پچاس ارب کے پانی چور، خصوصی رپورٹ

اس سے میری ملاقات ایک اتوار بازار میں ہوئی ، وہ ھفتہ وار بچت بازاروں میں مصنوعی جیولری کا ٹھیلہ لگاتا تھا ، بچوں کیلئے چھوٹی موٹی جیولری خریدتے ہوئے میں اس سے بھاو تاو کرنے لگا ، میرے کم قیمت لگانے پر وہ روہانسا ہو گیا اور کہنے لگا کہ صاحب اتنے میں تو خرید بھی نہیں ۔۔۔۔۔ہمیں بھی بچوں کا پیٹ پالنے دو ۔۔۔۔۔ ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے ایک آنسو چھلک پڑا ۔۔۔۔ کہنے لگا صاحب ہم بھی مجبور ہیں جب ہی اس گرمی میں یہ پسینہ برداشت کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اس سے ہمدردی محسوس ہوئی اور میں وہیں ایک اسٹول پر اس کے قریب بیٹھ گیا اور اس سے باتیں کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بتایا کہ کہ وہ نارتھ کراچی میں پانچ ھزار روپے کے کرائے کے مکان میں رہتا ہے ، اس گرمی میں سارا سارا دن لائٹ نہیں ہوتی ، اور علاقے میں پانی بھی نہیں آتا ، ہم بورنگ کا کھارا پانی استعمال کرتے ہیں ، کہ میٹھا پانی خریدنے کی ہم میں سکت نہیں۔۔۔۔۔۔ ۔ گرمی میں کھارے پانی سے نہانے سے میرے چار بچوں کے جسم پہ دانے نکل آئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ میں قریب ہی ایک کلینک میں جلد کے ایک ڈاکٹر کے پاس انہیں روز انہ رات میں لے جاتا ہوں۔۔۔۔۔ وہ ایک بچے کی دوائی کے روزانہ 100 روپے لیتا ہے ۔ روز کی دیہاڑی کرنے والے مزدور کے 400 روپے روز دوائی پہ خرچ ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ یہ حکمراں ہمیں میٹھا پانی دے دیں تو ہماری بیماریوں سے جان چھوٹے ۔۔۔۔۔، اور یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اسے تسلی دی اور اسی کی بتائی ہوئی قیمت پر بچوں کی جیولری خریدلی اور چل پڑا ، شاید میں اسے تسلی کے دو بول ہی دے سکتا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ راستے میں میرے صحافتی پیشے نے مجھے سوچنے پہ مجبور کیا کہ یہ سارا پانی اگر غریب بستیوں میں نہیں پہنچتا تو کہا ں جاتا ہے ، اور میں اسی تحقیق میں کئی ھفتے لگا رہا ۔۔۔۔۔۔ کراچی کے پانی پہ تحقیق کرنے والے کئی دفاتر کے چکر لگائے اور مواد اکھٹا کرتا رہا ۔۔ ۔ اس موضوع پر کام کرتے ہوئے مجھ پہ آٓشکار ہوا کہ کراچی میں سالانہ 50 ارب روپے کا پانی چوری کرکے بیچا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ اور ایک مضبوط مافیا ہے جو یہ پانی چوری کرتی ہے ، اور کئی ھزار لوگ اس دھندے سے وابستہ ہیں ۔ اور ساقی کے کام پر ما مور سرکاری ا داروں کے افسران انکے پشت پناہ اور اس کمائی مین حصہ دار ہیں ۔

آئیے آپ بھئی دیکھئے کہ کراچی میں سالانہ 50 ارب روپے کا پانی کس طرح چوری کرکے بیچا جاتا ہے ۔

ایک کروڑ 60 لاکھ آبادی کے شہر میں ماہ مئی سے لیکر اکتوبر تک پانی کی کمائی کا سیزن ہوتا ہے ، اور اس کاروبار سے وابستہ افراد اور مافیا پیسوں میں نہاتی ہے ۔ اس وقت کراچی شہر کو پانی فراہم کرنے کے دو اہم زرائع ہیں جس میں سے ایک دریائے سندھ ہے ۔ جہاں کوٹری بیراج سے ایک نہر کے زریعے 1200 کیوسک پانی( یعنی 645 ملین گیلن ) ٹھٹہ سے 30 کلومیٹر دور کینجھر جھیل اور وہاں سے دو کینال کے زریعے کراچی کو پمپ کیا جاتا ہے ۔ کراچی کیلئے پانی کا دوسرا اہم زریعہ حب ڈیم ہے ۔ حب ڈیم کا دارومدار چونکہ با رانی پانی پر ہوتا ہے لہذا اس ڈیم سے کراچی کو پانی کی سپلائی کم زیادہ ہوتی رہتی ہے ۔ ڈیم میں زیادہ پانی ہونے کی صورت میں 75 ملین گیلن روزانہ جب کہ کمی کے دنوں میں 30 ملین گیلن پانی سپلائی کیا جاتا ہے ۔ جبکہ اوسطا یہ ترسیل 50 ملین گیلن رہتی ہے ۔

شہر کراچی کے لئے مقرر کردہ پانی کی کل ترسیل 695 ملین گیلن ہے ۔ جس میں سے 30 ملین گیلن پانی پاکستان اسٹیل اور اور پورٹ قاسم کو دیا جاتا ہے ۔ اس طرح شہر کیلئے 665 ملین گیلن پانی بچتا ہے ۔ اسکی تقسیم کیسے ہوتی ہے ، اور پانی کہاں جاتا ہے ، کتنا حقیقی طور پر سپلائی کیا تا ہے اور کتنا بیچا جاتاہے ، انہی سوالوں کے جوابات کی کھوج نے ہوش ربا انکشافات کئے ہیں ۔

ایک تحقیق کے مطابق کراچی کے وہ علاقے جہاں ھمیشہ پانی کا بحران رہتا ہے کم آمدنی اور اور متوسط آمدن کے رہائشی علاقے ہیں ۔ جن میں نیو کراچی ، بلیہ ٹاون ، لانڈھی ، گڈاپ۔ اورنگی ٹاون، کچی آبادیاں ، گوٹھ اور چھوٹی چھوٹی کالونیاں ہیں ۔ تحقیق کے مطابق ان تمام چھوٹی بستیوں ، کچی آبادیوں اور گوٹھوں میں 80 فیصد پائپ لائنیں موجود ہیں ۔ لیکن انہیں ان پائپ لائنوں سے پانی فراہم نہیں کیا جاتا ۔ بلکہ یہ کم آ مدنی اور متوسظ آمدنی کے لوگ ٹینکرز کے زریعے پانی خریدنے پہ مجبور ہیں ۔ نظام کی ستم ظریفی یہ ہے کہ جو ذیادہ آمدنی والے علاقے ہیں جو پانی خرید سکنے کی سکت رکھتے ہیں وہاں سپلائی معمول پہ رہتی ہے اور جس غریب کی پہنچ سے پانی خریدنا باہر ہے وہی خریدنے پہ مجبور ہے ۔
یہاں ایک عام قاری کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ان ساری آبادیوں میں ٹینکرز کے زریعے پانی بیچا جاتا ہے ، اسکا مطلب ہے کہ پانی موجود تو ہےلیکن پھر اسے پائپ لائنوں کے زریعے فراہم کیوں نہیں کیا جاتا ؟
اسی سوال کے جواب کی تلاش میں یہ بڑا اسکینڈل ابھر کے سامنے آیا ۔
اس وقت پانی کی کمی والے علاقوں میں کراچی واٹر ایند سیوریج بورڈ (کے ، ڈبلیو ، ایس ، بی) کے تحت کام کرنے والے 9 سرکاری ( آفیشلی ) ھائیڈرنٹس کے زریعے پانی فراہم کیا جا رہا ہے ۔ واٹر بورڈ کے مطابق ان ھائیڈرنٹس سے روزانہ 13.75 ملین گیلن پانی واٹر ٹینکرز کے 13 ھزار 750 چکر وں سے شہریوں کو فراہم کیا جاتا ہے ۔ جبکہ تحقیق کے مطابق اصل حقیقت یہ ہے کہ ان ھائیڈرنٹس سے 25 ملین گیلن پانی روزانہ 8377 ٹینکرز کے پھیروں کے زریعے بیچا جاتا ہے ۔

سرکاری اعداو شمار کے مطابق یہ پانی شہریوں کو 15 سے 25 پیسے فی گیلن کے حساب سے مہیا کیا جاتا ہے ۔ جو فاصلے کی بنیاد پر ہے ۔ جبکہ رہاشی اور کمرشل بنیادوں پر بھی پانی کے ریٹ الگ الگ ہیں ۔
اس حساب سے کراچی میں ٹینکرز کے زریعے بیچے جانے والے پانی کے ریٹ کچھ اس طرح ہیں ۔
1000 گیلن والا ٹینکر 150 سے 250 روپے میں
2000 گیلن والا ٹینکر 300 سے 450 روپے میں
3000 گیلن والا ٹینکر 450 سے 800 روپے میں
5000 گیلن والا ٹینکر 1200 روپے میں پیچا جاتا ہے ۔ یہ سب سرکاری ریٹ ہیں ۔ لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ پانی کے ریٹ ڈبل سے بھی ذیادہ ہیں ۔ اس طرح کراچی کے شہریوں کو یہ پانی 35 سے 60 پیسے فی گیلن کے حساب سے فروخت کیا جاتا ہے ، جو فاصلے ، بارگیننگ اور سیزن کے حساب سے گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں ۔ کراچی میں اس وقت 1000 ھزار سے 7000 گیلن پانے لے جانے کے حامل واٹر ٹینکر چلتے ہیں ، جبکہ کچھ واٹر ٹینکر ز کی گنجائش 10 ھزار گیلن کی بھی ہے ۔ اس طرح سرکاری طور پر ھزار گیلن پانی 44 روپے یعنی 4.4 پیسہ فی گیلن رہائشی مقاصد کے لئے وصول کئے جاتے ہیں ۔ جبکہ 73 روپے یعنی 7.3 پیسے کمرشل بنیادوں پر بیچے جاتے ہیں ۔

لیکن یہ ساری کہانی تو سرکاری ھائیدرنٹس کی ہے ۔ اصل کہانی اور تصویر کا دوسرا رخ کچھ اور ہے اور وہ بڑا ہی بھیانک ہے ۔
ان سرکاری ھائیڈرنٹس کے علاوہ 161 ایسے ھائیڈرنٹس ہیں ، جن سے اس اسکینڈل کی اصل کہانی جڑی ہے ۔ یہ ھائیڈرنٹس شہر کو پانی سپلائی کرنے والی ان مین بلک لائنوں کو توڑ کر یا ان سے کنکشن لیکر قائم کئے گئے ہیں۔ شہر بھر میں ایسے چھ رو ٹس ہیں جہاں یہ ھائیڈرنٹس قائم ہیں ۔
1۔ حب ریزروائر سے بنارس چوک تک ، منگھو پیر روڈ کے ساتھ ساتھ
2۔ بنارس چوک سے لیاری کے گٹر باغیچہ تک ۔
3۔ میوہ شاہ قبرستان سے لیاری ندی کے ساتھ ساتھ شیر شاہ تک
4۔ نارتھ کراچی میں صبا سینما اور ایوب گوٹھ کے پاس سے گڈاپ ٹاون تک
5۔ ملیر مین نیشل ھائی وے کے ساتھ ساتھ ، جہاں جہاں سے یہ بلک لائنیں گذرتی ہیں
6۔ قائد آباد اور لانڈھی کے مختلف علاقوں میں جہاں بلک لائنیں موجود ہیں ۔
اس طرح ان چھ مقامات پر کل 161 غیر قانونی ھائیٖڈرنٹس موجود ہیں ، جو پانی کی چوری اور اس کی غیر قانونی فروخت میں ملوث ہیں ۔ ان ھائیڈرنٹس سے روزانہ ٹینکرز کے 8288 پھیرے لگتے ہیں ۔۔۔۔ انداز ا ایک ٹینکر ایک دن میں 10 سے 12 چکر لگاتا ہے ۔ اس کام کے لئے 690 سے 829 ٹینکرز استعمال کئے جاتے ہیں ۔ ( تحقیق کی مختلف سورس میں فرق کی وجہ سے) ۔
تحقیق کے مطابق ان غیر قانونی ٹینکرز کےلئے مین لائنوں کو توڑ کر یا کنکشن لیکر جو فلنگ پوائنٹ بنائے گئے ہیں وہ 4 سے 8 ڈائی میٹر کے ہوتے ہیں ۔ ۔ اس طرح ایک ھزار گیلن کا ایک واٹر ٹینکر 2 سے 3 منٹ میں بھر جاتا ہے ۔ 2000 سے 3000گیلن کا واٹر ٹینکر بھرنے میں 5 سے 10 منٹ لگتے ہیں ۔ جبکہ 5000 گیلن والا واٹر ٹینکر 10 سے 15 منٹ میں بھر لیا جاتا ہے ۔

اب اسی کہانی کا ایک اور رخ اور وہ ہے صنعتی علاقوں میں پانی کی ترسیل ۔
کراچی کے پانچ صنعتی زونز کے لئے واٹر بورڈ کی جانب سے پانی کا مقررہ کوٹہ 46 ملین گیلن روزانہ ہے جو کچھ اس طرح ہے ۔
لانڈھی انڈسٹریل ایریا ۔ 13 ملین گیلن روزانہ
کورنگی انڈسٹریل ایریا ۔ 14 ملین گیلن روزانہ
سائٹ انڈسٹریل ایریا ۔ 10 ملین گیلن روزانہ
نارتھ کراچی انڈسٹریل ایریا ۔5 ملین گیلن روزانہ
ایف بی انڈسٹریل ایریا ۔ 3 ملین گیلن روزانہ
لیکن در حقیقت ان تمام اندسٹریل ایریاز کی اصل کھپت 100 سے 145 ملین گیلن روزانہ ہے ۔ اس طرح ان صنعتی علاقوں کی 90 فیصد پانی کی ضروریات واٹر ٹینکرز کے زریعے پوری کی جاتی ہیں ۔ یعنی 90 سے 131 ملین گیلن پانی روزانہ واٹر ٹینکرز سے فراہم کیا جاتا ہے ۔ اور یہ پانی ان 161 غیر قانونی ھائیڈرنٹس سے ہی فراہم کیا جاتا ہے ۔
اب ہم آتے ہیں اس اسکینڈل کے حوالے سے کراچی کی آبادی میں پانی کی کھپت ۔۔۔۔ ترسیل اور شارٹ فال کی طرف ۔
تحقیق کے مطابق کم آمدنی اور متوسط آمدنی رکھنے والے رہائشی علاقوں میں ایک فرد کیلئے ایک دن کے پانی کی کم از کم ضرورت 20 گیلن ہے ۔ کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ ہے ۔ اس لحاظ سے کم از کم کھپت 20 گیلن سے حساب لگایا جائے تو کراچی کی روزانہ کی کھپت 320 ملین گیلن روزانہ ہے ۔ صنعتوں کی اوسط کھپت 123 ملین گیلن روزانہ ۔ باقی متفرق ضروریات کیلئے 123 ملین گیلن روزانہ ہے ۔ اس طرح کراچی کی کل کھپت 553 ملین گیلن بنتی ہے ۔
اور دوسری جانب اگر ذیادہ آمدن والی آبادی کی کھپت میں مزید 15 گیلن روزانہ فی فرد کا اضافہ کر کے حساب لگایا جائے تو یہ ذیادہ آمدن والے کراچی کی آبادی کا 20 فیصد ہیں ۔ تو اس طرح کراچی کی پانی کی مکمل ضروریات 601 ملین گیلن روزانہ بنتی ہے۔

اب اس کہانی کو ایک اور پہلو سے دیکھئے ۔ کراچی کے سابقہ تما م 18 ٹاونز کو بلک میں جو پانی فراہم کیا جاتا ہے ۔ وہ کل 293 ملین گیلن روزانہ ہے ۔ واٹر بورڈ کا نظام اب بھی انہی ٹاونز کی سطح پر تقسیم ہے ۔
اس طرح کھپت اور ترسیل میں 260 سے 308 ملین گیلن کا شارٹ فال موجود ہے ۔ اور یہی وہ شارٹ فال ہے جسے 161 غیر قانونی ھائیڈرنٹس سے پورا کیا جاتا ہے ۔
واٹر بورڈ کے زریعے کراچی کو پانی کی مجموعی ترسیل 565.25 ملین گیلن روزانہ ہے جس میں سے 15 فیصد پانی پرانی لائنوں اور دوسری ٹیکنیکل وجوہات کی بنا پر ضائع ہو جاتا ہے ۔ اب دستاب سپلائی اور حقیقی سپلائی کا اوسطا گیپ 272.25 ملین گیلن روزانہ ہے ۔ اور یہی وہ پانی ہے جسے غیر قانونی ھائیڈرنٹس کے زریعے شہر بھر میں بیچا جاتا ہے ۔ اور پانی اوپر بیان کردہ او سط قیمت کے حساب سے فروخت کیا جاتا ہے ۔ اس آپریشن سے سالانہ شہر میں 49.6 ارب روپے کا پانی چوری کرکے فروخت کیا جاتا ہے ۔

دوسری جانب سرکاری طور پر واٹر بورڈ اپنے 9 ھائیڈرنٹس کے زریعے 20 ملین گیلن پانی فراہم کرتا ہے ۔ اگر یہی اطلاق ان 161 غیر قانونی ھائیڈرنٹس پر کیا جائے تو پانی کا یہ کاروبار 358 ملین گیلن روزانہ بنتا ہے ۔ اس طرح زیادہ سے ذیادہ 25 ملین گیلن سرکاری ھائیڈرنٹس سے اور 333 ملین گیلن غیر قانونی ھائیدرنٹس سے کراچی کے شہریوں کو فراہم کیا جاتا ہے ۔ اور یہ پانی مافیا شہریوں کی جیبوں سے سالانہ 50 ارب روپے نکال کر اپنی جیبوں میں ڈالتی ہے ۔ اور جس معاشرے میں پینے کے پانی کو بھی چوری اور ذخیرہ اندوزی کے زریعے غریبوں کو بیچا جاتا ہو وہاں تو ابر رحمت بھی روٹھ جاتی ہے ۔ اور غریبوں کے جسم پر گرمی دانوں کے ساتھ ان کی قسمت پر غربت کے دانے بھی نکل آتے ہیں ۔ جو کبھی دوائیوں سے ختم نہیں ہوتے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[pullquote]غلام مصطفیٰ سینئر صحافی ہیں[/pullquote] ۔ براڈ کاسٹ انڈسٹری کے ابتدائی لوگوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ جیو ٹیلی ویژن نیٹ ورک سے منسلک ہیں ۔ نیٹ ورک ٹیلی ویژن مارکیٹنگ ( این ٹی ایم ) سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے غلام مصطفی تحقیقاتی صحافت کے ساتھ ساتھ ڈاکومنٹری پڑوڈکشن کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں ۔ 2007 میں آپ کی انڈس ڈیلٹا ڈاکو منٹری کو مونٹلی کارلو ایوارڈ جیتنے کا اعزاز حاصل ہے ۔ سندھ کے صحرائی علاقوں کی زندگی پر بنائی گئی ان کی دوسری ڈاکو منٹری فلم ، ایشیا پیسیفک براڈ کاسٹنگ یونین ملائیشیا کی جانب سے ایوارڈ کے لئے منتخب کی گئی ۔ 18 سالہ پروفیشنل صحافت میں الیکٹرونک میڈیا کے ساتھ ساتھ پرنٹ میڈیا میں بھی کام کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ۔ انہیں صحافت کو زندگی کے ساتھ برتنے کا فن خوب آتا ہے ۔ سینکڑوں اسپیشل اسائنمنٹ ان کے کریڈٹ پر ہیں ۔ صحافت کے ساتھ وہ ایک بہترین بلاگر ، اسکرپٹ رائٹر اور میڈیا ٹرینر ہیں ۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کی جانب سے صحافیوں کی سیکیورٹی اور سیفٹی کے حوالے سے قائم ایک پروجیکٹ پر صوبہ سندھ کی ذماہ داریاں انجام دے رہے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے