مجبوری کی پگڈنڈی پر ایمانداری کا سفر

کچھ مہینے پہلے شروع ہونے والا حسینہ کادرد، آج سینے کا سرطان بن کر اس کے سامنے کھڑا ہے اور وہ اس سوچ میں گم ہے کہ کیسے اپنا علاج کروا کر اپنے بچوں کے لیے زندگی کے مزید کچھ دن خرید لے۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ اس کی انتہائی محدود آمدنی اور کام کی زیادتی کی وجہ سے علاج جیسی فضول خرچی اب اسے ناممکنات میں نظر آتی ہے ۔ جہاں اسے کہیں کسی گھر میں اپنی تنخواہ مانگنےپر بھی دو مہینے گزرنے کے بعد ملتی ہے اورکسی چھوٹی سی مدد پر بھی نہ صرف مہینوں احسان جتایاجاتا ہے بلکہ اس مدد کے عوض زائد کام لینااک معمول بنا لیا جاتا ہے ۔ و ہاں علاج جیسی عیاشی پر لاکھوں روپے کون لٹائے ؟

حسینہ کے پاس اپنے پانچ بچوں کی اکیلے کفالت کرنے کے لیے مختلف گھروں میں کام کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ ۔ ایسے میں اب اسے اپنے خواب چکنا چور ہوتے نظر آ رہے ہیں۔۔خواب وہ جو ہرکوئی اپنی اولاد کے لیے دیکھتا ہے، اسے بہتر کھلانا، پہنانا، تعلیم کے شعور سے آراستہ کرنا۔ ۔۔ اپنی آنے والی نسل کی بہتر زندگی کے لیے اس کے بچے نہ صرف مدرسےمیں دینوی اور دنیاوی تعلیم حاصل کر رہے ہیں بلکہ ایک بیٹا درزی کے پاس کام سیکھ رہا ہے تو ایک بیٹی گھروں میں روٹیاں پکانے کے ساتھ ساتھ خواتین کو مہندی لگانا سیکھ رہی ہے۔ یہ صرف ایک حسینہ ہی کی کہانی نہیں، بلکہ ایسی ھزاروں چلتی پھرتی حسینائیں صبح سے شام تک پوش علاقوں کے بنگلوں میں اپنے زندہ رہنے کے خوابوں کی تعبیریں ڈھونڈتی ہیں ۔

یہ عورتیں اور پھر انکی بیٹیاں گھریلو اور معاشی جبر کے نتیجے میں ماسی بننے پر مجبور ہیں۔ جس کی کڑیاں نہ صرف غیر ذمہ دار مردوں (جنھیں گھر کا سربراہ کہلوانے کا بہت شوق ہوتا ہے) سے بلکہ ریاستی اور معاشرتی نظام کی ستم ظریفی سے بھی ملتی ہیں۔۔۔۔

مزدوروں کے علاوہ گھریلو ملازمین کا پاکستان کی غیر رسمی معشیت میں حصہ سب سے ذیادہ ہے ۔۔۔۔۔ لیبر فورس سروے کے مطابق ملکی غیر رسمی معشیت میں گھریلو ملازمین کا حصہ 73 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان میں تقریباً 85 لاکھ افراد گھریلو کام سے وابستہ ہیں جن میں زیادہ تعداد خواتین اور لڑکیوں کی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کم تنخواہ ۔۔۔۔ لمبے اوقاکار۔۔۔۔ چھٹی کی ممانعت۔۔۔ ذیادہ کام کے بعد آرام کے کچھ منٹ نہ دینا۔۔۔۔۔طاقت سے زیادہ مشقت کروانا۔۔۔۔۔ بات بات پر چوری کا الزام دینا اور ذہنی و جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ بسا اوقات انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ نتیجاً اکثر چھوٹی عمر کی لڑکیاں لالچ یا خوف میں بے راہ روی کا شکار ہو کر بربادی کی راہ پر چل پڑتی ہیں تو کبھی ان کو ذہنی و جسمانی طورپر برباد کر کے معاشرے میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

22 فروری2016۔۔ پشاور میں ایک ڈاکٹر کو اس کے گھر میں کام کرنے والی 14سالہ لڑکی کے جسم کے مختلف حصوں کو گرم لوہے سے داغنے اور بال کاٹنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ۔۔ ڈان نیوز کے مطابق اس واقعے میں لڑکی کے چہرے اورگردن پر بھی تشدد کے واضح اثرات نظر آرہے تھے۔ملزم ڈاکٹرکا کہنا ہے کہ بچی گھر کی قیمتی اشیاء چرا کر بھاگ رہی تھی جس پراس نے تشدد کیا۔

یہ بچی جان سے تو نہیں گئی مگر اسی کی ہم عمر 17 سالہ مومنہ جو ڈھرکی میں فوجی فرٹلائزرکمپنی کی رہائشی کالونی میں ریٹائرڈ کرنل منورزیدی کے گھررہائش پزیر تھی 24 اپریل 2016سے لاپتہ ہے،اہل خانہ اور گاوں کے لوگوں کے احتجاج کے باوجود ان کی کہیں کوئی سنوائی نہیں اور ایف-ایف-سی کے میڈیا مینیجر ریٹائرڈ کرنل امین اس واقعے پر کسی موقف کے لیے دستیاب نہیں۔

پاکستان میں کبھی اس پسے ہوئے طبقے کے لیے کوئی با قاعدہ قانون سازی نہیں کی گئی ہے۔۔۔۔ نہ ان کے حقوق کے لیے قانون کی کتابوں میں کوئی بنیادی ڈھانچہ موجود ہے۔۔۔۔۔ قانون سازی تو دور کی بات ان لوگوں کا شمار تو ملک کے کسی اشاریے میں نہیں ملتا ۔۔۔۔ یہ گھریلو ملازمین سول اور کرمنل کورٹ میں اپنی شکایت یا مدعا درج کروا سکتے ہیں مگر اپنے غیر مستحکم اور معاشرے میں نچلی سطح کی حیثیت رکھنے کی بنا پر ان ساری شکایتیں صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہیں ۔

اس طبقے پر احسان کرتے ہوئے پاکستانی آئین میں ان کے لیے آرٹیکل 11 میں ہر قسم کی غلامی اور جبری مزدوری کےخاتمے کی شق موجود ہے ۔ اس کے علاوہ آرٹیکل 17 کے تحت مزدوروں یا غیر رسمی ملازمین کو یونین بنانے کی اجازت بھی حاصل ہے۔

ملازمین کے صوبائی سوشل سیکیورٹی آرڈیننس 1965 کے تحت گھریلو ملازمین کو طبی علاج فراہم کرنا اور ان کی صحت کی دیکھ بھال کرنا مالک کی ذمہ داری ہے۔۔۔ جو ملازم ایک سال تک ایک ہی گھر پر کام کرے اس کا علاج و معالجہ اس گھر کے مالکان کے ذمہ ہے۔اسی طرح منیمم ویجیز ایکٹ1961 کے تحت وہ گھریلو ملازمین جو مستقلاً کسی گھر میں کام کر رہے ہوں ہر 44 گھنٹے پر اوور ٹائم کے حقدار ہیں، اس کے علاوہ ہفتہ میں پورا ایک دن یعنی چو بیس گھنٹے ان کو آرام کے لیے دینا لازمی ہے اور ایک ہی مالک کے پاس کام کرتے اگر پورا سال ہو جائے تو سالانہ تین دن بمع تنخواہ چھٹی دینا بھی ضروری ہے۔ ملکی قوانین میں شامل یہ حقوق نہ تو گھروں میں کام کرنے والی ان مجبور ماسیوں کو پتہ ہیں اور نہ ہی مالکان کو ان کا ادراک ہے۔

اس ضمن میں اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے انٹرنیشنل لیبر آرگینائزیشن ( آئی ایل او ) جو انسانی اور مزدوروں کے حقوق اور سماجی انصاف کے لیے کوشاں ہے،نے تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے کنوینشن 189 میں گھریلو ملازمین کے لیے بین الاقوامی معیا ر کے حقوق متعین کیے ہیں۔ اس سے ملک کے ہزاروں گھریلو ملازمین کو مضبوط حقوق ملیں گے ۔ پاکستان نے اس کنوینشن کی توثیق کی ہے کہ ان حقوق کے حاصل ہونے سےغیر رسمی معیشت میں شامل کارکنوں کی اکثریت رسمی کارکنوں میں تبدیل ہو جائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان ملازمین کے لئے اس کنوینشن کے نکات پر مزید قانون سازی کرکے اس کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے تا کہ ان مجبور انسانوں کے ساتھ بے زبان جانوروں کی طرح کا روا رکھا جانے والا برتاؤ ختم نہیں تو کچھ کم ہو جائے ۔

تیرہ سال کی عمر سے کام کرتے کرتے 40 سالہ حسینہ اور اس جیسی لاکھوں عورتیں معاشرے کی بہترین نباض ہیں، لوگوں کے مختلف روپ ان کے سامنے پوری سچائی کےساتھ آشکار ہوتے ہیں۔ گھروں کی فطرت اورخاندانوں کے راز جتنا یہ جانتی ہیں کیا ہی کوئی محقق جانتا ہوگا لیکن کسی کے رازوں سے فائدہ اٹھاتی یہ کم کم ہی نظر آئیں گی۔مگر معاشرہ ان سے جس طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے ، اٹھاتا ہے ۔ اور یہ طبقہ اپنے حقوق اور ان کے تحفظ کو جانے بغیر ہی اپنے پیٹ کا جہنم بھرنے کے لئے اپنی زندگی کی گاڑی کھینچنے میں گم ہے۔اور ملکی اشاریوں میں انکا کہیں کوئی شمار نہیں کہ مررہے ہیں یا زندہ ہیں ۔

چونکہ یہ افراد نہ ٹیکس ادا کر رہے ہوتے ہیں نہ کسی حکومتی ادارے میں ان کو جانچنے اور ناپنے کا کوئی نظام موجود ہوتا ہے۔ اس لیے اس قانون کے نافذ ہونے سے ملازمین کے ساتھ ساتھ ملک کا بھی بڑا فائدہ ہو گا کہ ایک معاہدے کے تحت ان افراد کو ملازم رکھنے سے حکومت کو مجموعی قومی پیداوار (جی۔این-پی) اور مجموعی ملکی پیداوار (جی ۔ ڈی۔ پی) بھی فروغ پائے گا۔ نیز بین الاقوامی فہرست برائے انسانی حقوق کی پاسداری کرنے والے ممالک میں بھی پاکستان کا نام بہتر درجے پر پہنچ سکتا ہے ۔

گو کہ سندھ میں ایک فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور کی تنخواہ کم از کم 11ہزار روپے ماہانہ مقرر کی گئی ہے مگر اپنے کام کو اس سے زیادہ وقت دینے والے گھریلو ملازم کو آدھی تنخواہ بھی نہیں ملتی۔۔۔کیوں ؟؟؟ صرف اس لیے کہ معاشرے کے نچلے پسے ہوئے افراد کے لئے آج تک کسی نے نہیں سوچا اور نہ ہی ان کی زندگیوں میں تھوڑی سی رونق و سکوں کے لیے کوئی کوشش کی گئی۔۔۔۔جو بھی کو ششیں ہیں وہ ہر گھر کے مالک کے انفرادی برتاؤ اور رویے کی وجہ سے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارا اجتماعی شعور بلکل خاموش ہے ۔۔ کسی نے چاہا تو اپنے صدقے، خیرات اور زکوۃ سے ان کی مدد کردی۔۔۔۔۔ جس نے خیال کیا اس نے انسانی ہمدردی میں ان کو اپنے کھانوں، کپڑوں اور دواؤں میں سے حصہ دے دیا تو کسی بے حس نے ان کو کولہو کا بیل ہی سمجھ لیا بلکہ کوئی روبوٹ۔۔۔۔۔ جو نہ احساسات رکھتا ہے اور نہ ہی اس کی ضروریات ہیں نہ ہی کسی مشکلات سے ان کا کوئی واسطہ رہتا ہے۔

مجھے غربت اور تنگدستی میں پلنے والی حسینہ کا کردار ایک عام لڑکی سے کہیں ذیادہ بلند نظر آیا — کہ اپنے گھر سے کوٹھیوں تک کی راہ میں اپنے بدن پر پڑتی میلی نظروں ، کانوں میں انڈیلتے تکلیف دہ فقروں، اوچھی حرکتوں سے بڑی بہادری سے مقابلہ کرتی ہے۔ گو کہ وہ مالکن کے پاس پہنچ کر اپنے دکھ کو بیان کرتے ہوئے روہانسی ہو جاتی ہے ، گزرے ہوئے اذیت ناک لمحات کو یاد کر کے کانپ جاتی ہے مگر اپنے اہل و عیال کی بہتر زندگی کے لیےہر دن آنے والے ان عذابوں کو جھیل جاتی ہے۔۔۔۔۔ میں نے ان میں سے اکثر کو اتنا مضبوط بھی پایا کہ صحن میں گرا ہزار کا نوٹ بھی آپ کو واپس کر دیں یا غسل خانے میں پڑی بھولی ہوئی سونے کی انگھوٹی بھی اپنی باجی کے ہاتھ میں تھماتی ہیں۔ اس لمحے ان ماسیوں کے کردار میں مجھے فرشتوں کا گماں گذرتاہے۔۔۔ جو بھوک میں بھی ایمانداری کے اعلیٰ منصب پر فائز ہو کر ہم سب کے ایمان کے لئے سوالات چھوڑ جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ معاشرے کی ذمہ داری ہے ان بھوکے پیٹوں اور اور چھوٹی چھوٹی حسرتوں کو سالہا سال تک دلوں میں پالنے والی ان محنت کش ضرورت مندوں کو اپنی قیمتی اشیاء اور پیسوں کی نمود و نمائش سے نہ آزمائیں ۔۔۔۔۔۔ کسی ایماندار پر وہ کمزور لمحہ نہ آنے دیں جہاں پر اسے برسوں کی دیانتداری، خدمت بھول کر صرف اپنے مصائب نظر آنے لگیں اوران کو حل کرنے کے لیے اس کے قدم ایمانداری اور مجبوری کے بیچ کی پگڈنڈی پر ڈگمگانے لگیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے