دلت ازم . . . خود پسندی یا طبقاتی جدوجہد ؟

کچھ عرصے سے "دلت ازم” کے اوپر ہونے والی بحث کو خاموش تماشائی کی حیثیت سے سوشل میڈیا پر ہونے والی گفتگو کا مشاہدہ کر رہا تھا. اب سوچا کہ اپنی انفرادی حیثیت میں اس پر کوئی رائے بنا سکوں .

جن معاشروں میں تہذیبی نر گیست پروان چڑھتی ہے وہاں پر خود پسندی بڑھنے لگتی ہے اور ایک وقت آتا ہے جب وہ خود پسندی کی ڈھال میں اپنے آپ کو منفرد اور الگ تھلگ دکھانے میں لگ جاتے ہیں.آج کچھ لوگوں کی جانب سے سندھ میں "دلت ازم” یا "دلت” لوگوں کو الگ تھلگ پیش کر کہ یہ بات عیاں کی جا رہی ہے کہ مجموعی طور پہ معاشرے میں دلت لوگوں کے خلاف نفرت اور حقارت پائی جاتی ہے اور وہ اس بات پر مرکوز ہیں کہ ہان وہ نفرت یا ذِلت ہے لیکن حقیقت یہ سمجھنے کی ہے کہ جس معاشرے کہ رویے میں کسی عمل سے سخت نفرت موجود ہو تو وہ عمل پھل پُھول نہیں سکتا. مثلاً عورت کی آزادی اور مذہبی آزادی کے خلاف ہمارے معاشرے میں نفرت موجود ہے تو ان آزادیوں کے پنپنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو گا لہٰذا کہیں نہ کہیں وہ عمل تباہ کاری کی طرف لے جاتا ہے.

یہی بات ہے کہ اگر آج ہم دلت کو دلت بنا کر یا خود ساختہ طور پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کریں گے کہ دلت سے نفرت کی جاتی ہے تو یقین جانئے اس سے دلت نہ تو آزاد یا امپآور ہوں گے بلکے اس سے وہ مزید پسپائی کی طرف جائیں گے. میں سمجھتا ہوں "دلت” کو سیاست اور روزگار بنانے والے حضرات میں ایک بہت بڑ ی تعداد پُر خلوص طور پر اپنے راستے کو صراطِ مستقیم سمجھتی ہے. یہ سادہ دل مگر خود پسند لوگ ہیں یا پھر چند شاطروں کی چال کا شکار ہوۓ ہیں جو "دلت” کو تحریک کا نام دے کر اس سے روزگار اور سماجی اقتدار حاصل ہونے کی وجہ سے اپنے موجودہ کردار سے مطمئن ہیں بلکہ حالتُِ فخر میں ہیں. میری دعا ہے کہ اس پُر خلوص اور سادہ دل جمِ غفیر میں کوئی ایسی (طبقاتی جدوجہد ) تحریک جنم لے جو انھیں بے جا فخر سے آزاد کر کہ خود تنقیدی اور سچے انکسار کی طرف لے جاۓ.
میرے خیال میں ہمیں ریاست جبر کے خلاف یکساں ہو کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ مت بھید اور ذات پات میں بٹ کر تتر بتر ہونے کی.

وہ حضرات جو "دلت” ہونے کی خودپسندی میں مبتلا ہیں تو میں ان کی نظر کرتا چلوں کہ یونان کی ایک دیو مالائی کہانی کا ایک کردار "نارسس” تھا جسے اپنی خوبصورتی اور خود پسندی کے علاوہ اپنے ارد گرد کی دنیا سے کوئی دلچسپی نہیں تھی. اپنی تعریف سنتے سنتے وہ اتنا خود پسند ہو گیا کہ ایک دن پانی میں اپنا عکس دیکھ کر خود پرعاشق ہو گیا. دن رات اپنے عکس کو دیکھتا رھتا. بوکھ اور پیاس سے نڈھال ہو جانےکہ باوجود بھی پانی کو چُھو نہیں سکتا تھا کیوں کے اس کو ڈر تھا کہ پانی کی سطح ہلنے سے عکس ٹوٹ جاۓ گا اور اس کی شکل کا حسن ہزاروں ٹکڑوں میں بٹ جاۓ گا. اسی طرح وہ اپنی اس خود پسندی میں پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر گیا.

آؤ مل کر اجتماعی سوچ کے مالک بنتے ہوے تمام پِسے ہوئے طبقات کو برابری کی سطح پر قومی دھارے میں لے آنے کی سیاسی جدوجہد کریں نہ کے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر اسی کے گرد غیر ضروری طواف میں اپنی انرجی اور وقت ضا یع کریں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے