وفاقی حکومت کی معاشی کارکردگی پر عوامی تحریک کا حقائق نامہ

لاہور: پاکستان عوامی تحریک نے وفاقی حکومت کی معاشی کارکردگی پر حقائق نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر خزانہ نے اپنی پریس کانفرنس میں جھوٹ بولا، کتابی باتیں کیں جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں، بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہو تو غربت کیسے کم ہو سکتی ہے؟5سال پرانے این ایف سی ایوارڈ پر بجٹ بنانا صوبوں کے ساتھ زیادتی اور حکومت کی نااہلی اور ناکامی ہے۔

قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ کرنا موجودہ حکمرانوں کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔آپریشن ضرب عضب سے امن بحال ہوا مگر حکمرانوں نے آئی ڈی پیز کی بحالی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ حکمرانوں کے کرپشن اور لوڈشیڈنگ کم کرنے کے دعوے جھوٹ کا پلندا ہیں آج بھی دیہات میں 16,16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے ،کرپشن میں کمی کی بجائے اضافہ ہورہا ہے۔سالانہ 4 ہزار ارب سے زائد کرپشن ہورہی ہے ،200ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑا ہے،پانامہ لیکس نے کرپشن کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔نرسز ،کسان، کلرک ،مزدور،اساتذہ سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔حکمرانوں کی اصل کارکردگی یہی ہے۔حقائق نامہ پاکستان عوامی تحریک کے سینئر رہنماؤں خرم نواز گنڈاپور، ڈپٹی سیکرٹری جنرل خواجہ عامر فرید کوریجہ اور مرکزی سیکرٹری اطلاعات نوراللہ صدیقی نے جاری کیا۔ حقائق نامہ میں کہا گیا ہے کہ زرعی شعبے کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ معاشی بربادی کی صورت میں سامنے آیا۔ گندم ،چاول اور کپاس کا کاشتکار حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کا شکار رہا ۔

کسانوں کو سستی بجلی، سستا ڈیزل، معیاری بیچ اور سستی کھادیں دینے کی بجائے 342ارب کے ناکام پیکیج کا سیاسی ڈرامہ رچایا گیا جس کا مقصد بلدیاتی الیکشن اور متعدد ضمنی انتخابات جیتنا تھے۔ اگر یہ پیکیج کسانوں کیلئے ہوتا تو کسان کئی روز مال روڈ پر سراپا احتجاج نہ ہوتے۔ حقائق نامہ میں کہا گیا ہے کہ2001 ء میں غربت کی شرح اگر 64 فیصد تھی تو وہ ن لیگ کی 1999 کی حکومت کا تحفہ تھا ۔غربت میں کمی 2002 ء سے 2008 کے درمیان ہوئی جب سالانہ شرح نمو 8فیصد تھی۔ 2008 ء کے بعد شرح نمو کم ہوتے ہوتے 5فیصد سے بھی نیچے آگئی۔حقائق نامہ میں کہا گیا ہے کہ حکومت روزانہ 5ارب کے نوٹ چھاپ رہی ہے۔ایک ہزار ارب کے ہر سال ملکی اور 2ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے لے رہی ہے ۔ملک 65.5ارب ڈالر کا مقروض ہے ، مجموعی قرضے جی ڈی پی کا 65فیصد ہو چکے ہیں اگر قرضے لینے کی یہی رفتار رہی تو 2020 ء تک ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔سادگی اختیار کرنے اور بچت کرنے کے دعوے بھی دو روپے میں روٹی بیچنے والے دعوؤں کی طرح جھوٹے ثابت ہوئے۔

کشکول توڑنے کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنے والوں نے اس کا سائز بڑا کر لیا۔ملکی فیصلے آئی ایم ایف کررہا ہے ،وزیر خزانہ غیر ملکی بینکوں کے فیصلوں پر صرف عملدرآمد کرواتے ہیں۔انڈے، مرغی، دالوں ،دودھ ،دہی کی قیمتوں میں 15سے 20فیصد اضافہ ہو ا۔ رہنماؤں نے کہا کہ ترقی کرنے والے ممالک میں درآمدات ،برآمدات سے 100فیصد زیادہ نہیں ہوتیں۔حکومت عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی کم ہونے والی قیمتوں سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی،تعلیم، صحت اور انصاف کی سہولتیں 2008 ء سے مسلسل گر رہی ہیں، حکمرانوں نے خسارے میں چلنے والے اداروں کو منافع بخش اداروں میں تبدیل کرنے کا دعویٰ کیا تھا مگر آج یہ ادارے سالانہ 600 ارب کا نقصان کررہے ہیں اور اب انہیں اونے پونے بیچنے کے منصوبے بن رہے ہیں،بقول حکمرانوں کے یہ رقم وفاق سمیت چاروں صوبوں کے تعلیمی بجٹ سے زیادہ ہے ۔اس کے باوجود میٹرو بسوں اور اورنج ٹرین کے منصوبے سرکاری سرپرستی میں چلانے کے حوالے سے ضد کی جارہی ہے۔یہ منصوبے بھی مستقبل میں خزانے پر بوجھ ثابت ہونگے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے