ٹوٹنے کے بعد

اکثر و بیشتر مشاہدے میں آتا ہے کہ چیزیں جب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہیں تو وہ بکھر کر رہ جاتی ہیں۔ کیونکہ بے جان چیزوں میں شعور ہوتا ہے نہ ہی طاقت کہ وہ پھر سے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکیں۔ اس طرح ان کا ٹوٹنا ہمیشہ کے لئے ان کے وجود کو ختم کر دیتا ہے۔

مادہ کی آخری اکائی ایٹم ہے۔ جس طرح سماج کی آخری اکائی "فرد” ہوتا ہے۔ اگر ہم ایٹم کو توڑنے میں کامیاب ہو جائیں تو تو ہم اس کو "فنا” نہیں کر سکتے بلکہ اس کو ایک نئی اور زیادہ بڑی قوت میں تبدیل کر دیتے ہیں جس کا نام جوہری توانائی (Atomic Energy) ہے۔ مادہ توانائی کی منجمد حالت ہوتی ہے اور توانائی "منتشر مادہ”۔ اگر معمولی مادی قوت اور جوہری قوت کے فرق کا اندازہ لگایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں دو ٹن کوئلہ کسی انجن کو ستر میل تک لے جا سکتا ہے وہاں پیٹرول یا ڈیزل کے صرف نو گیلن اسی انجن کو پانچ سو میل تک دوڑانے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔ اور اس کے برعکس صرف بارہ پونڈ یورینیم جب جوہری توانائی میں تبدیل کر دیا جائے تو وہ اس قابل ہوتا ہے کہ ایک راکٹ کو دو لاکھ چالیس ہزار میل کا سفر طے کرا سکے۔

ایسا ہی معاملہ اس "سماجی اکائی” کا ہے جسے "حضرت انسان” کہتے ہیں۔ انسان جب ٹوٹتا ہے تو وہ بے پناہ حد تک وسیع ہو جاتا ہے۔ جس طرح مادہ ٹوٹنے سے "فنا” نہیں ہوتا بلکہ اپنی "قوت” بڑھا لیتا ہے اسی طرح انسان کی ہستی جب ٹوٹتی ہے تو وہ ختم نہیں ہوتی بلکہ ایک نئی حاصل کر لیتی ہے۔

انسان کے اندر ٹوٹ پھوٹ اس کے تمام اندرونی تاروں کو چھیڑنے کے ہم معنی ہے۔ اس کے بعد اس کے تمام "احساسات” جاگ اٹھتے ہیں۔ اس کی چھپی ہوئی طاقتیں اپنی ناکامی کی تلافی کے لئے حرکت میں آجاتی ہیں۔ اس کے عزم و ارادہ کو "مہمیز” لگتی ہے۔ اس کے اندر ہاری ہوئی بازی کو دوبارہ جیتنے کا وہ بے پناہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔

مادہ کے اندر ایٹمی انفجارAtomic Explosion اس کو بہت طاقتور بنا دیتا ہے۔ اسی طرح انسانی شخصیت کے اندر بھی بے پناہ امکانات چھپے ہوتے ہیں اور یہ امکانات اس وقت بروئے کار آتے ہیں جب انسان کی شخصیت کسی "انفجار” سے دو چار ہو جائے۔ میں نے میٹرک کی "بیالوجی” کی کتاب میں ایک خوردبینی آبی جاندار” امیبا” ۔ (Amoeba) کے بارے میں پڑھا تھا کہ جب اس کو کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو یہ ٹوٹ جاتا ہے اور پھر اس کا نیوکلس (مرکزہ) ایک اور امیبا بن جاتا ہے۔ یعنی ٹوٹنے کے بعد بکھرتا نہیں بلکہ اپنے جیسا ایک اور امیبا بنا لیتا ہے۔ اگر ہم ایک لکڑی کو توڑیں تو وہ ٹوٹ کر دو ٹکڑے ہو جائے گی اور اس کا ٹوٹنا ہمیشہ کا ٹوٹنا بن جائے گا اور لکڑی اپنی پہلی حالت میں کبھی بھی نہیں آ سکتی۔ کائنات میں خدا وند کریم نے انسان کے لئے بڑے بڑے امکانات چھپائے ہوتے ہیں جن کو حاصل کر کہ انسان کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکتا ہے۔

انسان ایک ایسی مخلوق ہے کہ ناکامی اس کو فکری گہرائی عطا کرتی ہے۔ رکاوٹیں اس کے ذہن کے بند دروازے کو کھولتی ہیں اور حالات اس کے جتنے ٹکڑے کر دے، ہر ٹکڑا ایک نئی زندگی حاصل کر لیتا ہے۔ انسان کے اندر "تیمور” بادشاہ کی سی لگن ہو تو وہ کھویا ہوا مقام حاصل کر ہی لیتا ہے۔
اس امکان نے اس دنیا میں انسان کو ابدی طور پر ناقابل تسخیر بنا دیا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ زندہ ہو اور بکھرنے سے پہلے اپنے آپ کو متحد کرنا جانتا ہو۔ بازی کھونے کے بعد اپنا حوصلہ نہ کھوئے۔ وہ اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے حاصل کرسکتا ہے !!!!۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے