بحری قوت اور تذویراتی تقاضے (حصہ دوئم)

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بحریہ کو اگر ریاستی سطح پر پہلی بنیادی فوج کا درجہ حاصل تھا تو پھر ایسا کیا ہوا کہ سب یکسر تبدیل ہوگیا،یہ اہم سوال ہے، ہوا کچھ یوں کہ 18مارچ 1949ءکے لندن گزٹ (صفحہ 1386)کے مطابق یکم ستمبر 1948ءکوبھارتی شاہی بحریہ سے سبکدوش ہونے والے کیپٹن جے ڈبلیو جیفرڈکو بحیثیت (قائم مقام اور بعد ازاں ترقی کیساتھ)ریئر ایڈمرل اور پھر وائس ایڈمرل جیمز ولفرڈ جیفرڈ 1953ءتک پاک بحریہ کے پہلے سربراہ رہے اور یوںشاہی پاک بحریہ کا رشتہ دولت مشترکہ سے جڑا رہا۔

دولت مشترکہ برطانیہ کیساتھ نازک ڈور سے جڑا رشتہ ملکی بحری فوج کو چاربرطانوی بحری جہازوں کیساتھ ساتھ ڈاکیارڈ ، انجینئرنگ اور دیگر شعبہ جات میں تکنیکی معاونت اورنتیجتاًترقی میں مدد گار رہا ،پھر کموڈور حاجی محمد صدیق چوھدری نے پہلے پاکستانی امیر البحر کی حیثیت سے بحریہ کی کمان سنبھالی لیکن اِس وقت تک بھی بحریہ کی کلیدی حیثیت برقراررہی۔

بنگال کے مشہور زمانہ نواب میر جعفرکے خاندان سے تعلق رکھنے والے ملک کے پہلے سیکریٹری دفاع اور صدر(میجر جنرل ریٹائرڈ) اسکندر مرزا کے ہاتھوں 1956ءمیں پارلیمان سے جو آئین منظورہوا ،اُس آئین میں بحریہ کیساتھ شاہی کا لفظ، جھنڈے سے یونین جیک وغیرہ ختم ہوئے وہاں بحریہ کا ”پہلی ریاستی فوج کا درجہ بھی دم توڑ گیا اورشاید یہیں سے بحریہ کی تنزلی کا حقیقی آغاز ہوا، یوں پارلیمانی فیصلے سے سلطنت مغلاں کی یاد تازہ ہوگئی کہ جب اُنہیں بھی بحری قوت سے کچھ زیادہ شغف نہیں تھا۔

ملکی تاریخ کے آٹھ سالوں (1956ءتا 1963ء)میں کمیونزم کیخلاف آبدوز(غازی )سمیت امریکی دفاعی امداد اور برطانوی ساختہ جنگی جہازوںکے حصول سے پاک بحریہ کی حالت قدرے سنبھلی ہی تھی کہ جنگ ستمبر1965ءکے کالے بادل منڈلانے لگے ،ایسے میں پاک بحریہ نے فوری حکمت عملی سے دشمن پر دھاک بٹھائی اور آپریشن دوارکا جیسی کامیابی ہاتھ آئی۔

بحریہ کی اپنی فضائی قوت کی بنیاد رکھنے کیلئے 1966ءمیںچند کاوشیں ہوئیں تاہم اُس وقت کی فضائی کمانڈ کی مخالفت پر عمل رک سا گیا حالانکہ بری فوج کی قیادت بحری فضائی قوت کے مکمل حق میں تھی ،پھر 1971ءمیں فضائیہ میں پی آئی اے کے رضاکار ہوابازوں کی شمولیت، غلط اندازے سے جنگی جہازوں کا نقصان اور افسران و جوانوں کی شہادت نے بحریہ کی اپنی فضائی قوت کوناگزیر بنا دیا لیکن حکمرانوں پر کوئی خاص اثرات مرتب نہ ہوئے۔

دوسری جانب آبدوزغازی کے بعد1970ءسے 1975تک پاک بحریہ فرانسیسی ساختہ ڈیفینی کلاس آبدوزوں سے لیس تو ہوئی او ر 71ءکی جنگ میں آبدوز ہنگور نے بھارتی جہاز وں کوڈبو کراورایک کو نقصان پہنچا کر کامیابیاں بھی حاصل کیں ، لیکن آبدوز فورس ہمیشہ مضبوطی کی راہ دیکھتی رہی۔

یہی نہیں 1971ءکی جنگ ،آبدوز غازی کی شہادت اور سانحہ مشرقی پاکستان ۔ ایسی تلخ یادوں کے انمٹ نقوش چھوڑ گئے کہ ملکی بحری قوت کو ہنگامی بنیادوں پر ترقی دینے کی ضرورت کئی گنا بڑھ گئی لیکن سمندری نگرانی کیلئے چند فرانسیسی ساختہ اٹلانٹک طیاروں کی شمولیت کے علاوہ حقیقی بحری قوت کی تشکیل کیلئے کوئی جامع منصوبہ بندی نہ کی گئی۔

پاک بحریہ کا بیڑہ اُس وقت اچانک بہتری کی جانب گامزن ہوا جب 80ءکی دہائی میں امریکی قیادت میں کمیونزم کیخلاف جہاد اکبر شروع ہوا، اکھاڑا افغانستان اور ہر طرح کی رسد کی ترسیل کا ذریعہ پاکستان بنا توامریکی مفادات کے زیر اثر ملکی بحری بیڑے میں موجود جنگی جہازوں کی تعداد8 سے16 ہوگئی اور ایسی صورتحال نے جنم لیا کہ کیماڑی کی بندرگاہ کم پڑنے پرنو تعمیر شدہ پورٹ قاسم میں جہازوں کو لنگر انداز کرنے کیلئے ہنگامی اقدامات کرنا پڑے۔

پاک بحریہ کا1988ءمیں 8امریکی جہازوں کوپانچ سالہ لیز پرحصول کا فیصلہ اِس لحاظ سے تباہ کن تھا کہ نہ صرف بندرگاہوں میں جہازلنگر انداز کرنے کیلئے اضافی منصوبوں، جہازوں کے اخراجات، کرائے کی مد اور دیگر اُمور پر لاکھوں ڈالر خرچ ہوئے، یعنی قومی دولت پانی کی طرح بے دریغ بہائی گئی۔

لیز پر جہازوں کے حصول کے تباہ کن فیصلے بعد حکومت کو علم ہوا کہ پٹے پر حاصل کردہ بحری جہاز ہوائی قلعے ہیں جو 1992ءمیں خلیج میں جنگ کے بادل نمودار ہوتے ہی ایک ایک کرکے غائب ہونا شروع ہوگئے، بنیادی وجوہات میں امریکہ کا پاکستان کیساتھ افغان جنگ اور سوویت یونین کے خاتمے کیساتھ ہی جاری ہنی مون دورانیہ بھی اختتام پذیر ہوگیا، یوں اسلام آباد ۔ واشنگٹن محبت اپنی موت آپ مر چکی تھی لیکن ہمارے ہاں اِسے بدستور زندہ تصور کیا جارہاتھا ۔

اِس دھچکے کے بعد بحریہ کی اعلی قیادت میں یہ سوچ بھی پختہ ہوچکی تھی کہ براﺅن اور پریسلر ترامیم اور بحریہ کو کرائے پر جہازوں کی فراہمی اور واپسی کوئی احسن عمل نہیں تھا، بحریہ کے اندر بروک اور گارشیا کلاس جہازوں کے لیز پر حصول کے وقت بھی شدید مخالفت ہوئی تھی تاہم پس پردہ عراق پر چڑھائی کے منصوبے کے باعث امریکی دباﺅاور داخلی امریکہ نواز پالیسیاں آڑے آگئیں ۔

پاکستان میں 80ء کی دہائی کے آخری ادوار اہم تھے ،ضیاءدور کاطویل مارشل لاءغروب اور جمہوری دور طلوع ہورہا تھا، تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ بحریہ نے قریبا ً قریباً جمہوری ادوار میں ہی زیادہ ترقی کی ۔

اِسی دور میں ایسی کئی آوازیں بلند ہوتی رہیں کہ اگر بحریہ کیلئے امریکی کرائے کے جہازوں کی جگہ دو سے چار جنگی جہاز خریدلیے جاتے توبحری قوت میں خاطر خواہ اضافہ ممکن تھا تاہم بعد ازاں 6سالہ تاخیر پر اسی فیصلے کو حتمی شکل دی گئی تاہم یہ ایسا وقت تھا جب موجود اثاثے شکستگی کا شکارہوچکے تھے اور نیوی وہیں کھڑی نظر آئی جہاں 1988ءسے قبل تھی۔

یہ 90ءکی دہائی کے عین آغاز پرجمہوری دور ہی تھا جب فرانس سے آگسٹا آبدوزوں، برطانوی ہیلی کاپٹرزاور چند دیگر اثاثوں کی خریداری کے کامیاب معاہدے ہوئے، برطانیہ سے چھ جنگی جہازوں کے علاوہ امریکہ سے بحری نگرانی کیلئے تین پی تھری سی اورین طیارے، باردوی سرنگیں بچھانے اور تباہ کرنے کی صلاحیت کے حامل تین فرانسیسی ساختہ کشتیاں،ایک آگسٹا آبدوز اوردو تیل بردار جہازنیوی کا حصہ بنے ۔

پھر اکیسویں صدی کی پہلی دہائی بحریہ کی خود انحصاری کی جانب بہتر قدم ثابت ہوا، جس کی بنیاد گزشتہ جمہوری ادوار میں رکھی جا چکی تھی، ٹیکنالوجی کی منتقلی کے تحت دو بقیہ نئی فرانسیسی ساختہ آبدوزیں، چین سے چار نئے فریگیٹس، ترکی اور چین کے اشتراک سے بارہ نئی تیز رفتار حملہ آور کشتیاں بحری بیڑے میں شامل ہوئیں جبکہ انسداد دہشتگردی کی جنگ کا ایک ہی تحفہ امریکہ کیساتھ معاہدے کے تحت چھ میں سے واحد امریکی ساختہ بحری جہاز بھی نیوی کا حصہ بنا اور بقیہ پانچ جہازوں کا معاملہ امریکہ پھر گول کر گیا۔

آج پاکستان کی بحری قوت کہنے کو تو بہترین بحریہ ہے ، جس کی بنیادی وجہ اُس کے جذبہ ایمانی سے سرشار، محنتی، قابل اور جاں فشاں سیلرز اور افسران ہیں لیکن تکنیکی اعتبار سے بحری فوج کے پاس موجود اثاثے اب بھی دہائیوںپرانے ہیںتاہم ماہر انجینئرزوٹیکنیشنزنے ہمیشہ بہترین صلاحیتوں اور مہارت کی بدولت بیشتر متروک ترین اثاثوں کوبھی قابل استعمال بنائے رکھا۔

افسوس کئی دہائیوں سے شدید مالی بحران کا شکار بحریہ ،کبھی شہر اقتدار میں توجہ کا مرکز نہ بن سکی اور شاید اِس کی بنیادی وجہ حکمرانوں کیساتھ ساتھ کسی حد تک خود نیوی کی اعلیٰ کمان بھی ہے، آج سمندری تذویراتی خطرات جیسے چیلنجز نما اژدہا، سمندراورساحلوں پرتو واضح نظر آرہا ہے، اسلام آباد میں اِسکی پھنکار سنائی نہیں دے رہی۔

کمال حیرت اُس وقت ہوتی ہے جب ہمارے ہاں ہر سطح پر گوادرکی بندرگاہ اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی تکمیل سے بلوچستان سمیت ملک کی تقدیر بدلنے کی باتیں تو پوری شد ومد سے ہو رہی ہیں ،چین بھی اِس کی کامیابی کیلئے انتہائی مخلص ہے لیکن ؟

باقی اگلی قسط میں ۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے