افغانستان میں 9 مسافر قتل، 170 اغواء

قندوز: افغانستان کے شمالی شہر قندوز کے باہر مسلح حملہ آوروں نے 9 مسافروں کو قتل جبکہ 170 کو اغواء کرلیا۔

خبر رساں ادارے رائٹرز نےقندوز کے ڈپٹی پولیس چیف معصوم ہاشمی کے حوالے سے بتایا کہ حملہ آوروں نے سڑک پر 3 بسوں کو روکا اور مسافروں کو باہر آنے کو کہا، جن میں سے 9 کو قتل جبکہ باقی مسافروں کو اغواء کرلیا گیا۔

بعدازاں حکومتی فورسز نے ریسکیو آپریشن کے دوران زیادہ ترمغویوں کو بازیاب کروالیا۔

ہاشمی کا کہنا تھا، ‘طالبان نے 9 شہریوں کو بے دردی سے قتل کردیا، جبکہ 20 کو وہ اپنے ساتھ لے گئے۔’

رائٹرز کے مطابق ابھی تک واقعے کی ذمہ داری کسی کی جانب سے قبول نہیں کی گئی جبکہ طالبان ترجمان سے بھی فوری طور پر رابطہ ممکن نہ ہوسکا، تاہم ماضی میں طالبان عام شہریوں پر حملوں کے الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں۔

[pullquote]افغانستان:طالبان کا اہم ضلع پر قبضہ[/pullquote]

گذشتہ برس افغان طالبان صوبہ قندوز کے ضلع چاردارا پر قبضہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے، جسے صدر اشرف غنی کی حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا گیا تھا، تاہم بعدازاں افغان فورسز نے قندوز کا کنٹرول حاصل کرلیا تھا۔

دوسری جانب رواں ماہ 21 مئی کو پاکستان کے سرحدی علاقے نوشکی میں امریکی ڈرون حملے میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد طالبان شوریٰ نے ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کو نیا امیر مقرر کیا تھا۔

ملا ہیبت اللہ نے اپنے پہلے آڈیو پیغام میں افغان حکومت سے مذاکرات کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے فورسز پر حملے جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

گذشتہ سال جون میں افغان طالبان کے بانی رہنما ملا محمد عمر کی موت کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد ملا اختر منصور کو طالبان کا نیا امیر مقرر کیا گیا تھا، جس کے بعد طالبان اور افغان حکومت میں کشیدگی بڑھ گئی تھی اور ملک کے اس بڑے عسکری گروپ اور حکومت کے درمیان جاری مذکراتی عمل تعطل کا شکار ہوگیا تھا۔

[pullquote]ہلمند میں جھڑپیں، 50 افغان پولیس اہلکار ہلاک[/pullquote]

دسمبر 2014 میں 13 سالہ طویل جنگ کے بعد افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا شروع ہوا لیکن ابھی بھی مقامی افواج کو تربیت کی فراہمی اور مدد کے لیے تقریباً 13 ہزار غیر ملکی اہلکار افغانستان میں موجود ہیں۔

تاہم امریکی اور دیگر غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد افغان فوج اور پولیس کو طالبان کی کارروائیوں میں بڑے جانی نقصان کا سامنا ہے جبکہ اکثرو بیشتر عام شہریوں پر بھی حملے کیے جاتے رہتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے