نیشنل ایکشن پلان کا کیا بنا؟

پشاور آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے میں معصوم پھول جیسے بچوں کی شہادت کے نتیجے میں سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے سخت ایکشن دیکھنے میں آیا اور قومی اتفاق رائے سے مذہبی انتہا پسندی ، شدت پسندی اور دہشتگردی سے نبردآزما ہونے کیلیے نیشنل ایکشن پلان کا قیام عمل میں لایاگیا ۔ اس پلان کی بعض شقوں پر کچھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید تحفظات دیکھنے میں آئے لیکن وطن عزیز کودہشتگردی سے پاک کرنے کیلیے کڑوا گھونٹ پیتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے پیداکیااور ملٹری کورٹ سمیت نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی ۔ ابتداء میں تو نیشنل ایکشن پلان میں شدت سے وسیع پیمانے پر دہشتگردوں کے خلاف کاروائیاں عمل میں لائی گئیں اور اسکے نتیجے میں دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں کمی بھی واقع ہوئی ۔ تاہم کچھ عرصے سے ملک کے مختلف حصوں میں بالخصوص فاٹا ، خیبرپختونخواہ اور کراچی میں ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ۔ خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کے اقلیتی رکن صوبائی اسمبلی سردار سورن سنگھ ، فوج کے دو کرنل ، پولیس اورفرنٹئیر کور کے سپاہی افسران سمیت پروفیسرز اور ڈاکٹرز بھی حملوں کا نشانہ بنتے ہوئے اس جہاں سے رخصت ہوئے ۔ ان تمام واقعات اور ٹارگٹ کلنگ کی ذمہ داری مختلف کلعدم جماعتوں کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہے ۔ خیبرپختونخواہ میں رواں سال اب تک پانچ مہینوں کے دوران دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کے 150 کے قریب واقعات پیش آچکے ہیں جن میں چار خودکش حملے بھی شامل ہیں ۔ بالکل اسی طرح کراچی میں بھی گذشتہ دنوں سے ٹارگٹ کلنگ اسٹریٹ کرائمز کے واقعات میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے ۔ کراچی میں بھی ہدف بنا کرقتل و غارت گری جاری ہے ۔ سول سوسائٹی کے اہم رہنما خرم ذکی کو بھی دن دیہاڑے قتل کردیا گیا ۔ انہیں مختلف کلعدم تنظیموں کی جانب سے سنگین نوعیت کی تھریٹس بھی تھے اور اپنی حیاتی کے دوران خود کے قتل ہونے کا ذمہ دار وہ ایک کلعدم تنظیم کے رہنما کو ٹھیراچکے تھے جسکی ایف آئی آربھی درج ہے لیکن قاتل قانون کی گرفت سے باہر ہیں ابھی تک ۔گذشتہ دن قبل ملیر ، لانڈھی سمیت کراچی کے کچھ علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات رونما ہوئے ان واقعات کا شکارہونے والوں میں کچھ افراد کا تعلق کراچی کی سب سے بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سے تھا جس کے بعد رینجرز نے کورنگی سے ایم کیوایم حقیقی کے کچھ افراد بھی گرفتار کیے جو ان کلنگز میں ملوث پائےگئے کراچی اور پشاور میں ٹارگٹ کلنگ کے ان واقعات میں ایک بڑی تعداد ان حملوں کی جو فرقہ وارانہ نوعیت کے بتائے جاتے ہیں اور یہ سب سے زیادہ پشاور میں ہوئے ان حملوں میں اہل تشیع فرقے سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد کی بڑی تعداد شامل ہے ۔ کراچی میں خرم ذکی کا قتل بھی انہی حملوں کا تسلسل ہے ۔
پاکستان میں چند ہفتوں پہلے پانامہ پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد جو سیاسی بھونچال آیا ہوا ہے اس سے بظاہر لگتا ہے کہ شدت پسندی اور فرقہ وارانہ قتل عام کی روک تھام کیلیے ترتیب دیے جانے والا نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد پانامہ کے بخار کے باعث ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ۔ حکومت کی توجہ نیشنل ایکشن پلان سے کم ہوکر پانامہ کی جانب زیادہ مرغوب دکھائی دیتی ہے ۔ جب سے پاکستان میں پانامہ پیپرز سے سیاسی طوفان آیا ہے نیشنل ایکشن پلان کا تذکرہ کم ہی دیکھنے میں آیا ہے ۔ پانامہ پیپرز میں وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے اثاثے سامنے آنے پر حکومتی وزراء نے وزیراعظم کے دفاع میں دن رات ایک کردیے ہیں ۔ جب سے پانامہ لیکس کا معاملہ سامنے آیا ہے اسکے بعد سے حکومت کی ساری توجہ اس بات پر لگی ہوئی ہے کہ خود کو کیسے اس مصیبت اور پریشانی سے باہر نکالیں ؟ لیکن ملک کو درپیش دیگر مسائل اور نیشنل اییکشن پلان پر کوئی خاص توجہ نہیں دےرہا جس سے دہشتگرد فائدہ اٹھا کر اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ قومی ایکشن پلان کے نتیجے میں سیکیورٹی فورسز نے جب کاروائیوں کا آغاز کیا تو اس سے جرائم سمیت دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی اور کچھ عرصے تک کلعدم تنظیموں کے رابطے ذائع ابلاغ سے کم ہوگئے تھے ۔ لیکن حکومت کا پانامہ کے بخار میں مبتلا ہونے کی وجہ سے حالیہ دنوں میں پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں یہ رابطے پھر سے بڑھ رہے ہیں ۔ جس سے لگتا ہے مذہبی انتہاپسندی اور شدت پسند ایک بار پھر سے منظم ہورہے ہیں ۔
ارشد علی راوُ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے