نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کا ذمہ دار کون؟

نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کا ذمہ دار کون؟

وا لد ین، ا سا تذ ہ ا کر ا م یا سوسائٹی؟

میرا اکثر اوقات مختلف ادبی سرگومیوں کے سلسلے میں ملک کے مختلف شہروں میں جانا پڑتاہے۔ پچھلے دنوں میں راولپنڈی کے لاری اڈہ سٹاپ پیرودائی سے گجرات جانے والی بس میں سوار ہوگیا۔میرے بس میں داخل ہونے سے پہلے کھڑکی والی سیٹ پر ایک اوڈھیڑ معمر با ریش شخصیت تشریف فرماں تھے۔ سلام کرنے کے بعد اپنے ہینڈی بیگ کو چھت سے منسلک سٹینڈ پر رکھا کران کے عقب والی سیٹ پربراجماں ہوگیا۔ بس چلنے پر تمام افراد نے سفر کی دعا کے ساتھ رب و عزت سے عافیت طلب کی۔ بس اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہو گئی۔
میری مسافت کا ساتھی ہمیشہ میرے ساتھ ہوتا، جو کتاب میں نے آج چننی اس کا عنوان”توجہ کی طالب“ یہ اردو ادب کی مشہور شخصیت ”قد سیہ بانو“ کی تصنیف ہے۔ کچھ دیر کے بعد احساس ہوا کہ میرے ساتھ بیٹھے شخص بھی اس کتاب کے مطالعہ میں مگو ہیں۔ کافی مسافت طے کرنے کے بعد گفتگو کا سلسلہ چل نکلا۔ میں نے اپنا تعارف کرایا، انہوں نے بتایا وہ ایک سرکاری کالج کے ریٹائیرپر نسپل ہیں اورتعلیمی سوشل ویلفیر کے شعبے سے منسلک ہیں۔ملازمت مدت کے دوران بہت سے نشیب و فراز آئے کبھی بھی اپنے آپ کو حالات و واقعات کے سامنے کمزور پڑنے نہیں دیا، تعلیم کی روشنی اجاگر کرنے کے لئے ہمیشہ اپنی خدمات پیش کی۔ آج کل اپنی زندگی کے آخری ایام بھی اپنے ملک کے ان ا فراد کے لئے وقف کر رکھا ہے جن کے پا س زندہ رہنے کے لئے ہوا کے علاوہ کچھ نہیں۔ میرے کئی دوست، احباب، عزیز و اکارب جو اندورن اور بیرون ملک مقیم ہیں ہم سب نے مل کر یہ بیڑا اٹھایا کہ تعلیم،شعور، ہنر کی روشنی کا دیا ہر گھر، خاندان اور گھرانے میں روشن کرنے کی کوشش کی جائے۔

ہمار ا مقصد بغیر کسی تفر یق، رنگ و نسل کے معاشرہ کے ایسے افراد جن کے اندر جذبہ، جوش، لگن کے ساتھ تعلیم و ہنر سیکھنے کی خواہش و صلاحیت موجود ہے ان کو موقعہ فراہم کرنا ہے تاکہ وہ پڑھ لکھ کر معاشرہ، سوسائٹی کا بہترین حصہ بن سکیں۔ اس سلسلے میں کئی تعلیمی اور ہنر مندی کے ادارے کو بنانے میں کاوشش جاری ہیں جہاں ایسے یتیم،بے کس، بے سہاروں بچے جن کے خاندان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ان بچوں کی ضرورت زندگی کے ساتھ تعلیمی اخراجات کو پور ا کرنے میں مدد دی جائے اور ان کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ اپنے آپ کو بوجھ نہ سمجھے، وہ پڑھ لکھ کر ملک و قو م کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ ا ایسے ا فراد ہمارے لئے رول ماڈل ہیں جوعمر کے اس حصہ میں پہنچ چکے ہیں جہاں اب ان کو آرام، سکون اور آسائش کی ضرورت ہے لیکن ان کے اندر جذبہ حب الوطنی اور انسانیت کا درد تڑپ رہا ہے جو صرف اللہ کی رضا کی خاطر اپنا وقت، مال اور سب سے بڑ کر جان ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے صرف کر رہے ہیں۔

اقوام کی تاریخ میں تعلیم و تربیت کا نظریہ سب سے اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے جہاں والدین کے ساتھ ساتھ خاندان کے تمام افراد کی ذمہ داری ہوتی ہے سب مل کر بچہ کو اخلاقیات، روایات کے ساتھ عبادات کا سبق پڑھائیں۔ایسا صرف انھیں خاندانوں میں ممکن ہوتاہے جہاں ضروریات زندگی کے ساتھ تمام رشتے اپنا فرض منصبی سمجھ کر بچوں کی تربیت و تعلیم پر توجہ دیں۔ ہمارے ملک کے زیادہ تر خاندان غربت افلاس کے باعث ضرورت زندگی کے حصول کیلئے ہمہ وقت کاموں میں مصروف رہتے ہیں وہ پیسہ کمانے کی لالچ میں اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ نہیں دیتے اور بچوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاجاتا ہے۔ تہذیب، اخلاقی اقدار اور روایات کی تعلیم کے نہ دینے سے بچوں کی تربیت میں بدکلامی و بد تہذیبی کا عنصر فروغ پا تا ہے اور بچپن سے وہ منفی سرگرمیوں اور بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہماری حکومت ایسے کئی قانون متعارف کروا چکی ہے جس میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے سکول جانا لازم قرار دیا ہے لیکن یہ صرف کاغذی کاروائی کے طور پر ہی ہمیں نظر آتاہے۔ ہماری معاشرہ میں چھوٹے کے نام سے کئی کردارموجود ہیں جو ہوٹلوں، دوکانوں،ورکشاپوں، بھٹوں، فیکٹریوں، کارخانوں میں ملتے ہیں،جو غربت اور افلاس کی چکی میں اپنے پیٹ کی آگ کو بجھانے کیلئے مجبورا کام کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔

ہمارے درسی نظام تعلیم کے لئے سکول اور کالج کا قیام حکومت کی ذمہ داری ہے، ہمارے ملک کے مقتدر قوتوں نے اس ایشو پر کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا اور نا کوئی خاطر خواہ کاوشش ہوئی۔ ہر سال قومی اور صوبائی سطح کے ا وپر تعلیم پر ایک کثیررقم سالانہ بجٹ میں منظور کی جاتی ہے اس کے باوجود سرکاری سکولوں اور کالجوں میں تعلیم کا گراف بلندہوتا نظر نہیں آتا۔ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ دیہاتوں اور دیہی علاقاجات میں آباد ہے جہاں تعلیمی سہولیات کی کمی کا سخت فقدان پایا جاتا ہے۔ سکولوں کی حالت(بلڈنگ سٹکچرکا نہ ہونا،کمروں اور چھتوں کا کچا اورکمزور ہونا، کلاس روم کا نہ ہونا، بیٹھنے کیلئے کرسیاں،میزیوں اور ٹاٹ کا نہ ہونا، مقررہ تعداد سے زیادہ بچوں کا داخلہ، پینے کا پانی، بجلی اور گیس جیسی بنیادی سہولیات میسر نہ ہونا، کھیلنے کے موقع نہ ملنا جیسے بنیادی مسائل شامل ہیں) خستہ حالی کا شکار ہے۔ دیہی علاقاجات میں ایسے کئی گھوسٹ سکول جو صرف سرکاری اعدادوشمار میں موجود ہیں جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں۔ ہر سال تعلیمی اخراجات کے فنڈزمیں پیسہ کو خورد بورد کیا جاتا ہے اور یہ مبینہ طور پرعلاقے کے حکومتی نمائندے کی سرپرستی میں ممکن ہوتا ہے۔

نظام تعلیم کے شعبہ میں دوسرا اہم مسئلہ استاتذہ اکرام کا ہے۔دوسرے شعبہ کی طرح یہاں بھی بڑے پیمانہ پر استاتذہ کی تقرری میں کرپٹ اصول نافذ عمل نظر آتے ہیں۔ رشوت، سفارش، اپروچ کا استعمال عام سی روایت ہے۔ ہمارے ایجوکیشن سسٹم میں یہ ایسے بنیادی قسم کے نقائص موجود ہیں جن کو دور کئے بغیر تعلیم کے شعبہ میں ترقی ممکن نہیں ہے۔ استادکے تعلیمی لیول کے مطابق ان کا تقرر کرنا بہت ضروری ہے۔ دیہی علاقاجات کے اندر آج بھی پرائمری لیول اور ہائی لیول پر اسا تذہ اکرام کی مطلوبہ تعلیمی کوائف اور نالج کا فقدان پایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ کس طرح بچوں کے اندر درسی تعلیم کا علم ٹرانسفر کر سکتے ہیں۔

استاد علم کا ایسا منبع ہے جس کے ذریعے سے ایک فرد معاشرہ کے باشعور شہری کا ہونے کا فرض ادا کر سکتا ہے یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب استاد یہ سمجھے کہ ان کا کام تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ معاشرہ کی اصلاح کرنا ہے۔استاداکرام اپنے علم، تجربے اور دانش مندی کے ذریعے سے بچوں کے اندر شعور، آگہی، نظم و ضبط کا درس دیتے ہیں جس کے اوپرعمل کرکے یہ پراٹیکل زند گی میں آنے والے بڑے سے امتحان، پریشانی، تکلیف میں اپنے خاندان، کنبہ اور معاشرے میں مثبت رول ادا کر سکتے ہیں۔ اقوام کی تقدیر نوجوان نسل کی تربیت پر منحصر ہوتی ہے۔ ترقی و تنزلی کی سیکنڑوں داستانیں شاہدہیں کہ بحثیت مسلم و پاکستانی قوم ہماری حالت قابل رشک نہیں۔

ہمارا تعلیمی اداروں کا معیار اور نظام تعلیم کا ڈھانچہ قابل رحم حالت میں نظر آتا ہے۔ ترقی کا واحد راستہ صرف تعلیم اور جستجو میں ہے۔ یہ بہت ہی ضروری ہے کہ نوجوانوں میں تعلیم وتحقیق کے میدان کو فروغ دینے کیلئے اورترقی یافتہ ممالک کے شانہ بشانہ چلنے کی نئی سے نئی راہ نکا لیں۔ ہمارے نوجوانوں کو اپنے مستقبل کی ایسی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ پاکستان کے مالیاتی، معاشی اور اقتصادی شعبے اتنے مضبوط بنائیں کہ وہ کسی سپر پاور کا محتاج نہ رہے۔ وہ نوجوان جس نے ملت کی تقدیر بدلنا تھی ان کے ہاتھوں میں قلم کی جگہ ہتھیار تھما دیئے گئے ہیں جو اپنے ہی ملکی مفاد پر ضرب لگا رہے ہیں۔ امت مسلمہ ہماری حالت زار پر ماتم کر رہی ہے اور منتظر ہے کہ اس قوم کا کوئی فرد، گروہ یا طلباء پھر سے اسے ترقی بخشین اور اپنی قوت و صلاحیت سے سائنسی میدان میں آگے بڑھیں۔

سائنس و ٹیکنالوجی، تعلیم اور صنعتی ترقی کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی میں ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ آج کے نوجوانوں میں بیداری اور شعور پیدا کرنے کی بہت اشد ضرورت ہے۔ نئے دورکا نوجوان ہی امید کی وہ جلتی شمع ہے جو بدعنواینوں اور لا قانویت کے گہرے اندھیروں میں روشنی پھیلانے کا موجب بن سکتا ہے۔ کیوں کہ اگر اس کی صلاحیتوں کو صحیح سمت مل جائے تو وہ نہ صرف خود اعلی مقام تک پہنچ سکتا ہے بلکہ اس سے ہماراملک بھی دنیا میں نمایاں مقام پر کھڑانظر آ سکتا ہے۔یہ اسی وقت ممکن ہے کہ والدین، استاتذہ اکرام اورسوسائٹی ملکر اس فرض کو انجام دیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے