آئیڈیل کی تلاش

چند برس پہلے میں نے کسی اخبار میں ایک یورپی سیاستدان کا واقعہ پڑھا تھا۔ مجھے اس سیاستدان کا نام تو نہیں یاد لیکن یہ اہم بھی نہیں۔ صحافی نے پچاس سالہ سیاستدان سے پوچھا کہ آپ نے انتہائی کامیاب زندگی گزاری ہے، آپ خوبصورت بھی ہیں، آپ کے پاس دولت بھی ہے اور شہرت بھی لیکن آپ نے شادی کیوں نہیں کی؟

اس سیاستدان کو جواب تھا کہ مجھے ابھی تک میری آئیڈیل خاتون نہیں ملی۔
صحافی نے مزید ایک سوال پوچھا کہ اتنی بڑی دنیا میں آپ کو ایک بھی آئیڈیل خاتون نہیں ملی؟
اس سیاستدان کا جواب تھا کہ ہاں ایک مرتبہ ملی تھی لیکن وہ اپنے آئیڈیل کی تلاش میں تھی۔

آج کل میں جب اپنے اردگرد نظریں دوڑاتا ہوں تو میرے اکثر دوست کسی نہ کسی آئیڈیل کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور ان میں سے کوئی بھی کمپرومائز کرنے پر تیار نہیں ہے، کوئی بھی چھوٹی موٹی، کمیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں والے انسان کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور مجھے ڈر ہے کہ جب میرے ان دوستوں کو کوئی ’’آئیڈیل‘‘ ملے گا تو وہ خود کسی آئیڈیل کی تلاش میں ہوگا یا شاید تب ملے، جب ان کی خود بتیسیاں گر چکی ہوں۔

صرف یہی نہیں ہم ہر شعبے میں پرفیکٹ اور آئیڈیل قسم کے انسان تلاش کرتے رہتے ہیں اور اس حقیقت سے بے خبر رہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے، جو پرفیکٹ ہو، ہر انسان میں کمیاں ہوتی ہیں،، کوتاہیاں ہوتی ہیں، ہر انسان غلطی کرتا ہے۔

ہم خود اپنی ذات میں دیکھیں تو کمیاں ملیں گی ہیں، خامیاں ملیں گی، کوتاہیاں ملیں گی۔ ہم خود خطائیں کرتے ہیں اور آئندہ انہیں نہ دہرانے کے ارادے باندھتے ہیں۔ جب اپنی باری ہو تو ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ دوسرا اسے معاف کر دے گا، یہ کوئی بڑا مسئلہ تو نہیں تھا، ایک چھوٹی سے غلطی ہی تو تھی، جو مجھ سے سرزد ہو گئی۔

لیکن اگر کوئی دوسرا یہی چھوٹی سی غلطی کر بیٹھے تو ہم آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور اس کی غلطی معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ہم خود اپنے رب سے پہلی آواز میں معافی کی چاہتے ہیں لیکن خود کسی کو معاف کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔

اگر آپ خود غلطیوں سے پاک ہیں تو بڑے شوق سے ایسے انسان تلاش کیجیے، جن میں غلطیاں اور خامیاں نہ ہوں اور جو خطائیں بھی نہ کرے۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کوئی غلطی کریں تو دوسرا اسے معاف کر دے یا آپ کے عیوب کو نظر انداز کرے تو پھر آپ بھی اپنے دوستوں اور اپنے جاننے والوں کے ساتھ یہی رویہ اختیار کریں۔

بات غلطی اور معافی کی چل نکلی ہے تو میں آپ کو اپنے محلے کا ایک سچا واقعہ سناتا ہوں۔ بیٹوں میں جائیداد کی تقسیم کا جھگڑا چل رہا تھا۔ والد اور والدہ بھی اسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ جائیداد کی تقسیم میں ان سے ایک چھوٹی سے غلطی ہوئی تھی اور بیٹوں میں کوئی بھی ان کو معاف کرنے پر تیار نہیں تھا۔ وہاں موجود دیگر افراد بھی کہہ رہے تھے کہ ہاں یہ غلطی ہوئی ہے اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ جائیداد کی تقسیم کا سارا عمل دوبارہ شروع کیا جائے اور نئے سرے سے رجسٹریاں وغیرہ کروائی جائیں۔ لیکن وہاں ان بھائیوں کی بہن بھی موجود تھی۔ وہ سب کے درمیان اٹھی اور کہنے لگی کہ ان سبھی بیٹوں نے اپنے بچپن سے لے آج تک ایک نہیں ہزاروں غلطیاں کی ہیں اور یہی والدین ان کی ہر غلطی کو معاف اور نظر انداز کرتے آئے ہیں لیکن آج حال یہ ہے کہ بیٹے اپنے ماں باپ کی ایک غلطی کو معاف کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ تو اگر ہم سب صرف ایک مرتبہ یہ سوچ لیں کہ دوسرے شخص نے میری کتنی غلطیاں نظر انداز کی ہوں گی تو شاید ہم دوسروں کی غلطیاں نظر انداز یا انہیں معاف کرنا سیکھ جائیں۔
تو جناب ہم میں سے ہر امام، ہر نیک، ہر متقی اور ہر پرہیزگار غلطیاں کرتا ہے اور ضرورت صرف اتنی ہے کہ ہم اپنے جاننے والوں کو غلطیوں کے باوجود قبول کریں، انہیں عزت دیں اور ان کے وہ اعمال چھپائیں، جو ہر انسان غلطی سے کر سکتا ہے۔

[pullquote]
میں اپنے آپ سے اگر سوال کروں کہ اگر میرا بیٹا یا بیٹی غلطی سے کوئی جنسی تعلق قائم کر بیٹھے تو میرا رد عمل کیا ہو گا؟ تو یقین جانیے میں سب سے پہلے کوشش کروں کو کہ کسی کو پتا نہ چلے۔
[/pullquote]

تو براہ مہربانی کسی دوسرے کی بیٹی یا بیٹے کے بارے میں بھی یہی رویہ اپنائیں۔ انسان کو انسان سمجھیے، اس کی ذات میں فرشتے تلاش نہ کیجیے۔ انسان سے نہیں قابل اعتراض اعمال سے نفرت کیجیے، کسی کا کوئی عمل تو ناپسندیدہ ہو سکتا ہے لیکن وہ انسان نہیں۔

(میں ان قاتلوں، عادی مجرموں یا صاحب اقتدار لوگوں کی بات نہیں کر رہا، جن کی غلطیاں معاف کرنے سے پورے کا پورا معاشرہ برباد ہو جاتا ہے۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے