ڈاکٹر عبدالسلام جیسا میں انہیں جانتا ہوں

ڈاکٹر عبدالسلام سے فقط ملا ہی نہیں۔ میں نے اُنہیں اچھی طرح سے جانا۔ اور یہ بات بالکل درست ہے کہ ان کی کہانی المناک ہے۔ فزکس کے علاوہ، اُن کی پہلی وفاداری ’’تحریکِ احمدیہ‘‘ کے ساتھ تھی اور اُن کی ثانوی وفاداری پاکستان کے ساتھ تھی۔ اور یہ تینوں وفاداریاں بہرحال اچھی نہیں رہیں۔ یہ بات پہلے دن سے صاف تھی کہ وہ نہایت منفرد صلاحیتوں کے مالک انسان ہیں۔ شروع شروع میں وہ بالکل لبرل آدمی تھے۔ مجھے بتایا گیاہے کہ وہ شراب بھی پیتے تھے اور خوبصورت عورتوں کے شیدائی بھی تھے۔ اور پھر جب انہیں ایک خاص سطح کا مقام مل گیا تو مغرب میں اُن کی عزت بہت زیادہ بڑھ گئی۔ یہاں تک کہ ابھی اُنہیں 1974 میں، نوبل پرائز بھی نہیں ملا تھا اور عالم یہ تھا کہ (کئی ممالک کے) وزرائے اعظم ان سے ملنے کی آرزو رکھتے تھے۔

یہ 1974 کی بات ہے جب وہ اچانک ایک ایسے شخص سے جو کہ مذہبی مزاج نہیں تھا، ایک ایسے شخص میں تبدیل ہوگئے جو تیز رفتاری کے ساتھ مذہب میں پھنستا چلا جارہا تھا اور یوں بالآخر وہ ’’تحریک ِ احمدیت‘‘ کے ایک انتہائی دقیانوسی قسم کے سپاہی بن کر رہ گئے۔ اس پر مستزاد یہ بات ہے کہ وہ سال بھی تو 1974 ہی ہے جب بھٹو نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ میری ملاقات اُن سے دس سال بعد ہوئی۔ اور یہ ملاقات فزکس کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ ایک بار جب میں اٹلی سیر کے لیے گیا تو انہوں نے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ۔ دراصل انہوں نے میرا آرٹیکل پڑھ لیا تھا، جس کا عنوان تھا، ’’سائنس اینڈ اسلام‘‘۔اس کے بعد ہمارے اچھے تعلقات بن گئے جو دس سال تک قائم رہے۔

یہاں تک کہ ایک آرٹیکل ہم نے مل کر بھی لکھا جو بعد میں ایک کتاب کا دیباچہ بنایاگیا۔ وہ ایک المناک فِگر(Figure) اِس لیے بھی تھے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بہت زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ انہیں پاکستان سے بے پناہ محبت تھی لیکن پاکستان نے انہیں مسترد کردیا کیونکہ وہ احمدی تھے۔ میں تو یہ کہونگا کہ وہ بہت زیادہ پیچیدہ انسان تھے۔ میں یہ بھی آپ کو بتانا چاہونگا کہ یہ پیچیدگی اس وجہ سے بھی اُن میں آگئی تھی کہ وہ ایٹم بم بنانے والے لوگوں میں بنیادی حیثیت رکھتےتھے۔1972 میں جب بھٹو نے تمام سائنسدانوں کو ملتان بلایا تو وہ اس میٹنگ کا رُوحِ رواں تھے۔ اِن سائنسدانوں سے کہا گیا کہ وہ نیوکلیئر دھماکے کے معاملے کی باریکیوں پر غور کریں۔ لیکن 1974 میں (یعنی دوسال بعد) اُنہیں اس پورے پراجیکٹ سے یکدم علحیدہ کردیاگیا۔ اگرچہ پراجیکٹ بہت آگے تک نہ جاسکا لیکن بہرحال وہ ایٹم بم بنانے کے تصور کے حمایتی تھے۔

دیانتدارانہ رائے کا اظہار کروں تو ڈاکٹر عبدالسلام غیرجانبدار انسان نہیں تھے کیونکہ وہ احمدیوں کی حمایت کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ احمدی طاقت میں آجائیں۔ انہوں نے یہ بھی محسوس کرلیا تھا کہ پاکستان کو انڈیا کے مقابلے میں کھڑا ہونا پڑیگا۔ ہندوؤں سے انہیں خاصا تعصب تھا۔ لیکن ایک اور معنی میں وہ کھلے ذہن کے بھی تھے۔انہوں نے کئی بار ہندوستان کا سفر کیا اور بعد میں تو خیر جب وہ اپنے آپ کو پاکستان کی جانب سے دھتکارا محسوس کرتے تھے، تو انڈیا کے بارے میں ،ان کے خیالات بدل بھی گئے تھے۔ آخری مرتبہ جب میں نے انہیں دیکھا تو وہ بے حد ناخوش تھے اور رورہے تھے۔ ایک مرتبہ کسی کی ریٹائرمنٹ کی تقریب میں ایک طالب علم اُن کے پاس آیا اور اُنہیں بتانے لگا کہ وہ اُن پر کتنا زیادہ فخر کرتاہے ، تب وہ وہیل چیئر میں تھے۔ وہ بُری طرح بے قابو ہوکر رونے لگ گئے۔ اُنہی اس حال میں دیکھنا خاصا افسوسناک تھا۔اور جب وہ فوت ہوئے تو کوئی ایک پاکستانی افسر بھی ان کی تجیزوتکفین میں شامل نہ ہوا۔اخبار میں بھی ایک چھوٹا سا فُٹ نوٹ شائع ہوا تھا، بس۔

[pullquote]ترجمہ : ادریس آزاد [/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے