بحری قوت اور تذویراتی تقاضے ۔تیسرااورآخری حصہ

پاک بحریہ کیلئے ہر مالی سال کے بجٹ کا صرف 16سے 19فیصد کا استحصالی تناسب مختص کرنے سے ایسا لگتا ہے کہ حقیقت میں حکومت گوادر اور ساحلی علاقوں کی افادیت کو نہیں جانتی اور سی پیک پر صرف زبانی بیان بازیاں جاری ہیں، خود پاک بحریہ کی کمانڈ اعتراف کرتی ہے کہ انتہائی کم مالی وسائل کے باعث بحریہ کے کئی ترقیاتی منصوبے سالوں سے مشکلات کا شکار ہیں جس کا بنیادی مطلب ریاستی اور حکومتی سطح پربحریہ کے حوالے سے عدم آگاہی، اہمیت کا حقیقی ادراک نہ کرنااور سوتیلے جیسا سلوک ہے۔

حکومتی عدم توجیہہ کے باعث ہی امریکہ سے پانچ فریگیٹس کا معاملہ قریباً گول اور سپیڈ کٹربوٹس کھٹائی میں پڑ گیا، آبدوزوں کی خریداری گزشتہ دو دہائیوں سے التواءکا شکار ہے ،ہیلی کاپٹرز متروک ہو چکے اور جے ایف سترہ اسکواڈرنز کی نیوی میں شمولیت تاحال التواءکا شکار ہے ،ایسے میں بھی اگر نیوی ملکی سمندروں اور ساحلوں کی نگہبانی کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے تو یہ حیرت ہے۔

آج سمندرموسمی ہی نہیں تذویراتی تغیر و تبدل کا بھی محور ہیں،حال ہی میں بھارت کابحر ہند میں جوہری آبدو ز آریہنت سے جوہری وار ہیڈ لیجانے کی صلاحیت رکھنے والے کے فور بیلسٹک میزائل کا تجربہ کرکے بحرہند میں جوہری دوڑ کا آغاز کردیا، یہاں اول ذکر اُمور کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ صرف پا ک بحریہ کی فوری ترقی اہم ہے وہاں قومی بقا ءکیلئے روائتی و جوہری آبدوزوں کی فوری شمولیت یقینی بنانا ہوگی۔

دوسری جانب بھارت آئندہ دس سے پندرہ سالوں میں 20آبدوزیں، 200جنگی جہاز،5تیل بردار جہاز،حملہ آور، بارودی سرنگوں ، ساحلوں پر فوجی اتارنے اور دیگر حوالے سے 160کشتیاں ،120لڑاکا طیارے،9نگران ہوائی جہاز،16سکورسکائی ہیلی کاپٹرز سمیت 242ہیلی کاپٹرز نیوی کا حصہ بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے ، ایسے میں پاک بحریہ کی قوت میں بتدریج کمی انتہائی تشویشناک ہے ۔

بھارت ایران دفاعی معاہدہ کی روشنی میںایران کو بھارتی ساختہ جنگی جہازوں کی فراہمی کی شنید،چاہ بہار کی بندرگاہ میں جدت لانے کا معاہدہ ، بھارتی بحریہ کا ایرانی ساحل پرجدید اسٹیشن بنانے کی تجویز کسی خطرے سے خالی نہیں،مطلب یہ ہوا کہ گوادر کی بندرگاہ اور سی پیک منصوبے کیخلاف بھارتی پالیسی ساز دفاعی حکمت عملی ترتیب دے چکے ۔

گوادر کی بندرگاہ پر نیوی کے اثاثوں کو لنگر انداز کرنے کیلئے 600میٹر حصہ مختص کیا گیا ہے لیکن بھارت ۔ایران معاہدات کی روشنی میں چاہ بہار پراگر بھارتی بحری جہاز اور آبدوزیں لنگر انداز ہو نا شروع ہو جائیں تو تذویراتی طور پر پاکستان کیلئے مشکلات مزید بڑھ جائیں گی ۔

گزشتہ کئی سالوں کے دوران پاک بحریہ کی صورتحال کافی مخدوش ہوئی ہے، سطح سمندر پر بحری جنگی جہازوں کی تگڑی موجودگی دشمن کیلئے واضح خطرہ ہوتی ہے تاہم اگر جہاز ہوں تو ؟

یہ امر حیران کن ہے کہ ملکی بحری بیڑے میں ہمیشہ 7سے10جنگی بحری جہاز ہی دیکھے ،آج ملکی بحریہ میں 40سالہ عمر کے قریباً 5برطانوی ساختہ جہاز اپنی عمرسے کہیں زائدجی رہے ہیں، اِن جہازوں کی سبکدوشی پر نیوی انتہائی خطرناک زون میں داخل ہوسکتی ،لہٰذا ایسی صورتحال کے جنم لینے سے قبل ہی 6سے8بحری جہازوں کے فوری حصول کو یقینی بنانا ہوگا ۔

پاک بحریہ کا غرور اور دشمن کی نیندیں حرام کرنے والی آبدوز فورس کی صورتحال بھی حوصلہ افزاءنہیں، آبدوز وں غازی اور ہنگور کی بلترتیب جنگ 65ءاور 71ءمیں بہترین پیشہ وارانہ جنگی مہارتوں کے مظاہرے پرہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آبدوزفورس کو تیزی سے ترقی دیکر تعداد کم ازکم ایک درجن تک پہنچائی جاتی اور اسے برقرار رکھا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

آج دفاع کیلئے صرف تین آگسٹا 90بی آبدوزیں کھڑی ہیں ،،،گزشتہ پندرہ سالوں میں جرمن ٹائپ 214، فرانسیسی سکارپین اورکبھی چینی یوآن کلاس آبدوزوں کی اُمیدیں دلائی گئیں،،،چینی ساختہ 8آبدوزوں کا معاملہ بھی مالی وسال آڑے آ رہے ہیں، آج چین سے 8روائتی اورکم ازکم 2جوہری آبدوزوں کی بحری بیڑے میں فوری شمولیت کی اشد ضرورت ہے ورنہ صورتحال بہت نازک ہو سکتی ہے ۔

پاک بحریہ کی فضائی سروس میں امریکی ساختہ پی تھری سی اورین ،فرانسیسی ساختہ اے ٹی آر طیاروں اورچینی ساختہ زید نائن ای سی ہیلی کاپٹرز کی شمولیت قدرے اُمید افزاءہے تاہم 1975ءکی خرید سی کنگ ہیلی کاپٹرز41سال اور ایلویٹ ہیلی کاپٹرز کو46سال بیت گئے ، آج مہران ایئر بیس (نیول ایئر بیس ،کراچی)کو واضح طور پرنئے اُڑن کٹولے درکار ہیں۔

فضائیہ کے 1995ءمیں بحریہ کیلئے مختص کردہ میراج (اے فائیو)طیارے بھی متروک ہوچکے ،نیوی کوجے ایف سترہ بلاک ٹو طیاروں کا وعدہ بھی تاحال خواب ہے ، آج بحریہ کوکسی انحصار کے بغیر اپنے ہوابازوں کی زیر نگرانی اپنے لڑاکا طیاروں کے اسکواڈرنز درکار ہیںتاکہ طویل ساحلی پٹی ، آبادیوں، زمینی و سمندری اثاثوں کا مکمل تحفظ اورکھلے سمندر میں فضائی معاونت یقینی بنائی جا سکے ۔

بحریہ کے میرینز، سیلرز اور کیڈٹس کیلئے موجودتربیتی مراکز اور اکیڈمیوں کومزید جدید خطوط پر استوار کرنا ،ساحلی محافظوں کوجدیدتوپوں ، میزائلوں ، راکٹس ، اینٹی ایئر کرافٹ گنز، اسلحہ ، ہتھیاروں ، گولہ بارود اور جدید آلات حرب اورمیری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی (ایم ایس اے)کو اپنی عمارت ، کشتیوں اور جہازوں کیلئے کراچی، پورٹ قاسم اور گوادر کی بندرگاہوں پر برتھیں درکار ہیں ۔

گزشتہ ادوار میں یہ بھی عجب منطق رہی کہ پوری بحریہ ،میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی (ایم ایس اے)، کراچی شپ یارڈ اور کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) یا پورٹ قاسم اتھارٹی (پی کیو اے)کی صورت بندرگاہوںکا نظم و نسق تو نیوی کے سپر درہا لیکن کوسٹ گارڈز کی ذمہ داری الگ تھلگ سونپ دی گئی لہٰذا حربی تقاضوں کو دیکھتے ہوئے کوسٹ گارڈزکو مضبوط اور اُمور نیوی کو منتقل کیے جانے چاہییں ۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک )کے تناظر میں گوادر میں بحریہ کو جدید ایئر بیس اور بڑے نیول اسٹیشن کی ضرورت ہے ،پسنی میں مکران ایئر بیس ، اوڑمارہ میںجناح نیول بیس اور احسن نیول اسٹیشن کو جدید آلات اوربنیادی ڈھانچے کو مزید بہتربنانااور ہیلی کاپٹرز بیس کی تعمیر کی اشد ضرورت ہے، تربت نیول ایئر اسٹیشن کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا ،جیونی او ر کیٹی بندر میں بحریہ کی تنصیبات میں وسعت لانا ہوگی۔

ؓؓبحیرہ عرب میں بحری سرگرمیوں پر نظر رکھنے کیلئے استولا اور چُرنا جیسے غیر آباد جزائرکو بھی ہیلی پیڈ،نیول ریڈار اسٹیشن اور سپیڈ بوٹس کیساتھ اگلے مورچوں کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے ۔

حال ہی میں کچھ اُمید افزاءپہلو بھی سامنے آئے جیسے چین پاکستان تعاون کیساتھ کراچی شپ یارڈ میں تیار کی جانیوالی تیزرفتار جنگی کشتیاں ، ترکی کے تعاون تیل بردار جہاز کی تیاری ، چین سے آبدوزوں ، مزید زیڈ نائن ای سی ہیلی کاپٹرز اور فریگیٹس کے حصول کیلئے کاوشیں بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔

کراچی شپ یارڈ کو جدید آلات کی تنصیب سے ترقی اور گوادر میں جدید ترین شپ یارڈ کی تعمیر انتہائی ناگزیر ہے تاکہ بیرونی انحصار کم کرتے ہوئے مقامی سطح پربحری جہازوں، آبدوزوں اور جنگی کشتیوں کی تیاری کو تیز تر کیا جا سکے اور پھر دنیا کی تقلید کرتے ہوئے پاکستان کو اپنی خریداری اور مقامی سطح پر تیاری کیلئے سٹیلتھ ٹیکنالوجی کاسہارا بھی لینا ہوگا ۔

جنوبی چین کے سمندرہو، بحرالکاہل یا بحر ہند۔عالمی و علاقائی سطح پر بحری اُموراتنی تیزی سے تغیر و تبدل کا محور ہیں ، ایسے میں ہمارے ہاں سمندروں سے مکمل پہلو تہی انتہائی خطرناک امر ہے ،ملکی جغرافیائی منظر نامے میں کچھ حلقے عمومی تاثردیتے ہیں کہ بری یا فضائی افواج کی موجودگی میں محدود بحری قوت کافی ہے حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں زمینی و فضائی افواج کوبحریہ میں ضم کرنے کا سوچا جا رہا ہے لہٰذا بحری ترقی پرتمام انواع کی بہانہ بازی اور توجیہات بالکل بے معنی اور مضحکہ خیز ہیں، تینوں افواج اپنی جگہ انتہائی اہم ہیں۔

زمانہ امن میں تجارتی گزرگاہوں کی سلامتی یقینی بنانا، بحری قزاقی ،انسانی ،ہتھیاروں اور منشیات کی سمگلنگ ، دہشتگردی کیخلاف موثر حکمت عملی کی تشکیل ، سمندری حادثات و آفات اور کئی دیگر چیلنجز کا سامنا اور جنگی حالات میں ملکی دفاع کیساتھ ساتھ تجارتی سامان خصوصاًخام تیل کی ترسیل کوبرقرار رکھنا انتہائی جان جوکھوں کا کام ہے۔

آج چین پاکستان اقتصادی راہداری یا سی پیک اور گوادرکو حقیقت میں بدلنے، سمندری ریشمی راستوں (Sea Silk Rout)کیساتھ پاکستان کے وسیع و عریض 3لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلے ایکسکلو سو اکنامک زون سے اقتصادی و معاشی فوائدکے حصول ، خام تیل و تجارتی سامان کی ترسیل اور قطر سے مائع قدرتی گیس(ایل این جی)کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی ضمانت صرف مضبوط بحری قوت ہی فراہم کر سکتی ہے ۔

بحر ہند میں جامع اور سمندری وسعت کے حامل آپریشنز کیلئے بھارت” بلیو واٹر نیوی “کی تشکیل کی جانب تیزی سے گامزن ہے ،ایسے میں پاکستان کو جامع تذویراتی پہلوﺅں کو مدنظر رکھتے ہوئے کم ازکم ملکی سمندری حدود میں پوری طرح طاقتور اور متحرک تذویراتی آپریشنز کیلئے ”گرین واٹر نیوی“کی بنیاد رکھنا اور ”جامع قومی منصوبہ برائے بحری تحفظ “تشکیل دینا ہوگا اور ملکی بحریہ (بشمول میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی اور کوسٹ گارڈز)کو مضبوط تربنا کردفاع کو مستحکم اور اقتصادی و معاشی فوائد کو حقیقت میں بدلا جائے ۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی دفاع نے حال ہی میں اپنی پیش کردہ رپورٹ میں کچھ اسی قسم کی تجاویزدیں اور واضح کیا ہے کہ سی پیک اور گوادر سمیت ساحلی و سمندری تحفظ کیلئے پاک بحریہ کی اہمیت، انتہائی کم بجٹ اور بحری اثاثوںمیں اضافے کی اشد ضرورت ہے تاہم آئندہ مالی سال 2016-17ءکیلئے860 ارب روپے کے حالیہ دفاعی بجٹ میں 211ارب روپے تینوں مسلح افواج کیلئے اسلحہ و گولہ بارود کی خریداری کیلئے مختص کرنے واضح ہے پاک بحریہ کیلئے کتنا حصہ ہوگا؟

گو کہ تسلسل کیساتھ غیر سنجیدہ حکومتی رویوں سے کوئی خاص توقع نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیاآج کی تیز تر تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت وقت حقائق کا ادراک کریگی یاگزشتہ ادوار کی طرح صرف خانہ پوری ہوگی ؟عمل سے خالی بیان داغے جاتے رہے تونیلگوں پانیوں میں ملکی بقاءکیلئے خطرات کا انبار اکٹھا ہوتا رہیگا اور بلا ٓخر ایسا نہ ہوکہ سمندر سے اُٹھتا سونامی سب بہا لیجائے۔ لہٰذا آج بھی وقت ہے کیونکہ تکنیکی اعتبار سے جدیدبحری قوت ہی تذوریراتی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بانی پاکستان کے فرمودات کو پائیہ تکمیل تک پہنچا سکتی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے