پاکستانی بجٹ ، صدراور 11 کروڑ روپے

انسان کو زندگی گذارنے کےلیےپانچ بنیادی چیزوں کی لازمی ضرورت ہوتی ہے، یہ پانچ بنیادی چیزیں ہیں ’’روٹی، کپڑا، پانی، طبعی سہولیات اور تعلیم‘‘، ان پانچ چیزوں میں سے روٹی اور کپڑا تو انسان کی اپنی ذمہ داری ہیں لیکن پانی، طبعی سہولیات اور تعلیم یہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں بجٹ بناتی ہیں اور ان سماجی ذمہ داریوں کےلیے ایک مخصوص رقم کا بجٹ میں اعلان کرتی ہیں۔ نواز شریف کی اس حکومت نے مسلسل چوتھی مرتبہ بجٹ پیش کیا لیکن پاکستانی عوام کوکچھ نہیں ملا ہے، اس ملک کی تقریباً ایک تہائی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارتی ہے۔ لوگوں کے پاس نہ کھانے کو روٹی ہے، نہ پہننے کو کپڑا ہے۔ باقی ملک کو تو چھوڑیں صرف پنجاب میں لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا جو منصوبہ مشرف دور میں شروع ہوا وہ بیورو کریسی کی نااہلی، کمیشن اور کرپشن کے باعث 2016 میں بھی مکمل نہیں ہو سکا۔

کسی جامع پالیسی کی عدم موجودگی کی وجہ سے عوامی صحت کے معاملے میں حکومت کو غریب عوام کے لیے بنیادی طبی سہولیات فراہم کرنا مشکل ہو رہا ہے، اور یہ جامع پالیسی جب ہی بن سکتی ہے جب حکمران کرپشن سے باز آجائیں۔ پاکستان کی 20 کروڑ کی آبادی ہے اور 43 کھرب 94 ارب روپے مالیت کے وفاقی بجٹ میں سے صرف 29 ارب روپے بنیادی صحت کے لیے رکھے گئے ہیں۔ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 78 فیصد عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں۔اس کے علاوہ نجی کلینک میں علاج کے لیے جانے کی استطاعت رکھنے والے افراد کی شرح بہت کم ہے۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی طبقاتی تقسیم ملک کو ایک خطرناک راستے پر لے جارہی ہے، اس کی ایک جھلک آپ کو ان سرکاری ہسپتالوں میں مل جائے گی جہاں ایک بسترپر تین تین مریض لیٹے ہوئے ہیں، دوائیں یہاں ملتی نہیں کیونکہ سب بیچ دی جاتی ہیں اور غریب بیمارمیڈیکل اسٹوروں وہی دوائیں خرید رہے ہوتے ہیں، جبکہ طبقاتی تقسیم کی دوسری جھلک آپکو جگمگاتے ہوئے دارالحکومت اسلام آباد میں ڈاکٹر انیس الرحمان کے جدید ترین کلینک میں نظر آئے گی۔ اس کلینک کی دیواروں پر بہترین تصاویر اور فضا میں کلاسیکل موسیقی گونجتی ہے جو ڈینٹسٹ کی ڈرل کی آواز کو دبا دیتی ہے۔ اس کلینک میں صاحبِ استطاعت کے لیے دانتوں کا بہترین علاج کیا جاتا ہے۔دانتوں کوصرف ایک دفعہ چمکانے کے لیے دو سو امریکی ڈالر تک معاوضہ لیا جا سکتا ہے۔

موجودہ بجٹ میں ہائر ایجوکیشن کے لیے 21.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیا میں تعلیم پر سب سے کم سرمایہ خرچ کرنے والا ملک ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستانی بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔یہ انکشاف انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ پالیسی سائنسز کی ایک رپورٹ میں کیا گیا۔اس رپورٹ کی تیاری میں ریسرچر کے طور پر کام کرنے والے احمد علی نے بتایا،’’پاکستان تعلیم پرجی ڈی پی کا 2.14 خرچ کرتا ہے، جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ مسئلہ صرف بجٹ کا ہی نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ جو پیسہ مختص کیا جاتا ہے، اس کا ایک بڑا حصہ تنخواہوں میں چلا جاتا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں ترقیاتی اخراجات بہت اہم ہیں لیکن اس کے لئے خاطر خواہ پیسہ نہیں ہے۔حکومتی دعووں کے باوجود پاکستان میں تعلیم کا شعبہء زبوں حالی کا شکار ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم الف اعلان کے مطابق ملک بھر میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں۔ یہ پاکستان میں بچوں کی آبادی کا تقریباﹰ نصف حصہ ہے۔ باقی جو بچے اسکول جاتے بھی ہیں، اُن کو فراہم کی جانے والی تعلیم بھی کچھ زیادہ معیاری نہیں ہے۔ تنظیم کا دعویٰ ہے کہ اڑتالیس فیصد اسکولوں کی عمارتیں خطرناک اور خستہ حال ہیں، جن کو فرنیچر، ٹوائلٹس، چار دیواری، پینے کے صاف پانی اور بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اٹھارہ فیصد اساتذہ عموماًﹰ اسکولوں سے غیر حاضر رہتے ہیں۔

جماعت اسلامی کے امیر کامریڈ سراج الحق نے بجٹ تقریر کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم اور صحت پر اس بجٹ میں بھی جو خرچ کیا گیا وہ باعث شرم ہے اور مختص کی گئی رقم بھوٹان، نیپال اور بنگلہ دیش میں ان شعبوں کے لیے رکھی گئی رقم سے بھی کم ہے۔انھوں نے کہا کہ اس وقت ہر پانچواں پاکستانی بیمار ہے اور گذشتہ بجٹ میں صحت کے لیے بجٹ کا محض 069 فیصد رکھا گیا لیکن اس بار اضافے کی توقع کر رہے تھے لیکن یہ حکومت نہ تو صحت اور نہ ہی تعلیم کے شعبے میں انقلابی کام کر سکی۔ سراج الحق کاکہناتھاکہ ہر جگہ دو، دو پاکستان نظرآتےہیں،ایک غریب اوردوسرا کرپٹ اشرافیہ کا پاکستان،اشرافیہ کے پاکستان میں نہ لوڈشیڈنگ ہے اورنہ ہی کوئی دوسرے مسائل،جبکہ 95فیصد غرباء کے پاکستان میں مسائل ہی مسائل ہیں۔

پاکستانی حکمرانوں کے اکثر بیانات میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی معاشرے کے لیے ناسور کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ کرپشن تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ قوم کرپشن کرنے والوں کا سماجی بائیکاٹ کرے۔ ہیراپھیری کے خلاف جہاد کرنا ہوگا۔ عوام کو کرپشن کرنے والوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اگر آپ اخبار کے مستقل قاری ہیں تو بلامبالغہ صدر کے ہر بیان میں کرپشن کے خلاف کم وبیش وہی باتیں ہوتی ہیں جو اوپر تحریر کی ہیں اور نئے چیف جسٹس جسٹس انور ظہیر جمالی نے بھی حلف اٹھاتے ہی کرپشن کے خلاف اپنے عزم کو ظاہر کرتے ہوئے بلا کم و کاست یہی باتیں کی ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں کرپشن کے خلاف احتساب کے کئی ادارے سرگرم ہیں جن میں نمایاں نام ایف آئی اے اور نیب کا ہے۔ احتساب بیورو اور وفاقی تحقیقاتی ادارے دونوں کو ملزمان کو ہتھکڑی لگانے اور ہر طرح سے پوچھ گچھ کا اختیار حاصل ہے۔

پاکستان کے معصوم اور بھولے صدر ممنون حسین جنہیں ابھی تک یہ تمیز تو نہیں آئی ہے کہ کپڑئے کیسے پہنے جاتے ہیں ، لیکن گذشتہ سال انہوں نے اپنے بجٹ سے گیارہ کروڑ روپے زیادہ خرچ کیے۔گذشتہ سال کے بجٹ میں ایوان صدر کے لیے 80 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے لیکن ایوان صدرنے 91 کروڑ روپے خرچ کیے اور اسی طرح وزیر اعظم کے دفتر نے بھی اپنے اصل بجٹ سے ایک کروڑ سے زیادہ خرچہ کیا۔ وزیر اعظم کے دفتر کے لیے 84 کروڑ 20 لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے اور وزیر اعظم کے دفتر نے 85 کروڑ 98 لاکھ روپے خرچ کیے۔چلیے ایوان وزیر اعظم میں ہونے والے ایک کروڑکے لیے تو کہا جاسکتا ہے کہ ایوان وزیراعظم میں ہونے والے دفتری کاموں میں ایسا ممکن ہے لیکن گذشتہ مالی سال کے دوران ایوان صدر کے اخراجات وزیر اعظم سیکریٹیریٹ سے زیادہ رہے۔

معلوم ہوا ہے کہ ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم سے جو حساب پیش کیے گئے ہیں وہ بھی شفاف نہیں ہیں۔ کیا ایف آئی اے اور نیب ان دونوں ایوانوں کے حساب کو چیک کرینگے یا صرف عام لوگوں کے حساب کتاب چیک کرنا ہی ان کے فرائض میں شامل ہے اور کیا وہ صدر ممنون حسین سے 11 کروڑ روپے کا شفاف حساب یا اس کی واپسی کا تقاضہ کرینگے۔حکومت لاکھ اچھے بجٹ پیش کرلے جب تک کرپشن ختم نہیں ہوتا عوام کے حالات نہیں سدھرینگے اور غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کی تعداد بڑھے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے