اسلامی نظریاتی کونسل

اسلامی نظریا تی کونسل کے معزز اراکین، اپنی ‘مساعیء جمیلہ‘ سے، اس قوم کو دو باتیں باور کرانے میں، بڑی حد تک کامیاب ہیں۔ ایک یہ کہ اسلام کے سماجی و سیاسی کردار پر جدید ذہن کو مطمئن کرنا ممکن نہیں۔ دوسرا یہ کہ ہمارے روایتی مذہبی طبقے کی فکری ساخت کچھ ایسی ہے کہ وہ عورت کو مرد کی سطح کا انسان قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ اس کے خیال میں وہ دوسرے درجے کی انسان ہے جس کی باگ مرد کے ہاتھ میں رہے تو ہی اس کی عفت اور معاشرے کی اخلاقی صحت کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے حسبِ ضرورت علامہ اقبال سے بھی مدد لی جا سکتی ہے جنہوں نے فرما رکھا ہے: ؎
نے پردہ، نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیتِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد
کونسل کے چیئرمین اور اراکین جس طرح اسلام اور سماج کے باہمی تعلق پر اظہارِ خیال فرماتے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ قرونِ وسطیٰ کے ایسے صاحبانِ علم و تقویٰ ہیں‘ جو اصحابِ کہف کی طرح کسی غار میں سوئے رہے اور اچانک اکیسویں صدی میں بیدارہوئے۔ حقوقِ نسواں پر کونسل میں زیرِ غور بل پر غور کیجیے۔ اس کو پڑھیے اور ساتھ ہی صدیوں پہلے لکھی گئی کسی فقہی کتاب کو بھی کھول لیجیے۔ جملوں کی ساخت سے لے کر نفسِ مضمون تک، آپ شاید ہی کوئی فرق تلاش کر پائیں۔ حسبِ توفیق اگر کسی ‘جدید مسئلے‘ کو مخاطب بنایا گیا تو اس بات کا پورا اہتما م کیا گیا کہ وہ اس پیرائے میں بیان ہو کہ کسی قدیم کتاب کے اوراق ہی کی نقل دکھائی دے۔
ہر قدیم بات غلط ہے نہ مردود (رد شدہ)۔ مسئلہ صرف ذہنی ساخت کا ہے۔ یہ ذہن اگر اپنے عہد سے بے خبر یا لاتعلق ہے تو اپنے اخلاص کے باوجود نئے ذہن کو مطمئن نہیں کر سکتا۔ مثال کے طور پر جب مولانا شیرانی یہ فرماتے کہ عورت پر تشدد محض ایک مفروضہ ہے‘ جس کا کوئی مظہر ہمارے ہاں نہیں پایا جاتا تو اس عہد میں جینے والے کسی فرد کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ان سے اتفاق کرے۔ وہ آئے دن کے مشاہدے اور واقعات کو کیسے جھٹلا سکتا ہے۔ اِس کے بعد ان کا تجویز کردہ ‘ہلکا تشدد‘ بھی اس کے ذہن کو بہت بھاری لگتا ہے۔ مولانا کا یہ تبصرہ ان کی علمی رائے اور ان کے مخاطب کے مابین ایک حجاب بن جاتا ہے۔ بدقسمتی سے یہی حجاب اس وقت کونسل اور معاشرے کے ایک بڑے طبقے کے درمیان حائل ہو چکا ہے جس نے بدگمانی کا روپ دھار لیا ہے۔ اس کا نقصان کونسل سے زیادہ اسلام کو پہنچ رہا ہے۔
یہ ایک المیہ ہے۔ اس کی ذمہ دار محض کونسل نہیں، حکومت بھی ہے، یہ کونسل جس کے حسنِ انتخاب کا مظہر ہے۔ رانا ثنااللہ صاحب نے مولانا شیرانی پر جو تبصرہ کیا، وہ اخلاق اور شائستگی کے کسی پیمانے پر پورا نہیں اترتا۔ اس سے قطع نظر، یہ تبصرہ کرتے وقت، انہوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کیا کہ مولانا انہی کی حکومت کا انتخاب ہیں‘ اس لیے وہ جو ‘سزا‘ مولانا کے لیے تجویز کر رہے ہیں، حکومت، بدرجہ اولیٰ اس کی مستحق ہے۔ کون نہیں جانتا کہ کونسل کے اراکین کا انتخاب تفقہ فی الدین یا تقویٰ کی بنیاد پر نہیں، سیاسی وابستگی اور مفاد کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ مزید ظلم یہ کیا جاتا ہے کہ مسلکی وابستگی کو بنیاد مان کر اراکین کا چناؤ ہوتا ہے‘ جو صریحاً آئین کی خلاف ورزی ہے۔
لوگوں کو ایک غلط فہمی یہ ہے کہ کونسل علمائے دین کا ادارہ ہے۔ علما کے ساتھ، آئینی طور پر یہ ماہرین کا ادارہ ہے جو پاکستان کے معاشی، سیاسی، قانونی اور انتظامی معاملات کا ادراک رکھتے ہوں۔ اس میں ممکن حد تک، اس بات کا بھی لحاظ رکھا جانا چاہیے کہ مختلف نقطہ ہائے نظر کی ترجمانی ہو سکے۔ حکومت اور علما کے نزدیک، نقطہ ہائے نظر (Schools of Thought) سے مراد دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث یا شیعہ ہونا ہے۔ یہ آئین کی درست تعبیر نہیں۔ اس وقت جو علما اس کونسل کا حصہ ہیں، وہ بظاہر دیوبندی یا بریلوی ہو سکتے ہیں‘ لیکن اصلاً یہ ایک ہی نقطہ نظر رکھنے والے لوگ ہیں۔ ان کا اختلاف اگر ہے تو کلامی موضوعات میں ہے۔ جہاں تک ریاست اور معاشرے کو درپیش مسائل کا معاملہ ہے تو سب ایک ہی رائے رکھتے ہیں۔ حقوقِ نسواں پر کونسل کا موقف خود اس کی بڑی دلیل ہے۔
اس وقت کونسل میں دیگر علوم کے ماہرین شامل نہیں ہیں۔ اس کے بعد کونسل کی کوئی رائے، نمائندہ نہیں کہلا سکتی۔ فقہ یا تفہیمِ دین اصلاً ایک سماجی عمل ہے۔ جب سماج میں ایک مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے حل کے لیے ہم دین کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ درپیش مسئلے کی صحیح نوعیت کیا ہے؟ وہ سماج پر کس طرح اثر انداز ہو رہا ہے؟ اس کی وجہ سے ریاست کو کس چیلنج کا سامنا ہے؟ ان سوالات کا جواب کوئی ماہر ہی دے سکتا ہے۔ ایک عالم کے سامنے جب تک یہ تمام پہلو نہیں ہوں گے، وہ دین کا موقف کیسے بتا سکتا ہے؟
میں اس بات کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔ فرض کیجیے‘ یورپی یونین یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ہمارے ساتھ تجارت کو جاری رکھنے کے لیے لازم ہے کہ آپ اپنے ملک سے سزائے موت کا خاتمہ کریں۔ اس مسئلے کا ایک پہلو سفارتی ہے۔ ایک معاشی ہے۔ ایک سیاسی ہے۔ ریاست کو کوئی قدم اٹھانے سے پہلے، ان سب کے بارے میں غور کرنا ہے۔ ایک عالم دین جب تک ان سب پہلوؤں سے واقف نہیں، وہ اس پر صحیح رائے نہیں دے سکتا۔ اسی طرح کے مسائل طبی، عائلی اور دیگر سماجی دائروں میں بھی سامنے آتے ہیں۔ ان کے بارے میں فہمِ دین کے حوالے سے درست بات اسی وقت کہی جا سکتی ہے جب ان کے تمام پہلو سامنے ہوں اور یہ ماہرین کی معاونت کے بغیر ممکن نہیں۔
حقوقِ نسواں کا معاملہ بطور خاص اہم ہے۔ ہماری فقہی روایت نے ایک پدر سرانہ معاشرے (Patriachal) میں جنم لیا۔ اس سے پہلے خود رسالت مآبﷺ نے جس معاشرے میں فریضہ رسالت ادا کیا، وہ بھی مرد کے غلبے پر کھڑا تھا۔ اس میں عورت کا مقصدِ تخلیق بس اتنا ہی تھا کہ وہ مرد کی جسمانی اور دوسری سماجی ضروریات کی تکمیل کرے۔ یہ اندازِ نظر اسلام کی روح سے متصادم تھا۔ اللہ کی کتاب اور رسالت مآبﷺ نے سماجی حالت اور تدریج کے اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے، معاشرے کو اسلام کی روح سے ہم آہنگ بنانے کا آغاز کیا۔ مثال کے طور پر تعدد ازواج ہے۔ اسلام سے پہلے بیویوں کی کوئی تعداد متعین نہیں تھی۔ قرآن مجید نے ایک طرف تعداد مقرر کی اور دوسری طرف اس اجازت کو معاشرتی ضروریات کے تابع کر دیا۔ یہ مسلم سماج کو خواتین کے سماجی مرتبے کے بارے میں حساس بنانا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ اسلام نے اجر و ثواب اور جرم و سزا میں مرد عورت کا امتیاز ختم کر دیا۔
اگر ہمارے اہلِ علم، نقلِ روایت کے ساتھ، اس سماجی شعور کا ادراک بھی رکھتے جس کا ظہور، قرآن مجید کی تعلیم اور اللہ کے رسولﷺ کے حسنِ تربیت میں ہوا‘ تو وہ فقہا کی آرا سے استفادہ کرتے مگر ان کو اختیار کرتے وقت، ان کے اور اپنے سماج کے فرق کا لحاظ ضرور رکھتے۔ اس فرق کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ روایتی علما کی دینی تعبیر آج بھی پدرسرانہ معاشرت کی تابع ہے‘ اور انہیں اس کا اندازہ نہیں کہ سماج تشکیل نو کے مرحلے گزر چکا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب بھی اسلام کے نفاذ کی بات ہوتی ہے تو ایک نیا تنازع کھڑا ہو جاتا ہے۔ معاملہ اگر خواتین سے متعلق ہو تو اس کی سنگینی دوچند ہو جاتی ہے۔ نتائج پھر وہی نکلتے ہیں جن کی طرف میں نے اشارہ کیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے