کیا میرے بچے کا علاج لندن میں ہو سکتا ہے ؟

تین دن قبل صبح نو بجے ایک کال آتی ہے ۔کال کرنے والا تعارف کروانے کے بعد مدعا بیان کرتا ہے ،آپ سے ملنا چاہتا ہوں پوچھا بھائی کیوں ؟قدرے توقف کے بعد گلوگیر آواز میں کہتا ہے صاحب میرا کام کروا دیں مشکل میں ہوں ۔مسئلہ کیا ہے بتاو تو سہی ، صاحب ملنے پر بتاوں گا ؟میرے پاس موبائل نہیں اس لیے پی ٹی سی ایل سے کال کر رہا ہوں ۔فلاں جگہ آپ کا انتظار کر رہا ہوں ۔آپ آئیں گے کہ نہیں ۔جی میں آرہا ہوں ۔ہم اس آدمی سے ملنے کے لیے چلے جاتے ہیں سلام دعا کے بعد قریبی ہوٹل پر چائے پینے کے لیے جاتے ہیں ۔پوچھا مسلہ کیا ہے بھائی ؟غریب آدمی ہوں مردان کا رہنے والا ہوں اسلام آباد آئی ایٹ میں سیکورٹی گارڈ ہوں ۔چھوٹے بیٹے کو دل کا عارضہ ہے ۔دس ہزار تنخواہ لیتا ہوں گھر کا چو لھا نہیں جلتا بوڑھی ماں بیمار ہے اس کی دوا دارو کے لیے پیسے نہیں ہوتے بیٹے کا مہنگا علاج کے لیے پیسے کہاں سے لاوں ؟آپ مہربانی کر کے پاکستان بیت المال سے مجھے پیسے منظور کروا دیں تاکہ اپنے لخت جگر کا علاج کروا سکوں ۔میں اپنے بیٹے کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ۔چائے پیتے ہوئے اشک اس کی پیالی میں گرتے ہیں ۔ابے چپ کر مجھے بھی رلائے گا کیا ؟۔

ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ ایک اور سوال داغ دیتا ہے ۔کیا میں اپنے بیٹے کا علاج لندن کروا سکتا ہوں ؟ان بڑے لوگوں کے سر میں درد اور کھانسی ہوتی ہے علاج کے لیے یورپ کے مہنگے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں ۔اس کی سادگی پر ہم مسکرا دیئے ۔بولا صاحب جی ہمارے وزیر اعظم کا علاج لندن ہو رہا ہے ۔کیا ہمارے ملک کے ڈاکٹر اس قابل نہیں کہ وہ ان کا علاج کر سکیں ؟لندن علاج کروانا ہمارا بھی حق ہے ۔ہم غریب لوگ اس لئے ٹیکس نہیں دیتے کہ یہ ہمارے پیسوں سے یورپ کے مہنگے ہسپتالوں میں علاج کروائیں اور ہم یہاں دھکے کھائیں،آپ کے سوالات ختم ہوگئے،کیا آپ نواز شریف ،زرداری ،ترین ،قریشی،ولی خان،سیف اللہ ،میاں منشا،لغاری،ٹوانے ہو۔نہیں صاحب ہم غریب لوگ ہیں،تو پھر سنو،یہ ملک شریفوں،زرداریوں،قریشیوں،ہوتیوں،ولی خانوں،میاں منشاوں،لغاریوں،کھوسوں،جتوئیوں اور جرنیلوں کا ہے ،غریبوں نے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا ہے،اور یہ ہوتا رہے گا۔

بابائے قوم محمد علی جناح بیمار ہوئے وہ چاہتے تو دنیا کے کسی مہنگے ترین ہسپتال میں اپنا علاج کرواتے،مگر انہوں نے خزانہ پر بوجھ بننا گوارا نہیں کیا اور زیارت چلے گئے ۔ان کے معالج کرنل بخش اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ان کے پسندیدہ خانساماں ہم نے منگوائے ۔پتہ چلنے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور اپنی جیب سے رقم ادا کی ۔کابینہ کے پہلے اجلاس میں کسی نے چائے پلانے کی بات کی تو پوچھا کہ یہ لوگ گھروں سے چائے پی کر نہیں آتے جسے چائے پینے کا شوق ہے وہ گھر جا کر پئے انھیں سادہ پانی پلانے کی تاکید کی ۔قائد ملت لیاقت علی خان نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے ان کے شاہانہ سٹاہل سے لوگ بخوبی اگاہ تھے ۔لندن پڑھنے کے لیے جاتے ہیں تو گھر سے خانساماں ساتھ جاتے ہیں ۔جو کپڑا ایک دفعہ زیب تن کرتے دوسری مرتبہ نہ پہنتے ۔پاکستان بے سروسامانی کے عالم میں آتے ہیں چاہتے تو بنگلے الاٹ کرواتے کون پوچھتا ؟ملک کی محبت پر سب کچھ قربان کر دیا نواب اف بہاولپور کراچی میں ایک بنگلہ تحفے کے طور پر دیتے ہیں تو اس شکریہ کے ساتھ واپس کر دیتے ہیں کہ جب تک آخری مہاجر کو گھر الاٹ نہیں ہوتا اپنا گھر نہیں بناوں گا ۔

یہ ہمارے اسلاف کے کارنامے تھے ۔چند روز قبل برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اپنی اہلیہ کے لیے 2004ماڈل کی استعمال شدہ کار پندرہ سو پونڈ پاکستانی کرنسی میں اڑھائی لاکھ روپے میں خریدئی گئی ۔مگر ایک غریب ملک پاکستان میں اس ماڈل کی کار وزیراعظم ہاوس کا کلرک یا خانساماں بھی خریدنا پسند نہ کرے۔اربوں ،کھربوں کے لین دین ککس بیک نوٹوں کی بوریاں بات اب بریف کیسوں سے آگے بڑھ گئی ہے دیکھ کر وہ کیوں اتنی گٹھیا کار خریدیں گے ۔جتنی مالیت میں ڈیوڈ کیمرون نے اپنی اہلیہ کو گاڑی لے کر دی اتنی مالیت لے تو ہمارے ایم این اے کے مالشی موباہل فون استعمال کرتے ہیں اور جوتے پہنتے ہیں ۔کرپشن نے ہمارے معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں ۔

پینے کا صاف پانی صرف 22فیصد آبادی کو میسر ہے ۔جبکہ گندے پانی سے بیماریوں اور ہلاکتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے پورے ملک میں ہپیاٹائٹیس ایک وبا کی طرح پھیل رہا ہے،پاکستان کی 78فیصد آبادی غیر سائنسی طریقہ سے اپنا علاج کروا نے پر مجبور ہے،آبادی کے صرف 15فیصد کو صاف پانی اور غلاظت کے نکاس کی بہتر سہولیات میسر ہیں،جبکہ غریبوں کی بستیاں گندگی کا ڈھیربن کر ان میں غرق ہوتی جارہی ہیں۔تعلیم اور علاج کی سہولیات عام انسان کی دسترس سے باہر ہیں،سرکاری واویلے اور ان کے اعداد و شمار کی ہیرا پھیری کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ریاست یہ دوبنیادی انسانی حقوق معاشرے کو فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔درمیانہ اور بالادست طبقہ سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کا میڈیا اورمغربی این جی او میں بہت شور ہے اور جہان کہیں کبھی علاج اور تعلیم جیسے بنیادی حقوق کی بات ہوتی ہے تو کروڑوں کی آبادی میں درجن بھر ماڈل سکولوں کو پیش کرکے وہین تک محدود رہ جاتے ہیں۔

اگر ہم اس حکومت اور اس کی پارلمیانی اکثریت کو دیکھیں تو اس کی جڑت آمریت کی طاقت کا خوف اور اپنے جرائم کا تحفظ ہے ۔لیکن اس ڈھونگ میں لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے ۔لوٹ مار اور دولت کی ہوس کی کوئی انتہا نہیں ہوتی یہ ایک ایسی پیاس ہے کہ اس کو جتنا بجھاو اتنی بڑھتی ہے ۔اس لیے اس حکومت کا سویلین ڈھونگ بھی مسلسل داخلی انتشار اور باہمی تفاوات کا شکار ہے ۔جس میں اکثر چور اپنا حصہ بڑھانے کے لیے کرپشن کو سہارا دیئے ہوئے ہیں اس کھیل کی حدود مقرر ہیں جس سے باہر کوئی نہیں جا سکتا ۔اج نواز شریف حکومت کے جو لوگ اتحادی بنے ہوئے ہیں یہ جہاز جوہی ڈولتا یا ڈوپتا ہوا نظر آئے گا یہ چوہوں کی طرح سب سے پہلے چھلانگیں لگاہیں گے جیسے ہر بحری جہاز ڈوبتے وقت سب سے پہلے چوہے اس سے بھاگتے ہیں ۔مولوی فضل الرحمن یا اسفند یار ولی کا یہ جانتے ہوئے کہ شریف خاندان کرپشن میں ملوث ہے سپورٹ کرنے کی بنیادی وجہ حکومت اور ان کی جڑیں ایک کھوکھ سے پھوٹتی ہیں ۔

ہمارے معاشرے کا علاج اب دواوں اور میڈیکل علاج سے ممکن نہیں رہا ۔اس کی انقلابی سرجری لازمی ہے اس منافع کے ہوس کے حصول پر مبنی معاشی نظام کو ختم کر کے اس کی جگہ انسانی ضروریات کی تکمیل اور فراہمی پر مبنی منصوبہ بند معشیت کو استوار کر کے ہی اس بحران اور اس ذلت سے نسل انسانی کو نکالا جا سکتا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے