میں نے فیس بک سے کیا پایا ؟

ایک بات میرے دماغ میں کھٹکتی ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کو "فیس بکی دانشور، فیس بکی کالم نگار، فیس بکی مولوی، فیس بکی شاعر۔۔۔۔فیس بکی فلاں فلاں۔۔۔۔۔” کہتے ہیں۔۔۔۔اور طنزیہ کہتے ہیں۔۔۔

ذرا ایک لمحے کیلئے سوچ لیجئے کہ کراچی سے تعلق رکھنے والا شاعر، خیبر کا کالم نگار، گلگت کا کوئی دانشور، پنجاب کا کوئی عالم یا بلوچستان کا کوئی سکالر آپس فیس بک فرینڈ ہوں تو ان کا تعلق فیس بک کی وجہ سے ہی استوار ہوا ہے کہ نہیں۔۔؟
ہم سبھی ایک دوسرے کے خیالات سے فیس بک کے ذریعے ہی واقف ہوئے۔۔۔۔ یہی وہ پلیٹ فارم تھا کہ جہاں پر احباب کی علمی، ادبی یا کوئی بھی صلاحیت کا مظاہرہ ہم نے دیکھا۔۔۔الاماشآءاللہ چند پرانے کالم نگاروں، شعراء، علماء یا دانشوران کے باقی نئی نسل کے سبھی لکھاری، شعراء، اور علماء فیس بک کے ذریعے دوسروں سے مستفید ہوتے رہے۔۔۔۔ جب ہم سب اس مرحلے سے گزر آئے ہیں تو ایک دوسروں کو طعنے کیوں دیں۔۔؟

جب ہم کسی کو ”فیس بکی ” کا سابقہ لگا کر کوئی بھی طنزیہ بات کسی کو کہتے ہیں تو وہی بات جب ہمیں کوئی دوسرا کہے تو برا لگتا ہے۔۔۔۔ اس لئے ہم اپنے لئے وہ چیز کیوں پسند نہیں کرتے جو دوسرے کیلئے ہم استعمال کرتے ہیں۔۔۔۔؟؟ سو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ناانصافی کررہے ہیں۔۔۔کیونکہ ہماری ہی کہی ہوئی بات جب ہمیں لوٹائی جائے تو ہم برا محسوس کرتے ہیں تو بھلا جسے ہم نے کہا وہ اس پر خوش ہوگا۔۔۔؟ کبھی نہیں۔۔۔۔ ہاں البتہ کوئی اعلیٰ ظرف ہوا تو برداشت کرلے گا۔۔۔۔۔

مجھے نہیں پتا کہ فیس بک پر ایسے کون سے علامے، دانشور اور شعراء نازل ہوئے ہیں جو ماں کے پیٹ سے ہی معروف لکھاری، دانشور، یا، شاعر پیدا ہو کر آئے۔۔۔۔ البتہ میں کھلے دل سے اعتراف کرنا چاہوں گا کہ شعور و آگہی اور عملی زندگی کی جانب گامزن کرنے میں مجھے فیس بک سے بہت زیادہ فوائد حاصل ہوئے ہیں۔۔۔۔۔ آج سے سات آٹھ سال قبل جب فیس بک کا استعمال نہیں شروع نہیں کیا تھا اس وقت خطوط کے ذریعے چند رسائل میں تحاریر بھیجنے کے بعد تين تین ماہ کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔۔۔۔ اخبار میں کالم لگ بھی جاتا تو کوئی جانتا نہیں تھا۔۔۔۔۔ پھر فیس بک پر ابتدائی چار پانچ سال خوب پھڈے بازی، لڑائی، شغل اور یہ معاملات چلتے رہے۔۔۔۔۔ہر اکاؤنٹ کے ڈیلیٹ ہونے کے بعد نئے نئے لوگ ملتے گئے ۔۔۔

فیس بک کے چھ سات سالہ دور میں ہر طرح کی مخلوق دیکھنے کے بعد بالآخر آج سے دو ڈھائی سال قبل سے جب کالج لائف شروع کی تو آہستہ آہستہ سنجیدگی کی جانب طبیعت مائل ہوئی۔۔۔۔اور اب تک تقریبا ستر سے اسی فیصد میں الحمدللہ کنٹرول کر چکا ہوں۔۔۔۔۔۔ آپ میں سے بہت سوں کو لگے گا کہ میں ابھی کونسا سنجیدہ ہوں جو کنٹرول کی بات کررہا ہوں تو ان کیلئے عرض ہے کہ تین سال پہلے فیس بک پر جو اپنا رویہ تھا وہ گردن کاٹنے سے نیچے تک کا نہیں تھا۔۔۔۔۔ بس جو میری مانے وہ درست جو نہ مانے وہ کافر والی طبیعت تھی۔۔۔۔ بہت سے احباب میرے اس مزاج کے عینی شاہد بھی ہیں۔۔۔۔۔ مگر وقت کیساتھ ساتھ انسان میں شعور آتا ہے۔۔۔۔ اور انساں خام خیالیوں سے زیادہ حقیقت پسند ہوجاتا ہے۔۔۔۔

اب الحمدللہ 2014 سے باقاعدہ اخبارات میں لکھنا شروع کیا، بلاگنگ کا شوق بھی پورا کیا۔۔۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جومیں تیسری چوتھی جماعت میں سوچتا تھا کہ کیا کبھی میرا نام بھی کسی کالم میں لکھا آسکتا ہے۔۔؟ کسی شعر کے نیچے اپنا نام میں لکھ سکوں گا ۔۔؟ مگر آج الحمدللہ ثم الحمدللہ کوئی مضبوط شاعر، یا بہترین قلم کار تو نہیں لیکن تحدیث بالنعمت کے طور پر اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ قلم پکڑنا آگئی ہے۔۔۔۔ کچھ نہ کچھ قافیہ بندی بھی سمجھ چکا ہوں۔۔۔۔

ساتویں آٹھویں جماعت میں کسی اخبار یا رسالے میں اپنی چھوٹی موٹی تحریر دیکھتا تو پھولے نہیں سماتا تھا۔۔۔۔اب اخبارات سے کالم لکھنے سے ہلکی پھلکی معذرت بھی کرلیتا ہوں لیکن سب سے اہم بات بتا رہا ہوں وہ یہ کہ اگرچہ مجھ میں قلم اور ادب کے جراثیم اور لکھنے کا شوق بچپن سے تھا لیکن اس میں نکھار (میرے معیار کے مطابق) آنے کا بہت بڑا ذریعہ فیس بک ہے۔۔۔۔۔

میں کئی ایسے نوجوان شعراء اور کالم نگار خواتین و حضرات کا نام لے لے کر بتاسکتا ہوں کہ 2012-13تک جنہیں رومن میں لکھے موبائل میسجز پوسٹ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا تھا آج قلم کی نوک کا جادو بکھیرتے ہیں۔۔۔۔۔ اس لئے میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ فیس بک پر بہت اچھے لوگوں کی صحبت کی وجہ سے مجھے آگے بڑھنے میں آسانی پیدا ہوئی۔۔۔۔۔۔

یہ جو کچھ لکھا گیا اس سے آپ فیس بک کو بلندی پر پہنچنے کیلئے الہ دین کا چراغ بالکل بھی مت سمجھئے۔۔۔۔۔ اس کے عملی زندگی میں کیا کیا نقصانات پیش آئے وہ آئندہ کسی موقع پر سپردِقلم کروں گا۔۔۔۔۔

بات کو سمیٹتے ہیں اس جملے پر کہ فیس بک ایک ایسی سماجی مارکیٹ ہے جہاں ہر روئیے کی دکان ہے۔۔۔۔۔ اب آپ جس دکان سے جو سامان خریدں گے، وہی آپ کے روئیے، مزاج اور سوچ پر نقش ہوگا ۔۔۔۔ اس لئے اس پلیٹ فارم سے مستفید ہونے کیلئے اچھے لوگوں کی صحبت تلاش کریں ۔۔۔کیونکہ بقول شاعر ؎

صحتِ صالح تُرت، صالح کنت
صحبتِ طالع تُرت، طالع کنت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے