پرائیویٹ سکول مافیا اور ہمارے نونہال

معاشرے میں سدھار کیلئے مختلف چیزوں کو اہمیت دی جاتی ہے ۔اس طرح جب ہم کسی بچے کو اچھی تربیت اور معیاری تعلیم دینا چاہتے ہیں تو اپنے بچوں کے لئے پرائیویٹ اسکول کا انتخاب کر تے ہیں اور انہیں تعلیم یا فتہ اور معاشرے کا بہترین فرد بنا نے کے لئے ہم ان کاداخلہ بڑے بڑے اسکول میں کروادیتے ہیں ۔

پا کستان میں آج کل اسکول تو صرف ایک بزنس بن چکے ہیں جہا ں صرف پیسہ کما یا جا رہا ہے تعلیم ایک تجارت اور منا فع بخش صنعت بن چکی ہے ۔اس وقت ملک میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلباء کے والدین پریشان ہو گئے ہیں ہر کوئی اپنے بچوں کو بہتر ین تعلیم دلا ناچا ہتے ہیں اور پا کستان میں گورنمنٹ اسکولوں کے حال سے آپ لو گ بخوبی واقف ہیں اس لیئے والدین اپنے بچوں کو پرائیوٹ اسکولوں میں تعلیم دلوانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ایک تو ان اسکولوں کی فیس اتنی زیا دہ ہو تی ہے اور تو اوراُپر سے اضافی خرچہ مثلاً ہر سال فنڈ کی فیس بھی دینی ہو تی ہے ہر سال مہنگے کورس جو اب اسکول سے خرید نے ہو تے ہیں اور ہر سال پکنیک ،کالر ڈے ،فوڈ ڈے،کلچر ڈے ،اینوال فنکشن، ایگزمینیشن فیس ،پریٹیکل فیس وغیرہ و غیرہ اور اپریل اور مئی کی فیس کے ساتھ جو ن جولائی کی فیس دینی ہو تی ہے

اگر کسی بچے کی فیس لیٹ ہو جائے تو اس بچے کو بار بار بولا کر شرمندہ کیا جاتا ہے اور اگر امتحا ن ہو رہے ہو تو بچے کو پیپر دینے سے روک دیا جاتا ہے کہ پہلے فیس جمع کر وائے پھر پیپر دے ،آپ سوچے ذرا اس طر ح بچے کو کتنی شر مندگی ہو تی ہو گی اور اُس پر کتنا برُا اثر ہو تا ہو گا اگر کسی بچے کی فیس کسی وجوہات کی بناپر ان کے والدین جمع نہیں کرا سکے تو اسکول مافیا والدین سے بات کر ے نہ کہ بچے کی دل شکنی کر یں

آج کل جگہ جگہ گلی کوچوں میں اسکولز کُھل گئے ہیں جن کی کلاسز اتنی چھوٹی چھوٹی اورہر ایک کلاس میں 40بچوں کی جگہ میں 60یا اس سے بھی زیادہ بچے ہوتے ہیں اور ٹیچر کویہ لوگ کم تنخوا ہ میں میٹرک پاس رکھتے ہیں ۔حکو متی قوانین کے مطابق کسی بھی اسکول میں اُستادیا اُستانی کے پیشہ کیلئے کم از کم انٹر تک تعلیم ضروری ہے مگر یہ اسکول مافیا قا نو ن کے اصولوں کو چھوڑ کر ان لوگوں نے اپنے قانون اور اپنے اصول بنا ئے ہو ئے ہیں ۔

ہرنئے تعلیمی سال کے آغا ز کے موقع پر ان اسکولوں کی جانب سے والدین اور بچوں کو اپنے جانب متوجہ کر نے کے لئے بہت سے دعوے کیے جا تے ہیں جسے ہما رے ملک کے سیا ستدان الیکشن سے پہلے اپنے اپنے منشور کا اعلان کر کے بڑے بڑے دعوے کر تے ہیں اور پھر وہی ‘جو حسب معمول الیکشن کے بعد عوام کے ساتھ ہو تا ہے ۔۔۔ بالکل اس طر ح یہ اسکول انتظا میہ بھی علیٰ تعلیم‘بہترین مستقبل کی ضمانت‘کشادہ کلاسز‘جدید کمپیوٹر لیب ‘اعلیٰ تعلیم یافتہ اسا تذہ وغیرہ وغیرہ کے بڑے بڑے دعوے کے ساتھ شہر کے گلی محلے میں بڑے بڑے پینا فلیکس آویزاں کر دیتے ہیں ۔

جب کہ حقیقت اس سے مختلف ہی ہو تی ہے ۔بچوں کی کورس کی کتابیں دیکھے تو بس حد نہیں چھوٹی کلاسز کے بچوں کی بھی اتنی زیادہ کتابیں اور کاپیا ں ہو تی ہے کہ ان بچوں کے اسکول کے بیگ اتنے زیادہ وزنی ہوتے ہے کہ ان معصوم بچوں سے اٹھایا بھی نہیں جاتا . یہ بھاری بھر کم بیگ بچوں کی زندگی تباہ کر رہے ہیں . بر طانیہ میں ایک رفاعی تنظیم Back Careنے اپنے جائزے میں کہا ہے کہ بھاری بھر کم بیگ اٹھانے کی وجہ سے بچوں کی ایک بڑی تعداد کی پیٹھ اور کمر ایسے نقائص کی شکار ہو رہی ہے جنہیں بعد میں ٹھیک کر نا ممکن نہیں ہو تا ۔

اسکول جانے والے ان تمام بچوں کی پیٹھ اور کمر میں درد کی شکایات 14سال کی عمر کو پہنچنے تک شروع ہو جاتا ہے اور ڈاکٹر وں نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسکول طلبہ کی ریڑھ کی ہڈیوں میں نقائص کی شکا ئیتیں پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں جس میں ریڑھ کی ہڈی کا ٹیڑھا ہو جانابھی شامل ہے جسے Scoliosisکہتے ہیں ۔

دس سال پہلے جتنا وزنی بیگ بچے اٹھایاکر تے تھے ،اب اس سے تقریباًدگنے وزن کا بیگ انہیں اٹھانا پڑتا ہے اور صحت پر اس کے بہت خراب اثرات مر تب ہو رہے ہیں ۔عام طور پر بڑے بچے جو بیگ پیٹھ پر لٹکاکر اسکول جاتے ہیں ان میں بھاری کتابوں کے علاوہ لیپ ٹاپ ،اسپورٹس کٹ اور پیکڈلنچ بھی ہو تے ہیں اور ان سب چیزوں کامجموعی وزن دواسٹون(تقریباً12کلو گرام) تک ہو جاتا ہے ،

طبی ماہر ین کا کہنا ہے کہ بچے اگر روزانہ اپنے کاندھوں پر جسمانی وزن کے 15فیصدسے زائد وزن اٹھا کر چلتے رہے تو اس سے ان کے جسم کو طویل المیعاد اور مستقبل نقصان ہو سکتا ہے ’’بیگ کیئر ‘‘تنظیم کے ماہر سین میکڈوگل نے کہا ہے کہ کم عمر ی میں اگر بچے کمر میں درد کی شکایت کر نے لگیں تو پھر اندیشہ یہ ہو تا کہ وہ آئندہ70سے80سال تک اس درد سے چھٹکارا نہیں پا سکیں گے ۔انہوں نے کہا کہ بچوں کی ہڈیوں کے ڈھا نچے مسلسل نشوونما پارہے ہو تے ہیں اور اس دوران اگر وہ وزنی بوجھ اُٹھا کر چلنے لگیں تو اس سے زندگی کے آئندہ مر حلے میں دوررس نقصان ہو سکتا ہے ۔

کتا بیں زیادہ کر نے سے کچھ نہیں ہو تا انہیں تعلیم کا معیا ر اچھا کر نا چاہئے ۔اگر آپ پہلے زمانے کی تعلیم سے اس زمانے کی تعلیم کا مقابلہ کر یں تو آپ کو اندازہ ہو گا پہلے کے لوگ چند کتابو ں اور ایک تختی سے ہی بہترین تعلیم حاصل کر تے تھے اور آج کہ طالب علم ان کا مقا بلہ نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ کہ کتابوں کا بوجھ زیادہ کر نے سے کچھ نہیں ہو تا تعلیم کا معیار اچھا کر نا ہو گا جس طرح ہر سال فیس میں اضا فہ کر تے ہیں بالکل اسی ہی طرح تعلیم کے معیار بہتر کر نے کی اشد ضرورت ہے ہمارے ملک کا ایک اور المیہ ہے یہا ں پر سب سے کم ٹیچر کی تنخوا ہو تی ہے اتنی زیا دہ فیس لینے کے باوجود ٹیچرز کو اتنی کم تنخوا دیتے ہے کہ بس سن کر حیرانی ہو تی ٹیچرز سے اتنا زیادہ کا م لیتے ہیں دو ٹیچر ز کا کام یہ لوگ ایک ٹیچرسے کرواتے ہیں کم از کم ان ٹیچر کو ان کی محنت کے مطابق تو تنخواہ دیں۔

ان تمام لوگوں سے گزارش ہیکہ برائے مہربانی آپ لو گ بچوں کے مستقبل کو چند پیسوں کے خاطر تباہ نہ کر ے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے