کہانی آف شور کی

کہانی آف شور کی
تحریر :حنا سید

یوں تو ہمارا ملک دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے مگر یہاں ہمیشہ سے کرپٹ ترین حکمران مسلط رہے ہیں۔۔۔۔جہاں غربت کے باعث دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہوتی وہاں ہمارے حکمران اپنی دولت چھپانے میں مصرف ہیں
بہت سی مثالیں ہیں یہاں جیسے ابھی کچھ عرصے پہلے کرپشن کی جو مثال ہمارے سامنے آئی وہ سیکریٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی کے گھر نیب کا چھاپہ تھا جس مِیں 73 کروڑ سے زائد نقدی اور نوٹوں کے علاوہ گھر سے کروڑوں روپے مالیت کا سونا، پرائز بانڈ اور سیونگ سرٹیفیکٹ بھی برآمد کیے گئے جس کے بعد نیب نے انہیں اپنی تحویل میں لے لیا اور بلوچستان حکومت نے ا نہیں معطل کر دیا یہ تو صرف ایک مثال ہے ایسی بہت سی مثالیں اور ہونگی جو اب تک رپورٹ نہیں ہوئیں
اور ہمارے حکمران جن کے پاس اتنی دولت کے انبار ہیں کے چھپائے نہیں چھپتی اور چھپانے کے لیَے آف شور کمپنی بنانا پڑتی ہےجس کا انکشاف پانامہ پیپرز میں ہوا…
پنامہ کا ایسا چرچا ہوا کے میاں صاحب سمیت انکے سپوتوں کی کرپشن کا بھانڈا پھوٹ گیا ۔ سیف اللہ خاندان کی سب سے زیادہ 34آف شور کمپنیاں ہیں شہید بے نظیر بھٹو، رحمان ملک، پی ٹی آئی کے علیم خان کے نام شامل ہیں۔
پانامہ لیکس کا آنا تھا کے پاکستان سے لے کر روس تک اور روس سے لے کر آئس لینڈ تک ہلچل مچ گئی
تمام نیوز چینلز کو بریکنگ مل گئی ۔ لائیو ٹرانسمیشن اور حسین نواز کے لائیو بیپرز نے جہاں چینلز کو زندگی بخشی وہیں نواز شریف پر ایک بلی آگئ اس پانا لیکس کا شور صرف پاکستان کی حد تک نہیں رہا بلکہ اس نے دنیا بھر میں آ گ لگا دی ۔
حسین نواز نے اپنی بپتا سنائی کے کس طرح جلا وطنی میں قرضہ لیکر فیکٹری لگا ئی پھر مریم نواز نے شور مچایا کہ بیرون ملک تو کیا میری پاکستان میں بھی کوئی جائداد نہیں ۔۔۔اسکے بعد حسن نواز نے جو بی بی سی کو انٹرویو دیا اس میں تین آف شور کمپنیوں کا اعتراف کیا ۔۔۔۔ جس وزیرآعظم نے پارلیمنٹ میں قدم نہ رکھا وہ کس طرح قوم سے تین بار خطاب کر کے اپنے خاندان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے کی داستان سنا رہے تھے۔۔۔۔ پہلے خطاب میں نواز شریف نے جوڈیشل کمیشن کا اعلان کیا جس کو اپوزیشن نے مسترد کردیا اور اسکو ذاتی خطاب قرار د یا ۔ خطاب پریہ اعترازات سامنے آئے کہ چونکہ وزیر آعظم اس وقت ایک فریق بن چکے ہیں اس لیے اپوزیشن اور سول سوسائٹی کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔۔۔۔ اس طرح ایک خبر سے شروع ہونے والا سیاسی طوفان تیز ہوا ۔۔۔۔اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں نے پارلیمنٹ میں مشترکہ حکمت عملی ترتیب دی مگر پاکستان ٹیلی ویژن نے عمران خان کی تقریر اور قومی اسمبلی کی کاروائی کا بائیکاٹ کیا عمران خان نے استعفی کا مطالبہ کیا۔۔۔۔ پہلے تو پیپلز پارٹی اس ساری سچویشن سے دور رہی کے ہم جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دینگے مگر ہوا یوں کے پی پی پی اور پی ٹی آئی قریب آگئے اور تو اور شیخ رشید 3 عشروں کے بعد پی پی پی سے قریب ہو گئے اور بلاول کی تعریفوں کے پل باندھتے نہیں تکھتے تھے۔۔۔ جو دھرنوں کے دنوں میں بلو رانی کہہ کر مخاظب کیا کرتے تھے کے تھوڑا پیسہ لگائو اور بلو رانی کی فنی خرابی دور کرو تو جناب سیاست میں سب کچھ جائز ہے۔۔۔۔ کل کے دشمن آج کے دوست۔۔۔۔۔ ان حالات میں مولانا فضل الرحمان نے نواز شریف کا بھرپور ساتھ دیا اور عمران خان پر بھر پور تنقید کی وہیں عمران خان نے مولانا صاحب کے لیے الفاظ کا چناؤ ان الفاظ سے کیا کہ ان کا نعرہ ہے رقم برھائونواز شریف ہم تمھارے ساتھ ہیں
اسی دوران نیوز پیپر میں عمران خان کی آف شور کمپنی کا انکشاف ہوا اور عمران خان نے اعتراف کیا 1983 میں فلیٹ خریدنے کے لیے آف شور کمپنی بنائی تھی ۔ چونکہ وہ برطانیہ کا شہری نہیں تھا اس نے ٹیکس نہیں دینا تھا اور ایسا کرنا جائز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر پاناما لیکس میں اس انکشاف کے بعد کہ وزیراعظم نواز شریف کے دو بیٹوں حسین اور حسن نواز کے علاوہ بیٹی مریم نواز کی بھی آف شور کمپنیاں ہیں۔ عمران خان نے جب جب وزیرآعظم سے استعفی اور احتساب کا مطالبہ کیا ۔۔۔۔۔۔
بعد میں مشترکہ اپوزیشن نے اپنے سات سوالات پیش کیے وزیر آعظم کو پارلیمنٹ آنے کی دعوت دی یوں نواز شریف پارلیمنٹ میں تشریف لائے
مگر انہوں نے پھر سے وہی باتیں کیں جو وہ اپنے ہر خطاب میں دہراچکے تھے ۔ مگر ان کی تقریر اپوزیشن کو مطمئن نہیں کر پائی ۔۔۔۔ جسکے بعد متحدہ اپوزیشن میدان چھوڑ کر بھاگ گئی لیکن 7 سوالوں کی جگہ 70 سوالات کے جواب طلب کر لیے
18 مئی 2016 کو پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا جس کی کاروئی پاکستان ٹیلی ویژن نے براہ راست دکھائی جس میں عمران خان اور خواجہ آصف کے درمیان تکرار ہوئی۔۔۔ خواجہ آصف نے عمران خان پر الزام لگایا خود شور مچاتے رہےپانامہ پر اور خود کی بھی آف شور کمپنیاں ہیں اور لوگوں پر گالیاں نکالتے رہے ہیں کہتے ہیں میرا نام پانامہ پیپر پر نہیں ہے۔۔۔ خواجہ آصف نے مزید کہا کے کہیں پر بھی آف شور کمپنی ہوگی وہ پانامہ لیکس میں شامل ہے۔۔۔ جس پر عمران خان نے خود کو احتساب کے لیے پیش کرتے ہوئے کہا جن ٹی او آر پر و زیر اعظم کا احتساب ہو رہا ہے اسی ٹی او آرز پر میرا بھی احتساب کر لیں ہم پانامہ پیپر کا پوچھتے ہیں تو شوکت خانم پر اٹیک ہو جاتا ہے
پانامہ لیکس نے جہاں نواز شریف کو پارلیمنٹ میں جانے پر مجبور کر دیا وہیں شہباز شریف کو بھی پنجاب اسمبلی جانے پر مجبور کر دیا جس نے اسمبلی کےپچھلے تین سالوں میں ایک سو ننانوے اجلاسوں میں سے صرف گیارہ اجلاسوں میں شرکت کی تھی ۔۔۔دوسری جانب وزیراعظم نواز شریف اقتدار سنبھالنے کے بعد سے 306 اجلاسوں میں صرف 55 مرتبہ قومی اسمبلی اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاسوں میں شریک ہوئے۔ ۔ 3سالوں میں قومی اسمبلی کے 284 اجلاس ہوئے وزیراعظم ان میں سے 37 اجلاسوں میں شریک ہوئے۔
اب تک کے حالات کے مطابق حکومت اور اپوزیشن مذاکرات کے لیے تیار ہیں ٹی او آرز کو حتمی شکل دے دی گئی ہے ۔ اب پانامہ لیکس پر کمیٹی بنے گی جس میں چھ ممبران حکومت کے ہونگے اور چھ اپوزیشن کے ہونگے متحدہ قومی موومنٹ کا کہنا ہے کیونکہ ہم نا حکومت میں ہیں نا اپوزیشن میں تو ہمیں تیرھیویں ممبر کی حیثیت سے کمیٹی میں شامل کیا جائے
تین دن سے قومی اسمبلی میں ہلچل رہی جس میں وزیر آعظم کی تقریر کے بعد سے مسلسل تمام پیش رفت پارلیمنٹ میں ہی ہو رہی ہے۔۔۔۔۔ پانامہ پیپرز کے حوالہ سے اپوزیشن کا مطالبہ تسلیم کیا گیا کے دونوں جماتیں مل کر ٹی ار آرز بنائیں گی ۔۔۔۔اب قرارداد بھی منظور ہو گئی ہے اب 15 دن میں یہ کمیٹی ٹی او آرز بنانے گی یہ بڑی پیش رفت ہے پی ٹی آئی نے کہا کے اگر وزیر اعظم نے خود کو احتساب کے لیے پیش نہیں کیا تو وہ سڑکوں کا رخ کریگی۔۔
کہنے کو تو سیاسی ہلچل اپنے عروج پر ہے۔۔۔پانامہ کا ڈرامہ کب تک چلتا ہے یہ تو معلوم نہیں مگر اس ملک سے کرپشن اور کرپٹ حکمرانوں کو ختم کیے بغیر کچھ ممکن نہیں۔۔۔۔۔

تعارف
حنا سید نے کراچی یونی ورسٹی سے بین الا اقوامی تعلقات اور سیاسیات میں ماسٹرز کیا، 2007میں جیو الیکشن سیل کے ساتھ کیرئیر کا آغاز کیا اور اب بطور ریسرچر اسی ادارے سے منسلک ہیں ۔ آئی بی سی اردو انہیں خوش آمدید کہ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے