مذہب كے آغاز كے بارے میں نظریات

[pullquote]مذہب كے آغاز كے بارے میں دو بڑے نظریئے پائے جاتے ہیں۔ ارتقائی نظریہ اور الہامی نظریہ۔ [/pullquote]

[pullquote]
ارتقائی نظریہ[/pullquote]

ڈارون كے نظریہِ ارتقاء سے متاثر ہوكر مغربی محققین اور مستشرقین كی اكثریت نے مذہب كا ارتقائی نظریہ پیش كیا ہے۔ جدید ماہرین كو چونكہ ہر چیز میں ارتقاء كی كارفرمائی نظر آتی ہے لہٰذا انہوں نے مذہب کے متعلق بھی ایسے ہی اندازے لگانے شروع کیے ۔مذہب كے ارتقائی نظریہ كی رو سے انسان كی ابتداء جہالت اور گمراہی سے ہوئی۔ بعدازیں اس نے بتدریج مشركانہ خدا پرستی اپنالی۔ ان ارتقائی مراحل كی تفصیل میں كافی اختلاف ہے۔ مثلاً: بعض محققین كا خیال ہے كہ مذہب كی ابتداء اكابر پرستی سے ہوئی جبكہ دوسروں كی رائے میں ابتداء مظاہر پرستی سے ہوئی۔ ان كا خیال ہے كہ انسان نے ابتداء میں اپنی كم فہمی اور لاعلمی كی وجہ سے مظاہرِ فطرت كی پرستش شروع كردی۔ كیونكہ ابتدا میں اس كی زندگی و موت كا انحصار كافی حد تك ان پر تھا۔ مثلاً: سیلاب، طوفان، زلزلے اور آتش فشاں وغیرہ، لیكن جوں جوں اس كا علم بڑھتا گیا اور جہالت دور ہوتی گئی تو اس نے محسوس كیا كہ یہ مظاہرِ فطرت خدائی قوتیں نہیں ركھتے۔ ابتدا میں لوگوں نے ہر چیز كو دیوتا بنالیا لیكن علمی ترقی كے ساتھ ساتھ خداؤں كی تعداد میں كمی ہونے لگی حتٰی كہ آخر میں صرف ایك خدا رہ گیا۔

جولین بكسلے پہلا مغربی مفكر ہے جس نے ڈارون كے نظریہِ ارتقاء كو مذاہب كی تاریخ پر چسپاں كیا۔ وہ لكھتا ھے:

’’پہلے جادو پیدا ہوا، پھر روحانی تصرفات نے اس كی جگہ لے لی۔ پھر دیوتاؤں كا عقیدہ اُبھرا، بعد ازیں خدا كا تصور آیا۔ اس طرح ارتقائی مراحل سے گزر كر مذہب اپنی آخری حد كو پہنچ چكا ہے۔‘‘

[pullquote]نظریہِ ارتقاء كا ابطال:[/pullquote]

اس نظرے کے مطابق توحید جدید اور شرك قدیم ہے۔ یہی بات نظریہِ ارتقاء كے ابطال كے لیے كافی ہے۔ تاریخ خود اس نظریئے كا ابطال كرتی ہے۔ مسیح علیہ الّسلام سے ڈھائی ہزار برس قبل حضرت ابراہیم علیہ الّسلام خالص توحید كے پرستار تھے اور مسیح علیہ الّسلام سے دو ہزار برس بعد آج بھی نوعِ انسانی میں كروڑوں آدمی شرك كے پرستار ہیں۔علم اور انسان كی جدید تحقیق سے خود اكثر مغربی مفكرین بھی اب ارتقائی نظریہ كو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور الہامی نظریہ كو ماننے پر مجبور ہوئے ۔ چنانچہ پروفیسر شمٹ نے اپنی كتاب The Origin and Growth of Religion میں لكھا ہے:
’’علم شعوب و قبائل انسانی كے پورے میدان میں اب پرانا ارتقائی مذہب بالكل بے كار ہوگیا ہے۔ نشوونما كی كڑیوں كا وہ خوش نما سلسلہ جو ان مذاہب نے پوری آمادگی كے ساتھ تیار كیا تھا، اب ٹكڑے ٹكڑے ہوگیا اور نئے تاریخی رجحانوں نے اسے اٹھا كر پھینك دیا ہے۔ اب یہ بات واضح ہوچكی ہے كہ انسان كے ابتدائی تصور كی اعلیٰ ترین ہستی فی الحقیقت توحیدی اعتقاد كا خدائے واحد تھا اور انسان كا دینی عقیدہ جو اس سے ظہور پذیر ہوا وہ پوری طرح ایك توحیدی دین تھا۔‘‘
(The Origin and Growth of Religion، صفحہ 242)

مذاہب کے متعلق تاریخی مواد پر غور پر کریں تو معلوم ہوگا کہ کبھی کوئی قوم ان معنوں میں مشرک نہیں رہی ہے کہ وہ بالکل یکساں نوعیت کے کئی خدا مانتی ہو ۔ بلکہ انکے نزدیک تعدد آلہ کا مطلب ایک بڑے خدا کو مان کر کچھ اس کے مقربین خاص کا اقرار کرنا ہے جو ذیلی خداؤں کے طور پر کام کرتے ہیں ۔شرک کے ساتھ ہمیشہ ایک خدا یا متعد خدا نگان کا تصور پایا جاتا رہا ہے ۔ایسی حالت میں اوپر پیش کیا گیا ارتقائی مذہب کا استدلال ایک بے دلیل دعوی رہ جاتا ہے۔

مذہب کے متعلق اسی طرح اشتراکی مارکسی نظریہ تاریخ بھی موجود ہے ، یہ ان سے بھی زیادہ لغو ہے یہ نظریہ اس مفرو ضہ پر مبنی ہے کہ اقتصادی حالات ہی وہ اصل عامل ہیں جو انسان کی تعمیر و تشکیل کرتے ہیں، مذہب جس زمانے میں پیدا ہوا وہ جاگیر داری اور سرمایہ داری نظام کا زمانہ تھا اب چونکہ جاگیر داری اور سرمایہ داری نظام استحصال اور لوٹ کھسوٹ کا نظام ہے اس لئے اس کے درمیان پیدا ہونے والے اختلاقی و مذہبی تصورات بھی یقینی طور پر اپنے ماحول ہی کا عکس ہوں گے اور وہ لوٹ کھسوٹ کے نظریات ہوں گے۔ مگر یہ نظر یہ علمی حیثیت سے کوئی وزن رکھتا ہے اور نہ تجربہ سے اس کی تصدیق وتی ہے۔

یہ نظریہ انسانی ارادہ کی بالکلیہ نفی کر دیتا ہے اور اس کو صرف معاشی حالات کی پیدا وار قرار دیتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی اپنی کوئی ہستی نہیں جس طرح صابن کے کارخانے میں صابن ڈھلتے ہیں اسی طرح آدمی بھی اپنے ماحول کے کارخانے میں ڈھلتا ہے وہ الگ سے سوچ کر کوئی کام نہیں کرنا بلکہ جو کچھ کرتا ہے اسی طرح مطابق سوچنے لگتا ہے اگر یہ واقعہ ہے تو مارکس جو خود بھی سرمایہ دارانہ نظام کے اندر پیدا ہوا تھا اس کے لئے کس طرح ممکن ہوا کہ وہ اپنے وقت کے معاشی حالات کے خلاف سوچ سکے؟ کیا اس نے زمین کا مطالعہ چاند پر جاکر کیا تھا اگر مذہب کو پیدا کرنے والی چیز وقت کا اقتصادی نظام ہے تو آخر مار کسزم بھی وقت کے اقتصادی نظام کی پیداوار کیوں نہیں ہے؟ مذہب کی جو حیثیت مارکسزم کو تسلیم نہیں ہے وہی حیثیت اس کے اپنے لئے کس طرح جائز ہو گی؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ اشتعال انگریز حد تک لغو ہے اس کے پیچھے کوئی بھی علمی اور عقلی دلیل موجود نہیں۔ تمام مشہور پیغمبر اپنے دور کے سرمایہ دارانہ نظام کو توڑنے ہی آئے ، حضرت موسی ؑ ہوں یا ابراھیم ؑ یا حضرت محمدﷺ یہ اپنے دور کے ہر ظالم و جابر کے خلاف برسرپیکار رہے اور انہوں نے عدل ہی کی آواز لگائی ۔

[pullquote]مذہب کا الہامی نظریہ [/pullquote]

مذہب كا الہامی نظریہ ہے كہ اللہ تعالیٰ نے انسانِ اوّل حضرت آدم علیہ الّسلام كو جب دنیا میں بھیجا تو اوّل روز سے ہی ان كی تمام مادی ضروریات كی طرح ان كی روحانی ضروریات یعنی دینی ہدایت كا بھی سامان كیا۔اس طرح انسانِ اوّل پوری طرح ہدایت یافتہ تھا۔ وہ نہ صرف توحید پرست تھا بلكہ توحیدِ الٰہی كا پیغامبر تھا،انسانیت كو صراطِ مستقیم اور توحیدِ خالص سكھانے كے لیے وقفے وقفے سے ہر زمانے اور ہر قوم كی طرف رسول بھیجے گئے۔۔مختصر یہ کہ ابتدائے آفرینش سے انسان كا اصلی مذہب توحید رہا ہے۔ شرك اس وقت پیدا ہوا جب انسانی آبادی میں اضافہ اور پھیلاؤ ہوا اور انبیاء كی تعلیم دھندلی پڑگئی۔ آج بھی غیر الہامی اور مشرک مذاہب ہندو مت، جین مت، زرتشتی اور سكھ مت، بدھ مت اور افریقہ کے پرانے مذاہب وغیرہ میں الہامی تعلیمات کی ہلکی پھلکی جھلک دیکھی جاسکتی ہیں ۔اس وقت موجود الہامی مذاہب عیسائیت، یہودیت اور اسلام ہیں، ان كے داعی اللہ تعالیٰ كے رسول اور پیغمبر تھے۔ ان كی تعلیمات جزوی فرق سے خالص توحید پر مبنی تھیں، لیکن بعد میں عیسائیت اور یہودیت كے پیروكاروں نے اپنے مذاہب میں من مانی ترامیم اور تحریفات كرلیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے