وہ آخری چیمپئن تھا

دوسروں کا تو پتہ نہیں ،مگر محمد علی میرے لئے باکسنگ کے آخری چیمپئن تھے۔ واحد شخص جنہیںباکسنگ نہ دیکھنے والا بھی چیمپئن کہہ کر پکارتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ علی ہی ایک ایسے شخص تھے، جس پریہ نام اچھا لگتا تھا۔تین جون کو یہ عظیم باکسر دنیا سے رخصت ہوگیا، مگر ایسی انمٹ حسین یادیں چھوڑ گیا ، جواسے چاہنے والوں کے دل میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ علی کی ریٹائرمنٹ کے بعد باکسنگ میں کئی معروف باکسر آئے، بعض نے مختلف حوالوں سے شہرت بھی کمائی۔ مائیک ٹائی سن نے اپنی وحشیانہ قوت کی وجہ سے بہت سوں کو حیران کیا، مگر قوت کے ساتھ جو خوبصورتی ،تکنیک ،پھرتی اور ان سب سے بڑھ کر جو سحر محمد علی کی شخصیت میں تھا، وہ ٹائسن سمیت دوسروں میں مفقود تھا۔
محمد علی میری نسل اور مجھ سے پہلی والی نسل کی خوشگوار، مہکتی یادوں کا حصہ تھے۔ ان کے بعض بہت مشہور اور یادگار مقابلے جیسے فائیٹ آف دی سنچری(جوفریزئیر سے مقابلہ)، تھرلاان منیلا(جو فریزئیر سے تیسری اور سب سے خوفناک فائیٹ)، دی رمبل ان دی جنگل(جارج فورمین سے یاد گار فائیٹ)وغیرہ ستر کے عشرے کے وسط تک ہوچکی تھیں۔ علی کی لیری ہومز کے ساتھ آخری لڑائی افسوسناک رہی،جب چیمپین نے اپنے کیرئر کی سب سے بری لڑائی لڑی۔ محمد علی کی زندگی میں مگر کئی ایسی شاندار فائٹس تھیں، جو بعد میں دیکھنے کا موقعہ ملا اورپھر دیر تک ان کے ٹرانس سے نہیں نکل سکا۔ پاکستان میں سپورٹس چینلز شروع ہوئے تو علی کی کئی فائٹس بار بار دکھائی جاتی رہیں۔ساٹھ اور ستر کے عشرے والی نسلوں کے لئے تو علی طے شدہ، غیر متنازع ہیرو تھا۔ بطور مسلمان علی کی مقابلوں میں جیت کودنیا بھر کے مسلمان اپنی کامیابی سمجھتے ۔ محمد علی کا اسلام قبول کرنا اور پھر ایک بنیاد پرست مسلمان کے طور پر زندگی گزارنا، اپنے آپ کو دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ جوڑے رکھنا، مغرب میں اسلامی مخالف پروپیگنڈہ کے خلاف ایک ٹھوس چٹان بن کر کھڑا ہوجانا ایسا کام تھا ،جو ہمارے جیسے بے شمار لوگوں کوآج بھی مسحور کر دیتا ہے۔

محمد علی مگر صرف مسلمانوں کی آنکھوں کا تارا نہیں تھا، اس نے وہ کر دکھایا تھا جو اس کے عہد کے بہت کم لوگوں کے حصے میں آیا۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ میں سیاہ فاموں کے لئے زندگی نہایت مشکل تھی اوربدترین نسلی تعصب کے مظاہر ہر جگہ نظر آتے۔ سفید فاموں کے
لئے الگ سکول، الگ پارک، الگ ریستورا ن اور سینماگھر عام تھے۔ لاتعداد ایسے ہوٹل اور ریستوران تھے جن کے دروازے پر لکھا تھا کہ کالے (نیگرو)نہیں آ سکتے۔ محمد علی جو اس وقت کاسیئس کلے تھا، انہی سخت اور کٹھن حالات سے ابھرا اور چھوٹی عمر میں امریکہ کے لئے اولمپکس گولڈ میڈل حاصل کیا۔ یہ کامیابی کم اہم نہیں تھی۔اس نوجوان باکسر میں مگر بہت آگے جانے اور خود کو منوانے کے جراثیم تھے۔ اس نے کالوں کے لئے الگ ہوٹلوں کی پابندی ماننے سے انکار کیا ۔ مشہور ہے کہ اپنے ایک ایسے ہی تلخ تجربے کے بعد اس نے گولڈ میڈل دریا میں پھینک دیا۔ اس نے اپنے شدید غصے اور ڈپریشن کو باہر نکالنے کے لئے پروفیشنل باکسنگ کی راہ اختیار کی اور محض اکیس سال کی عمر میںسونی لسٹن جیسے ممتاز باکسر سے چیمپئن شپ فائٹ جیت کر ہر ایک کو حیران کر دیا۔ سونی سے فائٹ جیتنے اور چیمپئن بننے کے بعد اس نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا اور اپنانام کاسئیس کلے سے بدل کر محمد علی کر لیا۔اپنی بقیہ تمام زندگی علی کا اصرار رہا کہ کوئی اسے کلے کہہ کر نہ پکارے، اب وہ محمد علی ہے۔

سونی لسٹن سے فائٹ سے پہلے محمد علی نے ایک ایسا ڈرامائی طریقہ اختیار کیا، جس نے اسے بہت زیادہ شہرت دی اور دنیا بھر میں معروف کیا۔ علی اپنی ہر فائیٹ کی منفرد انداز سے تشہیر کرتا۔ وہ اپنے مخالف پر تند وتیز حملے کرتا، انہیں بے وقعت ثابت کرتا اور پیش گوئی کرتا کہ میں اسے فلاں راﺅنڈ میںناک آﺅٹ کر دوں گا۔ یہ پیش گوئی علی نظم کی شکل میں کرتا۔چھوٹی چھوٹی سادہ سی نظمیں جو اس کی بے باکی، جرات اور مخالف پر حملوں کی وجہ سے عوام میں مقبول ہوگئیں۔ علی نے ان چیلنجزکے ذریعے اپنی سیاہ فام آبادی کو اٹھایا ، ان میں جذبہ جگایا اور یہ احساس ڈالا کہ وہ گوروں سے کم تر نہیں، انہیں شکست دے سکتے ہیں۔ علی کا یہ بڑا کریڈٹ ہے کہ اس نے چیمپین بننے ، دولت وشہرت کے مہربان ہوجانے کے بعد اشرافیہ کا حصہ بننے کے بجائے ایک عام سیاہ فام سے خود کو جوڑے رکھا۔ اس کا یہ مزاحمتی رویہ اس وقت بہت نمایاں ہوگیا، جب امریکہ نے بلاجواز ویت نام پر حملہ کر دیا۔ ویت نام کے ساتھ جنگ کے لئے امریکہ بھر میں لازمی فوجی بھرتی کا قانون آ گیا اور بے شمار نوجوان فوج میں بھرتی ہو کر ویت نام لڑنے چلے گئے۔ محمد علی نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں ویت نامیوں پر ظلم کیوں کروں؟یہ ناانصافی ہے، میں ایسا نہیں کر سکتا۔محمد علی کی زبانی انکار سن کر امریکہ کی طاقتور لابیز مشتعل ہوگئیں۔ علی سے چیمپین کا ٹائٹل چھین لیا گیا ، باکسنگ لائسنس منسوخ ہوگیا اورقید کی سزا سنا دی گئی۔ علی کو بتایا گیا کہ فوجی بھرتی کے لئے ہا ں کر دے، اسے ویت نام نہیں بھیجا جائے گا اورامریکہ کے اندر ہی کسی شعبے میں چند ماہ کی سرو س کر کے وہ یہ شرط پوری کر دے ۔ محمد علی نے انکار کر دیا اور سب کچھ کھونا قبول کر لیا۔ یہ علی کی زندگی کا ایک اور شاندار پہلو تھا۔
محمد علی کا یہ دور آخر گزر ہی گیا، وہ باکسنگ رنگ میں واپس آیا اور اپنی شاندار فائٹس کے ذریعے خود کو منوایا۔ علی کا سٹائل عام باکسروں سے مختلف اور دلکش تھا۔ عام باکسر ہمیشہ اپنا ایک ہاتھ چہرے کو بچانے کے لئے اوپر رکھتے ہیں۔ علی کمال جرات سے دونوں ہاتھ نیچے کر لیتا اور مخالف کو حملہ کرنے پر اکساتا۔ اپنی پھرتی سے وہ بچتا اور پھر موقع ملتے ہی ضربیں لگا کر مقابل کو ناک آﺅٹ کر دیتا۔ جارج فورمین جیسے طاقتور باکسر کو اس نے اسی حربے سے زیر کیا۔ کئی سال تک وہ ناقابل شکست رہا، مگر پھر جوفریزئیر سے پہلی لڑائی میں وہ پوائنٹس پر ہار گیا۔اس فائٹ سے پہلے محمد علی نے اپنے مخصوص بڑبولے انداز میں بہت سے دعوے کئے تھے۔ کوئی اور ہوتا تو شائد ہمیشہ کے لئے آﺅٹ ہوجاتا۔ علی واپس آیا اور فریزیئر کو دوسری فائٹ میں ہرا دیا۔ فورمین کو شکست دے کر وہ دوسری بار چیمپئن بنا۔ کین نارٹن سے فائیٹ میں اس کا جبڑا ٹوٹ گیا۔ کئی ماہ بعد وہ پھر سنسنی خیز جیت کے ذریعے واپس لوٹ آیا۔ لیون سپنکس سے وہ ہارا ،مگر پھر اسے ہرا کر کم بیک کر کے تیسری بار چیمپین بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ نیچے گرنے اور پھر نئے جذبے اور قوت سے اٹھ کر کھڑے ہونے اور شکست کو فتح میں بدلنے کا ہنر اور جذبہ ہی محمد علی کو دوسرے بڑے باکسروں سے ممتاز اور منفرد بناتا ہے ۔

مذہب محمد علی کی زندگی کا بہت اہم حصہ رہا۔ شروع میں وہ عالیجاہ محمد کا پیروکار رہا، جس کے عقائد مشکوک تھے۔ بعد میں اس نے اپنے عقائد کی اصلاح کی اور مین سٹیریم مسلمانوں کا حصہ بن گیا۔ علی پارکنسن کی بیماری کا شکار ہوجانے کے باوجود سماجی کاموں میں حصہ لیتا رہا،مختلف ممالک میں اسلام کو مثبت انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ ایک بار اپنی اس بیماری کے حوالے سے علی نے کہا،’ہم تمام زندگی خود کو عظیم کہتے ہیں، مگر عظمت صرف رب تعالیٰ کو حاصل ہے، اس کے سوا کسی کو یہ دعویٰ زیب ہے نہ ہی اس کا ایسا مقام ہوسکتا ہے، میری بیماری نے مجھے سمجھا دیا کہ عظمت اور دوام صرف اللہ ہی کو حاصل ہے‘۔

محمد علی دنیا سے رخصت ہوگئے، مگر ہماری یادوں میں وہ ہمیشہ یاد رہیں گے۔ ایک باوقار ، شاندار چیمپئن کے طور پر ۔ ایک ایسے شخص کی حیثیت سے جس نے ہار ماننے کے بجائے اپنے حالات کے ساتھ جنگ لڑی اور حیران کن معجزے تخلیق کر دکھائے۔ محمد علی عزم وہمت کا ایک ایسا استعارہ ہے،جو ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے