پانی میں گھری تاریخ

چٹان کے آخری سرے پر واقعے چبوترے سے ایک طرف دریائے جہلم تو دوسری طرف پونچھ کی خاموش لہروں کا نظارہ ہوتا ہے-

ماضی میں کبھی شہزادے تو کبھی کوئی ڈوگرا مہاراجہ اسی جگہ سے قدرت کی بنائی ہوئی رعنائیوں کے نظارے لیتا تھا –

صدیوں بعد منظر بھی بدل جاتا ہے اور دیکھنے والے بھی - ٦٠ کی دھائی میں بننے والے منگلا ڈیم اور جھیل نے قلعے کو ایک جزیرے کی شکل دیدی ہے -
صدیوں بعد منظر بھی بدل جاتا ہے اور دیکھنے والے بھی – ٦٠ کی دھائی میں بننے والے منگلا ڈیم اور جھیل نے قلعے کو ایک جزیرے کی شکل دیدی ہے –
لیکن وہ چبوترہ  جہاں سے شہزادے اور ڈوگرا مہاراجے دو دریاؤں کا نظارہ کیا کرتے تھے مٹی کے ڈھیر کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے -  پتھر کی  وہ چوڑی فصیل جن پر چلتے ہوے پہرے دار گرد و نواح سے آنے والے حملہ آوروں پر نظر رکھتے تھے ویرانی کا منظر پیش کرتی ہیں
لیکن وہ چبوترہ جہاں سے شہزادے اور ڈوگرا مہاراجے دو دریاؤں کا نظارہ کیا کرتے تھے مٹی کے ڈھیر کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے – پتھر کی وہ چوڑی فصیل جن پر چلتے ہوے پہرے دار گرد و نواح سے آنے والے حملہ آوروں پر نظر رکھتے تھے ویرانی کا منظر پیش کرتی ہیں
سولہویں صدی میں بنایا جانے والا رام کوٹ کا قلعہ تاریخ کی کئی فراموش کہانیوں کو سمیٹے ہوے  ہے - دریاے جہلم کا پانی قلعے کی ایک جناب سے ہوتا ہوا دوسری طرف منگلا جھیل میں گر جاتا ہے _  بدلتے موسموں کے ساتھ پانی کا رنگ بھی بدلتا رہتا ہے - کبھی مٹیالا - کبھی سبز تو کبھی نیلگوں - لیکن ہر نظارہ  آنکھوں کو ٹھنڈک ضرور پہنچاتا ہے -
سولہویں صدی میں بنایا جانے والا رام کوٹ کا قلعہ تاریخ کی کئی فراموش کہانیوں کو سمیٹے ہوے ہے – دریاے جہلم کا پانی قلعے کی ایک جناب سے ہوتا ہوا دوسری طرف منگلا جھیل میں گر جاتا ہے _ بدلتے موسموں کے ساتھ پانی کا رنگ بھی بدلتا رہتا ہے – کبھی مٹیالا – کبھی سبز تو کبھی نیلگوں – لیکن ہر نظارہ آنکھوں کو ٹھنڈک ضرور پہنچاتا ہے –
مغلوں نے مختلف وادی کشمیر کو باقی علاقوں سے ملانے کے لئے کئی راستے   متعارف کروائے جنھیں مغل شاہرائیں کہا جاتا ہے ۔یہ شاہرائیں پہلے راستوں کی نسبت زیادہ محفوظ اور انتظامی لحاظ سے آرام دہ تھیں۔ مغلوں نے ان شاہراؤں پر قلعے ، مسجدیں ، باولیاں ، سرائیں ، فوجی چوکیاں ، درخت اور باغ لگوائے تاکہ مسافر اور مقامی آبادی ان سہولیات سے فائدہ اُٹھائیں۔
مغلوں نے مختلف وادی کشمیر کو باقی علاقوں سے ملانے کے لئے کئی راستے متعارف کروائے جنھیں مغل شاہرائیں کہا جاتا ہے ۔یہ شاہرائیں پہلے راستوں کی نسبت زیادہ محفوظ اور انتظامی لحاظ سے آرام دہ تھیں۔ مغلوں نے ان شاہراؤں پر قلعے ، مسجدیں ، باولیاں ، سرائیں ، فوجی چوکیاں ، درخت اور باغ لگوائے تاکہ مسافر اور مقامی آبادی ان سہولیات سے فائدہ اُٹھائیں۔
 تاریخ دانوں کے مطابق ایک مغلیہ شاہراہ جسکا آغاز جہلم کے پتن سے ہوتا ہے میرپور کوٹلی ، مینڈھر ، راجوری سے ہوتی درہ پیر پنجال کے راستے وادی کشمیر میں داخل ہوتی تھی ۔ مینڈھر تک یہ راستہ ہر موسم میں استعما ل ہوتا تھا جبکہ برفباری کے موسم میں مینڈھر سے پونچھ یا پھر کوٹلی سے پونچھ اور اوڑی پر اُترتا تھا۔ اس مغل شاہرا ر پر منگلا ، رام کوٹ ، بڑجن اور تھروچی کے مقام پر قلعے تعمیر کیے گئے -

تاریخ دانوں کے مطابق ایک مغلیہ شاہراہ جسکا آغاز جہلم کے پتن سے ہوتا ہے میرپور کوٹلی ، مینڈھر ، راجوری سے ہوتی درہ پیر پنجال کے راستے وادی کشمیر میں داخل ہوتی تھی ۔ مینڈھر تک یہ راستہ ہر موسم میں استعما ل ہوتا تھا جبکہ برفباری کے موسم میں مینڈھر سے پونچھ یا پھر کوٹلی سے پونچھ اور اوڑی پر اُترتا تھا۔ اس مغل شاہرا ر پر منگلا ، رام کوٹ ، بڑجن اور تھروچی کے مقام پر قلعے تعمیر کیے گئے –
رام کوٹ جہلم اور پونچھ دریاؤں کے سنگم پر ایک اونچی پہاڑی پر قائم ہے، جہاں سے چمکدار نیلے پانیوں کا نظارہ بہت دیدہ زیب لگتا ہے۔ اپنے غیر معمولی طور پر منفرد طرزِ تعمیر کی بناء پر رام کوٹ قلعہ کشمیر میں تعمیر کیے گئے باقی قلعوں سے کافی مختلف ہے۔ منگلا اور مظفرآباد قلعوں سے ملتے جلتے طرزِ تعمیر والا یہ قلعہ شاید اسی دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔
رام کوٹ جہلم اور پونچھ دریاؤں کے سنگم پر ایک اونچی پہاڑی پر قائم ہے، جہاں سے چمکدار نیلے پانیوں کا نظارہ بہت دیدہ زیب لگتا ہے۔ اپنے غیر معمولی طور پر منفرد طرزِ تعمیر کی بناء پر رام کوٹ قلعہ کشمیر میں تعمیر کیے گئے باقی قلعوں سے کافی مختلف ہے۔ منگلا اور مظفرآباد قلعوں سے ملتے جلتے طرزِ تعمیر والا یہ قلعہ شاید اسی دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔
 گزرے دور کی طرح آج بھی اس تاریخی مقام تک رسائی آسان نہیں ہے - میرپور شہر یا ڈڈیال کے مضافاتی علاقے بٹھار سے کشتی کے ذریعے رام کوٹ تک پہنچا جا سکتا ہے - جہلم کے ٹھنڈے پانی یا منگلا کے نیلگوں پانی میں سفر کی بھی ایک الگ چاشنی ہے جو  صرف محسوس کی جا سکتی ہے - اگرچہ قلعے کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے، لیکن ماضی کی شان و شوکت کی چند علامات اب بھی باقی ہیں۔ قلعے کے اندر جانے کے لئے مرکزی دروازہ دفاعی حکمتِ عملی کے تحت ہر زاویے پر فائرنگ کے لیے چوکیوں کے ساتھ بنایا گیا ہے -  فصیلوں کے ساتھ ڈھلوانیں بنائی گئی ہیں، جو یقیناً توپوں کو پوزیشن میں لانے کے لیے استعمال ہوا کرتی ہوں گی۔ قلعے کے اندر حیرت انگیز طورپانی کے دو بڑے تالاب ہیں - مؤرخین ان تالابوں کے بارے میں  یہ اندازہ لگانے میں ناکام ہیں کہ آخر اس نسبتاً چھوٹے قلعے میں اتنے بڑے تالاب کیوں بنائے گئے ہیں۔

گزرے دور کی طرح آج بھی اس تاریخی مقام تک رسائی آسان نہیں ہے – میرپور شہر یا ڈڈیال کے مضافاتی علاقے بٹھار سے کشتی کے ذریعے رام کوٹ تک پہنچا جا سکتا ہے – جہلم کے ٹھنڈے پانی یا منگلا کے نیلگوں پانی میں سفر کی بھی ایک الگ چاشنی ہے جو صرف محسوس کی جا سکتی ہے –
اگرچہ قلعے کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے، لیکن ماضی کی شان و شوکت کی چند علامات اب بھی باقی ہیں۔ قلعے کے اندر جانے کے لئے مرکزی دروازہ دفاعی حکمتِ عملی کے تحت ہر زاویے پر فائرنگ کے لیے چوکیوں کے ساتھ بنایا گیا ہے – فصیلوں کے ساتھ ڈھلوانیں بنائی گئی ہیں، جو یقیناً توپوں کو پوزیشن میں لانے کے لیے استعمال ہوا کرتی ہوں گی۔
قلعے کے اندر حیرت انگیز طورپانی کے دو بڑے تالاب ہیں – مؤرخین ان تالابوں کے بارے میں یہ اندازہ لگانے میں ناکام ہیں کہ آخر اس نسبتاً چھوٹے قلعے میں اتنے بڑے تالاب کیوں بنائے گئے ہیں۔
 دیگر کئی تاریخی ورثوں کی طرح رامکوٹ کی تعمیر کے حوالے سے بھی کئی کہانیاں موجود ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ قلعہ ایک قدیم ہندو شیو مندر پر تعمیر کیا گیا تھا- لارڈ شیو کا لنگ اب بھی قلعے میں تالاب کے بائیں جانب موجود ہے -  ماہر اثار قدیمہ نے مندر کے پاس سے چٹانوں کے نمونے جو لئے ہیں ان سے یہ شواہد بھی ملے ہیں کہ یہ مندر پانچویں سے ساتویں صدی عیسوی کے درمیان بنایا گیا تھا - لیکن قلعے کی حتمی تاریخ کے بارے میں تاریخ تقریبن خاموش ہی ہے -

دیگر کئی تاریخی ورثوں کی طرح رامکوٹ کی تعمیر کے حوالے سے بھی کئی کہانیاں موجود ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ قلعہ ایک قدیم ہندو شیو مندر پر تعمیر کیا گیا تھا- لارڈ شیو کا لنگ اب بھی قلعے میں تالاب کے بائیں جانب موجود ہے –
ماہر اثار قدیمہ نے مندر کے پاس سے چٹانوں کے نمونے جو لئے ہیں ان سے یہ شواہد بھی ملے ہیں کہ یہ مندر پانچویں سے ساتویں صدی عیسوی کے درمیان بنایا گیا تھا – لیکن قلعے کی حتمی تاریخ کے بارے میں تاریخ تقریبا خاموش ہی ہے –
ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر سیف الرحمان ڈار کے مطابق یہ قلعہ کیونکہ مظفر آباد قلعے جیسا ہی ہے، اس لیے اس بات کا کافی امکان موجود ہے کہ یہ سولہویں صدی کے پہلے نصف میں تعمیر کیا گیا ہوگا، جبکہ فصیلوں کے ساتھ ڈھلوانیں، توپوں کے لیے کنگرے، اور بندوقچیوں کے لیے تنگ سوراخ تب بنائے گئے جب یہ قلعہ انیسویں صدی میں کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ کے زیرِ تسلط تھا۔
ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر سیف الرحمان ڈار کے مطابق یہ قلعہ کیونکہ مظفر آباد قلعے جیسا ہی ہے، اس لیے اس بات کا کافی امکان موجود ہے کہ یہ سولہویں صدی کے پہلے نصف میں تعمیر کیا گیا ہوگا، جبکہ فصیلوں کے ساتھ ڈھلوانیں، توپوں کے لیے کنگرے، اور بندوقچیوں کے لیے تنگ سوراخ تب بنائے گئے جب یہ قلعہ انیسویں صدی میں کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ کے زیرِ تسلط تھا۔
 آزاد کشمیر کے دیگر قلعوں (جیسے منگلا، مظفر آباد، بڑجن، اور تھروچھی) کی طرح رام کوٹ قلعہ تاریخی ریکارڈز میں اپنی جگہ نہیں بنا سکتا۔ کشمیر کے 1841 کے ایرو اسمتھ نقشے میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لیکن مشہور سفری مصنف سلمان رشید کے مطابق مہاراجہ کشمیر کے مقرر کردہ ماہرِ ارضیات فریڈریک ڈریو 1875 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب The Jummoo and Kashmir Territories: A Geographical Account میں رامکوٹ قلعہ پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ڈریو کے مطابق توگلو نامی ایک گکھر نے یہ قلعہ تعمیر کروایا تھا، جبکہ گکھروں کے بعد یہ ڈوگروں کے زیرِ تسلط چلا گیا۔

آزاد کشمیر کے دیگر قلعوں (جیسے منگلا، مظفر آباد، بڑجن، اور تھروچھی) کی طرح رام کوٹ قلعہ تاریخی ریکارڈز میں اپنی جگہ نہیں بنا سکتا۔ کشمیر کے 1841 کے ایرو اسمتھ نقشے میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لیکن مشہور سفری مصنف سلمان رشید کے مطابق مہاراجہ کشمیر کے مقرر کردہ ماہرِ ارضیات فریڈریک ڈریو 1875 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب The Jummoo and Kashmir Territories: A Geographical Account میں رامکوٹ قلعہ پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ڈریو کے مطابق توگلو نامی ایک گکھر نے یہ قلعہ تعمیر کروایا تھا، جبکہ گکھروں کے بعد یہ ڈوگروں کے زیرِ تسلط چلا گیا۔
تین اطراف سے نیلگوں پانی میں گھرا یہ قلعہ  تاریخ  اور قدرت کے امتزاج کو دیکھنے کا شوق رکھنے والوں کے لئے ایک بہترین انتخاب ہے -  بس ضرورت اس امر کی ہے ماضی کے اس تاریخی ورثے کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ رکھنے کے لئے ہمیں مل جل کر اس کی حفاظت کرنی ہوگی -
تین اطراف سے نیلگوں پانی میں گھرا یہ قلعہ تاریخ اور قدرت کے امتزاج کو دیکھنے کا شوق رکھنے والوں کے لئے ایک بہترین انتخاب ہے – بس ضرورت اس امر کی ہے ماضی کے اس تاریخی ورثے کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ رکھنے کے لئے ہمیں مل جل کر اس کی حفاظت کرنی ہوگی –

12

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے