکہ عام آدمی کے لیے تو عام آدمی ہونا بھی ایک بہت بڑا جرم ہے، کسی ثبوت اور کسی مدعی کی کیا ضرورت ہے؟

یہاں تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون موجود ہے۔ یقین نہ آئے تو کوئی ایک بڑا ایسا دکھا دیں جس نے کوئی سزا کاٹی ہو؟ ذوالفقار علی بھٹو سے پہلے صرف خان لیاقت علی خان ایسے لیڈر گزرے جنہیں قتل کیا گیا۔۔ اس کے بعد تو بس عوام ہی پستے رہے۔ مہنگائی، غربت، لاچاری، بے روزگاری کی چکی میں۔۔ بھٹو کو پھانسی لگایا گیا تو اس کو بھی عدالتی قتل بہت بعد میں قرار دیا گیا۔ اس کا کیس بمبینو سینما والے بھائی کے دور میں دوبارہ کھولا بھی گیا تو بھی اسی سیاسی انداز میں جیسے یحییٰ بختیار نے بھٹو کا کیس لڑا، کوئی قانونی نکتہ یا شہادت نہیں صرف سیاست۔۔ مولوی انوار الحق بھی فیصلہ میں سیاست کر گیا۔۔ یہاں اپنے زرداری صاحب نے ڈاکٹر بابر اعوان کو کیس کا وکیل بنایا ۔۔ اس شخص کو بھٹو کے کیس کا وکیل بنانا کسی عدالتی قتل سے کم نہیں جس نے خود اس پھانسی کی خوشی میں مٹھائی تقسیم کی تھی۔جس نے کیس کا آغاز، نوٹس ملیا ککھ نہ ہلیا کا نعرہ لگا کے کیا، بعد میں معافی۔۔پھر واقعی ککھ نہ ہلیا۔۔

جیسے جسٹس افتخار چوہدری کے وکیل اعتزاز احسن نے سپریم جوڈیشل کمیشن میں کیس جیتا مگر اس کا فائدہ جتنا جسٹس چوہدری کو ہوا اس سے بہت زیادہ خود اعتزاز کو پہنچا بلکہ اب بھی پہنچ رہا ہے۔

بس یہ سلسلہ جاری ہے، کوئی کہتا ہے وہ تبدیلی لانے کے لیے نکلا ہے مگر حسن نثار بننے سے پہلے، مبشر لقمان اور تھری ایڈیٹس والے رپورٹرز کا روپ دھارنے سے پہلے ۔۔میری دلیل تو سن لو۔۔۔ یہ جو تبدیلی کا نعرہ ہے، اس میں صرف لارا ہے۔ کیونکہ اگر تبدیلی کی خواہش ذرا بھی سنجیدہ ہوتی تو جاوید ہاشمی، جسٹس وجیہہ الدین اور اکبر ایس بابر جیسے لوگ عمران سے الگ نہ ہوتے۔

دوسروں کو یہ کہنے والا کہ ہمیں تو کوئی تحفہ نہیں دیتا ۔۔ جب اپنے کاغذات نامزدگی بھرتا ہے تو اس میں بھی تحفتاً ملنے والی اراضی کا ذکر ہوتا ہے، وہ نواز شریف پر کرپشن کا الزام لگاتا ہے کیونکہ اس کی آف شور کمپنیاں ہیں ۔۔ میری طرف سے نواز شریف کو پھانسی دے دینی چاہیے وہ بہت کرپٹ ہے مگر کیا عمران خان کو کچھ نہیں کہا جانا چاہئے جس نے اپنی اے ٹی ایم مشینوں کے بعد خود اپنی آف شور کمپنی کا بھی اعتراف کر لیا لیکن اس کی کمپنی تو حلال ہے ۔۔کیونکہ اسی کی جیب میں تو حلال حرام، سچے جھوٹے، کرپٹ اور ایماندار ہونے کی مہریں اور اسناد موجود ہیں جو ساتھ شامل ہو جائے وہ حلال، سچا اور ایماندار ہے ۔۔۔ اور وہ جو نواز شریف کا ساتھی ہے وہ کرپٹ، جھوٹا اور حرام خور ہے۔

اور جو غلطی کے ساتھ نواز شریف کے خلاف نہ لکھے وہ لفافہ صحافی ہے، اس کو حکومت کی جانب سے بھتہ ملتا ہے، یہ ہے نئی سوچ، اسے کہتے ہیں تبدیلی۔۔ اسی لیے تو کہتے ہیں تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ گئی ہے۔کچھ لوگ مذاق میں بھی کہتے ہیں مگر ان کے مذاق سے بھی ان کی سوچ کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے