قصور پھر بھی سمیعہ کا تھا . . .

سردیوں کی ایک صبح تقریباً سات بجے کے قریب شور کی وجہ سے میری آنکھ کھلی. غالباً کوئی عورت گلی میں بلند آواز میں کسی سے جھگڑا کر رہی تھی. میں سستی سے اٹھی اور تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر لاؤنج میں آئی جسکی کھڑکی گلی میں کھلتی ہے. کھڑکی کھول کر باہر جھانکا. ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا اور گلی میں ملگجی سی روشنی پھیلی ہوئی تھی. میں نے دیکھا ایک پتلی سی سولہ سترہ سالہ لڑکی کالی چادر میں لپٹی پانی کی بالٹی اٹھائے ہوئے تھی. دو تین آدمی اسے گھیرے کھڑے تھے. وہ دفاعی انداز میں انہیں کوس رہی تھی اور جانے کے لیے رستہ مانگ رہی تھی. اس کی آواز غصے سے بلند اور تیکھی ہو گئی تھی لیکن آواز کی کپکپاہٹ سے عیاں تھا کہ وہ ڈری ہوئی ہے اور خود کو بے بس محسوس کر رہی ہے. وہ غالباً گلی میں لگی سرکاری پانی کی ٹونٹی سے پانی لینے آئی تھی اور گلی سنسان ہونے کی وجہ سے آدمیوں کو اس پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع مل گیا. میں جلدی سے گیٹ کی طرف گئی اور زور سے گیٹ کھول دیا تاکہ انہیں اندازہ ہو جائے کہ واردات کے لیے یہ جگہ مناسب نہیں ہے.. گیٹ کھلنے کی آواز سنتے ہی آدمی تتر بتر ہو گئے اور لڑکی جلدی سے دوسری جانب چلنے لگی.

آپ شام کو کسی بھی روپ میں باہر نکلیں. گندے میلے کچیلے لباس اور ٹوٹی ہوئی چپل پہن لیں. چاہے گھر میں پڑی سب سے بڑی چادر لپیٹ لیں. یا پھر خوش لباسی اور خود نمائی کی حالت میں کسی مین روڈ کا رخ کریں. آپ اکیلی ہوں یا اپنی دوستوں کے ساتھ. آپ نابالغ ہوں، نوجوان ہوں یا پختہ عمر. آپ بدصورت ہوں، واجبی الشکل ہوں یا خوبصورت ہوں.. گدھا گاڑی، سائیکل، موٹر سائیکل، کار اور پجارو سمیت آٹھ سے دس سواریاں آپ کے پاس بریک لگا کر آپ کو ساتھ چلنے کا ضرور کہیں گی. گھر آکر کسی سے وجہ پوچھیں گی تو وہ دنیا کے اعلی ترین فلسفے اور احکامات کی فہرست سے پیش کرتے ہوئے نہایت خوشنما الفاظ میں "مسئلے کی جڑ” کی نشاندہی کر دے گا اور باور کروا کر چھوڑے گا کہ آپ اس سلوک کی نا صرف مستحق ہو بلکہ ایسے واقعات کی موجب بھی ہو. اس لیے سدھرنے اور سدھارنے کی پہلی کوشش اپنی ذات سے شروع کی جانی چاہیے. حرف آخر اس قسم کے سماجی مسئلے کا حل یہ ہے کہ آپ گھر تک محدود رہیں. اللہ اللہ خیر صلا

دوسرا واقعہ جو مجھے یاد آرہا ہے. وہ ایک شادی شدہ خاتون کا ہے جو اپنے شوہر کے جسمانی تشدد سے تنگ آکر تھانے رپورٹ کروانے پہنچ گئی کیونکہ اس دفعہ کی کوشش میں شوہر نے دوسری عورت کے چکر میں بیوی کو پیڑول ڈال کر، آگ لگا کر مارنا چاہا تھا . چونکہ تھانے میں بھی مرد ہی بیٹھے ہوتے ہیں اور خاندانی معاملات میں ہمارا جذبہ خیر سگالی بھی مثالی ہے. ہماری پنچایتوں، کچہریوں اور دیگر سماجی اکٹھوں کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نا کسی طرح عورت کو مجبور کر کے فریقین کی صلح کروا دی جائے تاکہ گھر اجڑنے سے بچ جائے. جب عورت کسی طرح نا مانی تو آخری حربے کے طور پر تھانیدار نے کہا.. اچھا بی بی.. تم جو مان نہیں رہی ہو نا. اور طلاق کے مطالبے پر اس ضد سے اڑی ہو.. اسکا مطلب ہے تمھارا بھی باہر کسی کے ساتھ ٹانکا فٹ ہے.

یہ سمعیہ کی میت کی تصویر ہے. سمعیہ نے پانچ افراد کے ہاتھوں مبینہ زیادتی سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے مکان کی چھت سے چھلانگ لگا کر کل خود کشی کر لی تھی. میں اسکی وجوہات کا تجزیہ کرتے ہوئے اگر یہ کہوں کہ آئے دن کے اس قسم کے رنگ برنگے واقعات چیخ چیخ کر اس حقیقت کا پردہ فاش کر رہے ہیں کہ یہ سب سماج پر مسلط ذرہ جنسی گھٹن اور بے مقصد نفسیاتی و اخلاقی پابندیوں کا نتیجہ ہے تو لوگ مجھے "جنس زدہ” کا خطاب دیں گے. لیکن سچ یہی ہے. جب آپ دروازوں اور کھڑکیوں پر تالے چڑھاتے ہیں تو پھر دیواروں میں چھید کر نے اور نقب لگانے کے کوئی چارہ نہیں بچتا.

سمعیہ ایف اے کی طالبہ تھی. اسکی اگر مناسب تربیت ہوتی. اسے سیلف ڈیفینس یا دیگر دفاعی تیکنیس کا علم ہوتا تو وہ خودکشی کرکے جان گنوانے کا راستہ نا چنتی.. بلکہ شاید وہ اسے اغواء ہی نا کر پاتے. لیکن ہمارے یہاں ایسے موضوعات ہر سطح پر غیر اخلاقی تصور کیے جاتے ہیں. ویسے بھی قصور عورتوں کا ہے. باغی، سرکش، بد دماغ اور بدکردار یہ خود ہوتی ہیں. ضرور سمعیہ اپنی مرضی سے ان کے ساتھ گئی ہو گی یا دعوت نظارہ دے کر ان معصوموں کو بہکایا ہوگا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے