منزل کا واضح تعین وقت کی ضرورت

ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ بیس برسوں میں پاکستان میں۱۰۰کھرب سے زائدروپے بد عنوانی کی نظر ہو ے اور اس دوران بر سر اقتدار آنے والوں نے قریبا تمام بڑے سرکاری محکموں کے اعلیٰ عہدیداروں کیساتھ ملکر بدعنوانی کا ارتکاب کیا اور ملکی معشیت کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کیا۔

اس دوران جتنی بھی حکومتیں ختم کی گٗیں ان پر سب سے بڑا الزام کرپشن کا تھا، مگر باوجود اس کے کرپشن کے گندے حمام میں ننگے ہونے کے یہ لوگ 20 کر وڑ کے اس ہجوم کو بیوقوف بناتے رہے کہ مخالف پارٹی کی سیاسی چال ہے ۔
۔بس بحلا ہو پانامہ لیکس کا کہ جس کو حالیہ حکومت کے نورتن پاجامہ لیکس بول کر سرعام اتارنے میں مصروف ہیں کہ جس نے سیاست دانوں کے اس راگ سے جان چھڑای کہ یہ مخالفین کی سیاسی چال تھی کہ ہمیں ورنہ ہم دامن نچوڑیں تو فرشتے وضوکریں۔

اب کیا حکومتی ارکان اور کیا حزب مخالف سب ایک ہی تسبیح میں پروے جا چکے ہیں جس کا نام ہے کرپشن ۔
ماضی میں کرپشن کے الزام میں فراغت حاصل کرنے والی برسر اقتدار پارٹی کے بعد ملکی عدالتوں میں اس دوران آنے والی نگران حکومتوں نے کرپشن کے مقدمات کی پیروی کی لیکن ان مقدمات کے فیصلے کسی منطقی انجام کو پہنچنے سے پہلے ہی تصفیوں کی نظر ہو گے اور مشرف دور میں تو خیر سے سارے ہی مسٹرکلین ہو گے۔اور کاروبار مملکت یوں ہی چلتا رہا اور ملکی اثاثے گھٹتے رہے اور بدعنوانوںکے قافلے کا سفر شتابی سے اپنی اگلی منزل کی طرف رواں دواں رہا۔

جیسے جیسے نئے لوٹ مار کرنے والے آتے رہے ہماری مجموعی یاداشت سے قدرے پرانے لٹیرے محو ہوتے رہے ، نئے لوگوں کو قبول کر لینا اور پرانوں کو بھول جانا بھی ہمارا قومی وصف ٹھیرا چونکہ ہم اکثروبیشتر نئے لوگوں سے نئے وعدوں سے اور نئے دعووٗں کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں ۔ اس لیے بحثیت قوم ہم ساری دنیاں کے دھوکہ باز لٹیروں کی پسندیدہ قوم قرار دیے جاتے ہیں۔

اور ویسے بھی جس ملک کا میر کارواں ہی راہزن ہو وہاں ایمانداری کی تلاش صیح لا حاصل کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔
جس ملک میں پٹواری جیسا معمولی اہلکار کروڑ پتی ہو،جہاں معمولی دفاتر کے کلرک صاحبان یورپ میں شاپنگ کرتے ہوں اور جس ملک کوہر سال بدعنوانی کی درجہ بندی میںِ اعلی رتبہ پر فائز کیا جاتا ہو جہاں سدا بہار حکمران حج جیسے مقدس فیریضہ انجام دینے والوں کو لوٹ کر کھرب پتی ہو جاہیں اور معاشرے میں پیرو مرشد بن کر دندناتے پھر رہے ہوں ، جس ملک میں یہ ظالم حکمران کھربوں کے قرضے معاف کراکے پتلی گلی سے نکل جاتے ہوں ،جب کہ اسی ملک خداداد میں ہاوس بلڈنگ فنانس سے قرض لیکر ایک چھت بنانے والا شخص ساری زندگی قرضہ اتارنے کی منحوس چکی میں پستا رہے اور جہاں ہر سال بھوک کے باعث سیکڑوں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہوں ، وہاں کسی ایک پر کرپشن کا الزام اور کسی ایک پر اختیارات سے تجاوز اور سفارش اور اقرباپروری جیسا معمولی الزام کس کھاتے میں ڈالا جاے گا۔

آج اگر کسی سروے کا اہتمام کیا جاے اور مندرجہ زیل سوالات اس میں پوچھے جائیں تو ہمارا جواب کیا ہو گا،،

مثلاوہ کون لوگ تھے جنھیں انگریز بہادر نے برصغیر کی تقریبا ساری زمینں آلاٹ کر دیں اور آج ان کی الادوں میں سے کون کون ہمارا حکمران بنا اور ان کی نسلیں کب تک ہم پر حکمرانی کریں گی؟

وہ کون لوگ تھے جنھوں نے پاکستان میں زرعی اصلاحات کو ہمیشہ ناکام بنایا؟
کیا ہم انہیں جانتے ہیں جنھوں نے پاکستان کو ہمیشہ اپنی جاگیر سمجھاہے اور بیس کروڑ کے اس ہجوم کو اپنا داہمی مزارع۔
وہ کون تھے جنھوں نے اس ملک میں ہمیشہ آمریت کا راستہ ہموار کیا اور وہ کونسے عوامل تھے کہ جس کی وجہ سے حمود الرحمن کمیشن رپورٹ آجتک منظرعام پر نہ آسکی اور قوم آج تک یہ نہیں جان پائی کہ ملک کو دولخت کرنے والے کردار کونسے تھے۔ کیوں کہ کسی کو قومی جھنڈے میں دفنایا گیا اور کسی کو اکیس توپو سے رخصت کیا گیا ۔

محمدعلی بوگرہ، معین قریشی، اور شوکت عزیز جیسوں کو کن لوگوں نے ہم پر مسلط کیا؟

غلام محمد، ایوب خان ، ضیاء الحق ،غلام اسحاق، فاروق لغاری،اور پرویز مشرف نے کیوں اور کن کے کہنے پر منتخب حکومتوں کو رخصت کیا اور پھر یہ طاقت ور لوگ ہمیں بہتر حکومتیں کیوں نہ دے سکے؟

ہم نے آج تک مزہب کو اپنے لیے کیوں استمال کیا آج ایک فرقہ ددوسرے کو کافر کیوں قرار دے رہا ہے ہمارے علماء کا کیا کردار رہا ہے آج تک؟

ہم نے ووٹ دیتے وقت کبھی یہ سوچا ہےکہ اس سے ایک بد عنوان شخص برسر اقتدار آسکتا ہے ، کبھی کسی الیکشن میں ہم نے آج تک زات برادری اور زاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر کسی اہل اور شریف شخص کو چنا ہے؟

محترم قارئین سوالات اتنے ہیں کہ کتابیں بھری جاسکتی ہیں میرا مقصد پڑھنے والوں کی یاداشت کو زرا تازہ کرنا تھا بور کرنا نہیں۔ویسے بھی کام کی بات پڑھتے سنتے وقت ہم کچھ زیادہ ہی اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں مگر میں اپنے محترم پڑھنے والوں سے بصداحترام گزارش کروں گاکہ وہ ان سوالوں پر غور ضرور کریں اور ویسے کہا جاتا ہے مومن ایک سورخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا، مگر ہم ہیں کہ ہر بار ظلم اور ظالم دونوں کو بھول جاتے ہیں ۔

میں سمجھتا ہوں کہ ایسا صرف اور صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے جب قوموں کے حافظے نہیں بلکہ حوصلے کمزور ہو جاتے ہیں۔اور پھر ان پر ایسے لوگ غیر معینہ مدت تک حکمرانی کرتے ہیں جو ان کا اور ان کی الادوں کا مستقبل تک کھا جاتے ہیں۔

اپنی 65 سا لہ ملکی تاریخ کا وہ کونسا گوشہ ہے جو ہم سے چھپاہوا ہے ؟ لیکن ابھی تک ہم اپنے حق کے لیے وہ حوصلہ بیدار نہیں کر پاے جو ہمارے وجود میں چھپا ہے۔جب تک ہم اپنی پسمردگی کو ختم نہیں کرتے اور اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے نہیں ہوتے، ہمارے یہ ازلی دشمن یہ پیراسائٹ ہمیںنوچتے رہیںگیںاور تعداد میں کئی گنا کم ہونے کے باوجود ہمارے سروں پر مسلط رہیںگیں، ایک جائے گا تو دوسرا اس کی جگہ لےلے گا

صرف نام بدلے گے!کردار وہی رہیں گے اور ہم اپنی آخری سانس تک اور خون کے آخری قطرے تک خراج ددیتے رہے گیں۔

بنیادی طور پر منزل کا واضح تعین نہیں کیا جا رہا ہے ، شتر بے مہار بیس کروڑ کا یہ ہجوم جس کو عوام کے نام کی افہم دی جاتی ہے آج بھی پتھر کے زمانے میں جی رہاہے اس کا جو دن گزر جاے وہ ہی غنیمت ، حکمران اپنے حال میں مست اور عوام فاقوں میں!

مگر ایسا کب تک ؟ ہم آنے والی نسل کو مسائل کا جو لا متناعی سلسلہ دے رہے ہیں اس کے بعد کیا وہ کوئی کلمہ خیر کئے گی؟

ایک واضح منزل کا تعین ، پختہ سوچ کے ساتھ منزل کی طرف اگر سفر کرنا ہے تو ہمیں سوچنا ہو گا ورنہ ٹائم تو جانوروں کا بھی پاس ہو جاتا ہے ۔ ـ ْ اشرف المخلوقات ْ کہلانے والے ہم کہاں ہیں؟

مسائل کو گرہ دیں تو انگلیاں فگار ہوتی ہیں ، مگر ہم نہ سہی ہماری آنے والی نسلیں تو ایک اچھا پاکستان دیکھے سکیں گی۔۔۔مگر اس کے لیے منزل کا واضح تعین کرنا ہمارا فرض ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے