میری اختلافی آرا اور ان کی علمی بنیاد

راقم الحروف نے گزشتہ دس بارہ سال کے عرصے میں مختلف علمی وفکری مسائل کے ضمن میں اپنے جو طالب علمانہ نتائج فکر اہل علم کی خدمت میں نقد وتبصرہ کے لیے پیش کیے ہیں، ان میں سے بعض چونکہ روایتی طور پر معروف نقطہ نظر سے مختلف اور روایتی انداز نظر سے مسائل کو دیکھنے والے ذہن کے لیے خاصے اجنبی ہیں، اس لیے ان پر اضطراب و تشویش کا پیدا ہونا اور مختلف ذہنی سطحوں کے مطابق تنقید وتبصرہ کا عمل شروع ہو جانا بالکل فطری اور متوقع بات تھی۔ میں اپنی ہر تحریر میں اپنے نقطہ نظر کے علمی دلائل کی بھی ساتھ ہی ساتھ وضاحت کرتا رہا ہوں اور بہت سے مسائل پر سامنے آنے والی تنقید کے حوالے سے مزید توضیح وتشریح کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے۔ یہ مباحث چونکہ سیکڑوں صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں اور یقیناًہر قاری ان پر براہ راست نظر بھی نہیں رکھتا، اس لیے اگر ان آرا کو علمی استدلال اور فکری بنیاد سے معرا کر کے ایک خالی الذہن قاری کے سامنے رکھا جائے، جیسا کہ بعض حالیہ تنقیدات میں کیا گیا ہے، تو اس سے ایک عمومی ذہنی توحش کا پیدا ہونا ممکن ہی نہیں، یقینی بھی ہے اور دراصل استدلال کی وضاحت کے بغیر صرف ’’احتیاط‘‘ سے منتخب کردہ جملوں کو ناواقف قاری کے سامنے پیش کرنے کے اسلوبِ تنقید کا اصل ہدف بھی یہی ہوتا ہے۔

اس تناظر میں، میں والد گرامی کی ہدایت پر اہم اختلافی مسائل کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر اور اس کے استدلال کے بنیادی نکات نہایت مختصر طور پر یہاں بیان کر رہا ہوں تاکہ ایک حد تک متعلقہ مسئلے کی نوعیت عام قارئین کے سامنے آ سکے۔ اگر اس تحریر میں کوئی تشنگی محسوس ہو تو وہ بالکل فطری ہوگی اور تفصیل کے طالب حضرات سے میری گزارش یہ ہوگی کہ وہ اس نکتے سے متعلق میری مفصل تحریروں کو ملاحظہ فرما لیں۔

[pullquote]۱۔ مسجد اقصیٰ کی تولیت کا مسئلہ
[/pullquote]

مسجد اقصیٰ کا نام قرآن مجید نے بیت المقدس میں قائم بنی اسرائیل کی اس عبادت گاہ کے لیے استعمال کیا ہے جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اور اللہ کے حکم سے اسے بنی اسرائیل کا قبلہ مقرر کیا گیا تھا۔ مسلمانوں کے بیت المقدس کو فتح کرنے سے صدیوں قبل یہودیوں کو اس شہر اور عبادت گاہ سے بے دخل کیا جا چکا تھا اور ان کی جگہ اس وقت یہاں نصاریٰ قابض تھے۔
تاریخی روایات کے مطابق بیت المقدس کی فتح کے موقع پر سیدنا عمرؓ جب یہاں تشریف لائے تو آپ نے نومسلم یہودی عالم کعب الاحبارؒ سے دریافت کیا کہ صخرہ، جسے یہود کے قبلے کی حیثیت حاصل ہے، کس جگہ پر واقع ہے؟ کعبؒ نے پیمایش کر کے اس کی جگہ متعین کی۔ اس جگہ کو نصاریٰ نے یہودیوں کے ساتھ اظہار نفرت کے لیے کوڑا کرکٹ پھینکنے کی جگہ میں تبدیل کر رکھا تھا۔ سیدنا عمرؓ نے گندگی کو وہاں سے ہٹا کر صخرہ کو پاک صاف کرنے کا حکم دیا اور خود بھی اس کی صفائی میں شریک ہوئے۔ پھر آپ نے کعبؒ سے مشورہ طلب کیا کہ مسلمانوں کے نماز پڑھنے کے لیے کون سی جگہ منتخب کی جائے؟ کعبؒ نے کہا کہ نماز صخرہ کے پیچھے ادا کی جائے تاکہ بنی اسرائیل اور امت محمدیہ، دونوں کے قبلوں کی تعظیم ہو جائے۔ سیدنا عمرؓ نے اس تجویز کو مسترد کر دیا اور اس کے بجائے مسجد کے اگلے حصے میں یعنی جنوبی دیوار کے قریب ایک جگہ کو مسلمانوں کی نماز کے لیے مخصوص کر دیا۔

راقم الحروف کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کا وہ حصہ جسے حضرت عمرؓ نے مسلمانوں کی عبادت کے لیے خاص کیا، اس پر تولیت وتصرف تاریخی وشرعی طور پر مسلمانوں کا حق ہے۔ تاہم اس کے علاوہ عبادت گاہ کا وہ حصہ جہاں اصل ہیکل سلیمانی تعمیر کیا گیا تھا اور جو یہود کے قبلے کی حیثیت رکھتا ہے، اس پر بنی اسرائیل کا حق اصولی طور پر حسب سابق برقرار ہے۔ شریعت اسلامیہ میں ان کے اس حق کی تنسیخ کے لیے کوئی تصریح موجود نہیں، جبکہ بطور ایک مذہب کے یہودیت کے لیے دنیا میں باقی اور قائم رہنے کا حق تسلیم کرنے کے بعد ان کے لیے اپنے قبلے پر تولیت وتصرف کا حق تسلیم نہ کرنا ایک غیر منطقی اور داخلی تضاد پر مبنی موقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے عبادت گاہ کے مرکزی حصے کو مسلمانوں کے تصرف میں لینے سے گریز کیا اور ان کی عبادت کے لیے وہاں سے ہٹ کر ایک جگہ مخصوص کی۔ بعد میں خلیفہ عبد الملک بن مروانؒ نے جب اصل عبادت گاہ کے حصے میں قبۃ الصخرہ تعمیر کروایا اور اسے ایک مذہبی زیارت گاہ کا درجہ دے دیا تو اس کے انتظام وانصرام میں یہودیوں کو بھی شریک کیا اور انھیں بطور مجاور یہاں خدمت انجام دینے کا موقع فراہم کیا۔ بحث کا حاصل یہ ہے کہ اگر عبادت کے جنوبی حصے میں قائم مسلمانوں کی مسجد پر مسلمانوں کا حق برقرار رکھتے ہوئے اصل اور مرکزی حصے میں، جہاں حضرت عمرؓ نے نماز پڑھنے سے انکار کر دیا تھا، یہود اپنی عبادت گاہ دوبارہ تعمیر کرنا چاہیں تو اسلامی شریعت کا کوئی حکم اصولی طور پر اس میں مانع نہیں ہے۔ واللہ اعلم

[pullquote]۲۔ علمی وفقہی مسائل میں اجماع کی حیثیت
[/pullquote]

اجماع کے حوالے سے راقم نے جو اپنی متعدد تحریروں میں جو کچھ لکھا ہے، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

۱۔ جن معاملات میں قرآن وسنت کے نصوص ساکت ہوں یا ایک سے زیادہ تعبیرات کا احتمال رکھتے ہوں، ان میں ایک فقیہ یا مجتہد کا ’’اجتہاد‘‘ دلیل شرعی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اجماع چونکہ اجتہاد ہی کی ایک صورت اور اس کی فرع ہے، اس لیے اس کے فی نفسہ ایک قابل اتباع دلیل شرعی ہونے میں کوئی کلام نہیں جس کا درجہ بدیہی طور پر انفرادی واختلافی اجتہاد سے برتر ہے۔

۲۔ قرآن یا سنت کے نصوص، دلائل شرعیہ میں بنیادی اور اساسی دلیل کا درجہ رکھتے ہیں، جبکہ اجتہاد اور اجماع ان نصوص پر متفرع ہونے کی وجہ سے ثانوی دلیل کا۔ اس وجہ سے اجماع کی قوت یا ضعف اور قطعی یا ظنی ہونے کا تعین اس شرعی دلیل کی نوعیت کے لحاظ سے ہوگا جس پر وہ مبنی ہے۔ اگر اجماع کی اساس بننے والے شرعی دلائل قطعی اور یقینی ہیں تو اجماع کا درجہ بھی یہی ہوگا اور اگر دلائل ظنی و استنباطی ہیں تو اجماع بھی اسی درجے کی دلیل ہوگا۔

۳۔ اگر شرعی نصوص فی نفسہ ایک سے زیادہ تعبیرات کا احتمال رکھتی ہوں اور ان میں سے کسی ایک تعبیر پر کسی دور کے فقہا اتفاق کر لیں تو کیا وہ مسئلہ قطعی طور پر منصوص حکم کی حیثیت حاصل کر لے گا جس سے کوئی فقیہ متبادل اجتہاد واستنباط کی بنیاد پر اختلاف نہیں کر سکتا؟ اس ضمن میں اکابر فقہاء ومجتہدین اور محقق علمائے اصول کے طرز عمل سے یہی واضح ہوتا ہے کہ وہ ایسے اتفاق کو ایک ظنی درجے ہی کی دلیل سمجھتے ہیں جس سے دلیل کی بنیاد پر انفراداً بھی اختلاف کیا جا سکتا ہے اور ایک دور کے اہل علم کے متفقہ نقطہ نظر کے برعکس بعد کے ادوار کے اہل علم اجتماعی طور پر بھی کوئی مختلف نقطہ نظر اختیار کر سکتے ہیں۔ امت کی فقہی واجتہادی تاریخ میں اس کی متعدد مثالیں اور نظائر موجود ہیں۔

۴۔ کسی بھی مسئلے میں اجماع کا دعویٰ کرتے ہوئے اور اس کی بنیاد پر متبادل امکانی تعبیرات کو قطعاً خارج از بحث قرار دیتے ہوئے اجماع کے عملی تحقق کے پہلو سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ علمی وفقہی مسائل میں اجماع سکوتی ہی ممکن ہے، کیونکہ کسی بھی دور میں پورے عالم اسلام کے تمام علماء وفقہا کی آرا کو معلوم کرنا اور یہ یقین حاصل کرنا کہ کوئی بھی فقیہ معروف رائے سے مختلف سوچ نہیں رکھتا، قطعی ناممکن ہے۔ اس لیے اجماع سکوتی کو ظاہری او رمجازی طور پر ہی اجماع کہنا درست ہے، حقیقی معنوں میں اس پر اجماع کا اطلاق لگانا مشکل ہے۔

[pullquote]۳۔ رجم کی شرعی حیثیت
[/pullquote]

رجم کی سزا کی شرعی حیثیت کے ضمن میں میری معروضات کے بنیادی نکات درج ذیل ہیں:

۱۔ زنا کے مجرموں کو سنگسار کیا جانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور خلفائے راشدین کے فیصلوں سے ثابت ہے اور اسے شریعت کی مقرر کردہ مستقل سزا کی حیثیت حاصل ہے۔ اس ضمن میں خوارج کا، قرآن میں رجم کی سزا مذکور نہ ہونے کی بنا پر اس کا سرے سے انکار کر دینے کا موقف غلط اور ناقابل قبول ہے۔

۲۔ قرآن میں زانی کے لیے صرف سو کوڑے کی سزا ذکر کی گئی ہے، جبکہ سنت سے اس پر رجم کی سزا کا اضافہ ثابت ہے۔ ان دونوں بظاہر متعارض حکموں کے مابین تطبیق وتوفیق یا علمی وفقہی درجہ بندی کے لیے چودہ صدیوں میں مختلف علمی توجیہات پیش کی گئی ہیں جن میں سے زمانی لحاظ سے آخری توجیہ مولانا اصلاحیؒ اور بعض دیگر معاصر اہل علم نے پیش کی ہے۔ ان کی رائے کی مطابق رجم کی سزا، اصلاً زنا کی نہیں، بلکہ فساد فی الارض او رمحاربہ کی سزا ہے اور اسے زنا کے عادی مجرموں یا اوباشوں پر نافذ کیا جانا چاہیے، چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ۔

۳۔ راقم کے طالب علمانہ مطالعے کے مطابق قرآن کے ظاہری حکم اور سنت کے بیان کردہ اضافے کے مابین تطبیق کے ضمن میں پیش کی جانے والی کوئی بھی توجیہ علمی اشکالات سے خالی نہیں۔ اس لیے علمی ونظری طور پر اس مسئلے میں اس بات کی بھی گنجائش ہے کہ قرآن کی بیان کردہ سزا کو اصل اور حقیقی سزا قرار دیتے ہوئے رجم کو اضافی اور صواب دیدی سزا قرار دیا جائے اور، اس کے برعکس، اس نقطہ نظر کی بھی کہ قرآن کے ظاہری بیان کو قطعی اور فیصلہ کن نہ سمجھتے ہوئے سنت کو شرعی حکم کا مکمل بیان تسلیم کیا جائے۔

۴۔ جہاں تک کسی اسلامی ریاست میں عملی قانون سازی کا تعلق ہے تو اس کے متعلق میرا اصولی موقف یہ ہے کہ وہ اسی رائے پر مبنی ہونی چاہیے جسے جمہور اہل علم کا اعتماد حاصل ہو تا آنکہ کوئی بھی نئی رائے بحث ومباحثہ کے بعد عمومی تائید حاصل کر لے۔ ۲۰۰۷ء میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے عرض کیا تھا کہ:

’’جہاں تک نظری اور علمی سطح پر بحث وتحقیق کا تعلق ہے تو اسے نہ آئینی طور پر آرا اور تعبیرات کے کسی مخصوص دائرے میں محصور کیا گیا ہے اور نہ علمی وعقلی طور پر ہی اس قسم کی کوئی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ ۔۔۔ البتہ کسی بھی رائے کو عملاً قانون سازی کی بنیاد بنانے کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ وسیع تر اور ہمہ جہتی بحث ومباحثہ کے ذریعے سے اس رائے کے استدلال اور افادیت پر قوم کے نمائندہ طبقات کو اعتماد میں لینے کا اہتمام کیا جائے، ورنہ کسی ایسی متنازعہ تعبیر کو جسے علمی وفکری اور قانونی حلقوں، بلکہ خود رائے عامہ کا اعتماد حاصل نہ ہو، قانون سازی کی بنیاد بنانے سے نہ صرف یہ کہ قانون اپنی اخلاقی قوت سے محروم ہو جائے گا، بلکہ یہ طریقہ عمومی طور پر بھی مزید الجھنیں پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔‘‘ (’’حدود وتعزیرات: اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کا جائزہ‘‘، ص ۱۲، ۱۳)

[pullquote]۴۔ ارتداد کی سزا
[/pullquote]

ارتداد کی سزا سے متعلق میری مختلف تحریروں کا حاصل یہ ہے کہ:

۱۔ ارتداد کی سزا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے دی ہے اور بغاوت یا محاربہ کی اساس پر نہیں، جیسا کہ بعض معاصر اہل علم کا نقطہ نظر ہے، بلکہ نفس ارتداد پر دی ہے۔

۲۔ اس سزا کی شرعی اساس ’اتمام حجت‘ کا اصول ہے، یعنی حق واضح ہو جانے کے بعد اس کا انکار کرنا، جیسا کہ امام شافعیؒ کا موقف ہے۔

۳۔ ’اتمام حجت‘ کی کیفیت اور درجے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ بعثت اور بعد کے ادوار میں فرق واقع ہونا بدیہی ہے، چنانچہ اس اساس پر مبنی فقہی احکام کے عملی اطلاق میں بھی دور اور زمانے کے بدل جانے سے فرق کا واقع ہونا فقہی اصول کے مطابق ہے۔

۴۔ سیدنا عمرؓ سے منقول ہے کہ انھوں نے بعض مرتدین پر سزائے موت نافذ کرنے کے فیصلے سے اختلاف کیا، جبکہ تابعین میں سے امام ابراہیم نخعیؒ کا موقف یہ ہے کہ مرتد کو قتل کرنے کے بجائے عمر قید کی سزا دی جائے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ خود صدر اول میں بعض اکابر مجتہدین اس حکم کی نوعیت اور اس کے عملی اطلاق کے حوالے سے عمومی نقطہ نظر سے مختلف رجحان رکھتے تھے۔

۵۔ دور جدید میں بعض اہل علم نے اس مسئلے کو اس پہلو سے بھی دیکھا ہے کہ آج اگر مسلم ممالک میں اسلام سے کھلے ارتداد پر، جس کا تناسب بہت کم ہے، قانونی سزا نافذ کر دی جائے اور اس کے نتیجے میں غیر مسلم ممالک میں اسلام کی دعوت کے راستے میں قانونی رکاوٹیں کھڑی ہونے لگیں تو یہ شرعی مصالح کے خلاف ہوگا۔

۶۔ اس تناظر میں اگر دور جدید میں مسلم ریاستوں میں علی العموم ارتداد کی سزا کے نفاذ سے گریز کیا گیا ہے تو فقہی طور پر یہ فیصلہ درست اور زیادہ قرین حکمت ہے۔ چنانچہ قادیانیوں کے بارے میں جمہور علماء کا موقف اسی کی غمازی کرتا ہے ، جبکہ پاکستان کے علماء کا منکرین حدیث کو خارج از اسلام قرار دینے کے بعد ان کے بارے میں ارتداد کی سزا کے نفاذ کا مطالبہ نہ کرنا بھی اسی حکمت ومصلحت کی وجہ سے ہے۔

[pullquote]۵۔ اقدامی جہاد کا انکار؟
[/pullquote]

انیسویں صدی میں برصغیر میں جہاد کے حوالے سے جس مذہبی بحث ومباحثہ کا آغاز ہوا، اس نے بعض وجوہ سے یہ عنوان اختیار کر لیا کہ اسلام میں جہاد آیا صرف دفاع کے لیے مشروع ہے یا اس سے ہٹ کر اقدامی نوعیت کا جہاد بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں آج بھی جہاد کے حوالے سے کسی بھی بحث کو اسی نکتے کے تناظر میں دیکھا اور سمجھا جاتا ہے، حالانکہ علمی طور پر اس بحث کے کئی دوسرے زاویے بھی ہو سکتے ہیں۔ راقم الحروف نے عہد نبوی وعہد صحابہ میں جہاد وقتال کی نوعیت کے حوالے سے اپنے جو تفصیلی نتائج تحقیق ’’جہاد: ایک مطالعہ‘‘ میں پیش کیے ہیں، انھیں بھی بعض ناقدین نے دفاعی اور اقدامی جہاد کے تصور کے تحت اور اس بحث کے پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ مذکورہ تحریر میں بنیادی طور پر اس زاویے سے مسئلے پر گفتگو ہی نہیں کی گئی۔ میرے نزدیک یہ سوال بے معنی ہے کہ جہاد دفاعی ہوتا ہے یا اقدامی۔ یہ دفاعی بھی ہو سکتا ہے اور اقدامی بھی۔ اصل سوال یہ ہے کہ جہاد کی شرعی وجہ جواز کون سے امور بن سکتے ہیں اور بین الاقوامی نظام میں مسلمان ریاستوں کے غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ تعلقات کی شرعی وفقہی اساس کیا ہے۔

مذکورہ بحث میں راقم الحروف نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ عہد نبوی وعہد صحابہ میں غیر مسلم حکومتوں کے خلاف قتال ایک مخصوص شرعی اساس یعنی اتمام حجت کے قانون پر مبنی تھا جو شریعت کا عمومی قانون نہیں، بلکہ اس کا ظہور اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسانی تاریخ کے بعض ایسے مراحل پر کیا جاتا ہے جب خدائی فیصلے کے تحت کسی قوم کو اس کے کفر وشرک اور اجتماعی بد اعمالیوں کی سزا دینا مقصود ہو۔ اس مقصد کے لیے تکوینی اسباب کے تحت بھی کسی قوم کو دوسری قوم پر غلبہ اور حکومت عطا کر دی جاتی ہے اور بسا اوقات اہل ایمان کے کسی گروہ کو بھی یہ اذن اور اختیار دے دیا جاتا ہے کہ وہ اللہ کے اس فیصلے کی تنفیذ کے لیے آلہ وجارحہ بن کر اہل کفر پر حملہ آور ہوں اور انھیں حکومت واقتدار سے محروم کر کے اپنا محکوم بنا لیں۔

اس بحث کا نتیجہ فقہا کے اس روایتی موقف سے اختلاف کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے کہ غیر مسلم حکومتوں کے ساتھ مسلمانوں کا اصل تعلق، جنگ کا ہے اور یہ کہ اگر مسلمانوں کے پاس طاقت موجود ہو اور کوئی عارضی مصلحت مانع نہ ہو تو اصل حکم یہی ہے کہ غیر مسلم ممالک کو فتح کر کے وہاں کے باشندوں کو محکوم بنا لیا جائے اور ان پر جزیہ عائد کر دیا جائے۔ دور جدید میں عالم اسلام کے بیشتر فقہا ومحققین اس روایتی فقہی موقف سے اختلاف رکھتے ہیں اور ان میں اکابر علمائے دیوبند مثلاً مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا شمس الحق افغانی، مولانا مفتی ظفیر الدین عثمانی اور مولانا تقی عثمانی وغیرہ بھی شامل ہیں جو پرامن اور صلح پسند غیر مسلم اقوام وممالک کے ساتھ مستقل بنیادوں پر مصالحانہ تعلقات کے جواز کے قائل ہیں۔ اسی طرح دور جدید کے بیشتر علما وفقہا اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں پر جزیہ وغیرہ کے نفاذ پر اصرار نہیں کرتے اور خاص طور پر پاکستان کے دستور میں تو غیر مسلموں کو چند ایک کلیدی عہدوں کے استثنا کے ساتھ ریاستی نظم میں ہر سطح پر مسلمانوں کے ساتھ شریک کیا گیا اور انھیں مساوی حقوق کا حامل شہری تسلیم کیا گیا ہے اور اسے پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام کی تائید حاصل ہے۔

[pullquote]۶۔ عورت کی دیت
[/pullquote]

دیت کی مقدار سے متعلق میں نے مختلف تحریروں میں جو بحث کی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے:

۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی مستند روایت میں مرد وعورت کی دیت میں فرق بیان کرنا ثابت نہیں۔

۲۔ قرآن مجید نے دیت کے معاملے میں ’معروف‘ کی پیروی کا حکم دیا ہے جس سے مراد ہر معاشرے کا اپنا معروف ہے۔

۳۔ صحابہ کرامؒ نے اپنے دور کے عرف کے مطابق مرد وعورت کی دیت میں فرق کیا جو قرآن کی ہدایت کے مطابق درست تھا، تاہم اس عرف کی پیروی ہر دور اور ہر معاشرے میں ازروئے شریعت لازم نہیں۔ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے جس میں مختلف معاشرے مختلف قانون سازی کر سکتے ہیں۔

۴۔ عورت کی دیت کے نصف ہونے کا موقف فقہا کا اجماعی موقف بھی نہیں، کیونکہ صدر اول کے دو معروف اصحاب علم ابوبکر الاصمؒ اور ابن علیہؒ اس کے قائل نہیں اور فقہ حنبلی کی مستند کتاب ’کشاف القناع‘ میں اسی بنیاد پر اس مسئلے پر اجماع کے دعوے کی تردید کی گئی ہے۔ اسی طرح امام رازیؒ نے اپنی تفسیر میں مذکورہ نقطہ نظر کو جس اسلوب میں بیان کیا ہے، اس سے مترشح ہوتا ہے کہ وہ بھی اس کے حق میں رجحان رکھتے یا کم از کم اسے قابل غور ضرور سمجھتے ہیں۔

۵۔ پاکستان میں بھی قصاص ودیت کا جو قانون نافذ کیا گیا ہے، اس میں مرد وعورت کی دیت میں فرق نہیں کیا گیا، جبکہ یہ قانون تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام کی مشاورت کے بعد نافذ کیا گیا ہے اور اسے مذہبی جماعتوں کی عمومی تائید بھی حاصل ہے۔

[pullquote]۷۔ لعان اور تحقیق نسب کے جدید سائنسی ذرائع
[/pullquote]

اگر شوہر اپنی بیوی پر بدکاری کا الزام لگائے تو شریعت نے اسے چار گواہ پیش کرنے کا پابند نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شرط پوری کرنا عادتاً ممکن نہیں، جبکہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ اپنے الزام میں سچا ہو۔ ایسی صورت میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے کو عورت کے شوہر کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اس کے مقابلے میں محض شوہر کے دعوے پر الزام کو درست بھی نہیں مانا جا سکتا، کیونکہ الزام کے جھوٹا ہونے کا امکان بھی اتنا ہی مضبوط ہے۔ شریعت نے اس کا حل یہ بتایا ہے کہ ایسی صورت میں میاں بیوی باہم لعان کرنے کے بعد جدا ہو جائیں تاکہ دنیوی معاملات کی حد تک دونوں فریق سزا سے (یعنی شوہر قذف کی سزا سے جبکہ بیوی زنا کی سزا سے) بری ہو جائیں۔

لعان کا دوسرا قانونی اثر یہ مرتب ہوگا کہ عورت جس بچے کو جنم دے گی، اس کا نسب اس کے شوہر سے ثابت نہیں مانا جائے گا۔ اس آخری نکتے کے حوالے سے دور جدید میں یہ اجتہادی بحث پیدا ہو گئی ہے کہ اگر جدید طبی ذرائع کی مدد سے بچے کے نسب کی تحقیق ممکن ہو اور عورت یہ مطالبہ کرے کہ اس پر زنا کا الزام جھوٹا ہے، اس لیے سائنسی ذرائع سے تحقیق کرنے کے بعد اگر ثابت ہو جائے کہ بچہ اس کے شوہر ہی کا ہے تو بچے کے نسب کو اس سے ثابت قرار دینا درست ہوگا؟

میرا طالب علمانہ نقطہ نظر یہ ہے کہ عورت کا یہ مطالبہ درست اور اس کو وزن دینا مقاصد شریعت کے عین مطابق ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت نے لعان کے بعد بچے کے نسب کو شوہر سے منقطع کرنے کا جو طریقہ بتایا ہے، اس کا مقصد بدیہی طور پر یہ نہیں ہو سکتا کہ اگر بچے کے نسب کی تحقیق ممکن ہو تو بھی عورت کو اپنے اوپر عائد کیے جانے والے الزام کی صفائی کا موقع نہ دیا جائے اور بچے کو اپنے نسب کے ثبوت کے حق سے محروم رکھا جائے۔ دور قدیم میں چونکہ تحقیق نسب کا کوئی قابل اعتماد ذریعہ میسر نہیں تھا، اس لیے شریعت نے اتنا ہی حکم دینے پر اکتفا کی جو نصوص میں بیان ہوا ہے۔ تاہم اگر آج ایسا کوئی قابل اعتماد ذریعہ موجود ہو تو عورت اور بچے، دونوں کے حق کے تحفظ کے لیے اس سے مددلینا شریعت کے مقصد اور منشا کے خلاف نہیں، بلکہ اس کے عین مطابق ہوگا۔ اس کی عملی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ زنا کے الزام کی صورت میں میاں بیوی کے مابین لعان کروانے کے بعد دونوں کو جدا کر دیا جائے اور پیدا ہونے والے بچے کا نسب شوہر سے منقطع کر دیا جائے۔ اگر بیوی الزام کا انکار کرتے ہوئے سائنسی ذرائع کی مدد سے نسب کی تحقیق کا مطالبہ کرے اور طبی تحقیق سے اس کا دعویٰ درست ثابت ہو جائے تو بچے کے نسب کو اس کے باپ سے ثابت تسلیم کیا جائے۔ اس صورت میں لعان کا فقہی اثر اور فائدہ یہ ہوگا کہ شوہر پر قذف کی سزا جاری نہیں ہوگی۔

[pullquote]۸۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی
[/pullquote]

سیدنا مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی سے متعلق میرا نقطہ نظر، سابقہ تحریر (براہین، ص ۷۹۰، ۷۱۰) میں بعض توضیحی اضافوں کے ساتھ حسب ذیل ہے:
۱۔ کتب حدیث میں متعدد روایات میں قیامت کے قریبی زمانے میں سیدنا مسیح علیہ السلام کے دنیا میں دوبارہ تشریف لانے اور دجال کو قتل کرنے کا ذکر ہوا ہے۔ محدثین کے معیار کے مطابق یہ روایات مستند اور قابل اعتماد ہیں، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بہت سی پیش گوئیوں کی طرح، اس پیش گوئی کے سچا ہونے پر بھی یقین رکھنا آپ پر ایمان کا تقاضا ہے۔

۲۔ اس پیش گوئی سے متعلق علمی طور پر بعض اشکالات یقیناًپیش آتے ہیں، مثلاً قرآن مجید کا اس اہم واقعے کی صراحت سے صرف نظر کرنا اور متعلقہ احادیث میں بیان ہونے والے بعض امور کا بظاہر تاریخی واقعات کے مطابق نہ ہونا۔ تاہم چونکہ باعتبار سند یہ روایات قابل اعتماد ہیں اور ان میں وضع کے آثار نہیں پائے جاتے، اس لیے اشکالات کو اشکالات ہی کے درجے میں رکھنا زیادہ قرین احتیاط ہے۔ ان کی بنیاد پر پیش گوئی کا مطلقاً انکار کر دینا درست نہیں، خاص طور پر جبکہ روایات سے متعلق یہ معلوم ہے کہ وہ بالمعنی نقل ہوئی ہیں اور کسی بھی واقعے سے متعلق تفصیلات کے نقل کرنے میں راویوں کا سوءِ فہم کا شکار ہو جانا ذخیرۂ حدیث میں ایک جانی پہچانی چیز ہے۔

۳۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ ایک پیش گوئی کے طور پر سیدنا مسیح علیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری پر اعتقاد رکھتے ہوئے، یہ نکتہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ اپنی بنیادی نوعیت کے لحاظ سے یہ ’عقیدے‘ کا مسئلہ نہیں، یعنی کوئی ایسی بات نہیں جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمانیات کے ایک جزو کے طور پر بیان کیا ہو۔ ایمانیات کے معروف اور مسلمہ اجزا کے ساتھ موازنے سے اس مسئلے کی یہی نوعیت واضح ہوتی ہے۔ مثلاً اللہ کی صفات، تقدیر، رسالت، ختم نبوت، قیامت وغیرہ، ان تمام عقائد پر اسلام کے اعتقادی وعملی نظام کی بنیاد ہے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی اپنی جگہ سے ہٹانے سے یہ پورا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اس کے برخلاف احادیث میں بیان ہونے والے مستقبل کے واقعات میں سے کسی واقعے کے رونما ہونے یا نہ ہونے پر اسلام کے دینیاتی نظام کا ہرگز مدار نہیں اور بالفرض ان میں سے کوئی ایک واقعہ بھی رونما نہ ہونا ہو تو بھی اسلام کے اعتقادی نظام میں کسی طرح کا کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔

۴۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کی روایات محققین کے نزدیک اپنی اصل کے لحاظ سے اخبار آحاد ہیں اور اس دائرے میں آتی ہیں جہاں روایات کی تحقیق وتفتیش کے ضمن میں باہم مخالف قرائن کی روشنی میں اشتباہ کا لاحق ہو جانا ممکن ہے۔ بعض صحابہ کے آثار سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ وہ اسے کسی قطعی الثبوت اور متواتر روایت کے طور پر نہیں جانتے تھے۔ اس وجہ سے کوئی صاحب علم اگر ان روایات کے استناد سے اختلاف کریں تو یہ ایک علمی نوعیت کا اختلاف ہوگا جس پر دلائل کی روشنی میں شائستگی سے ہی تنقید کرنی چاہیے اور اس مسئلے کو ایمانیات کے بجائے احادیث کے حوالے سے بحث وتحقیق کے درجے میں ہی رکھنا چاہیے۔

[pullquote]۹۔ عورت کے لیے حق طلاق
[/pullquote]

عورت کے لیے مرد کے مساوی او رمطلق حق طلاق کی بات میرے نزدیک شرعی ترجیحات کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ حق مرد کو وللرجال علیہن درجۃ کی تصریح کے ساتھ دیا ہے۔ اس تناظر میں، راقم نے لکھا ہے کہ:

’’اگر آپ مطلق طور پر عورت کو حق طلاق دے دیں تو جو سوئے استعمال آپ مرد کی طر ف روکنا چاہتے ہیں، اس کا امکان عورت کی طرف بھی ہے۔ اگر خاتون کو آپ علی الاطلاق، بالکل absolute right دے دیتے ہیں کہ وہ جب چاہے، مرد سے الگ ہو جائے تو رشتہ نکاح کی وہ اصل ہیئت بھی قائم نہیں رہے گی جو اللہ نے قائم کی ہے اور غلط استعمال کی مثالیں بھی خواتین کی طرف سے زیادہ سامنے آئیں گی۔‘‘ (براہین، ص ۸۲)

البتہ عملی مشکلات ومسائل کے تناظر میں خواتین کو بعض شرائط کے ساتھ محدود دائرے میں شوہر کے ساتھ حق طلاق میں شریک کرنے کی گنجائش فقہا کے ہاں ہمیشہ تسلیم کی گئی ہے۔ اس ضمن میں،میں نے عرض کیا ہے کہ:
’’لڑکی نکاح کے وقت طلاق کا حق مانگ سکتی ہے، لیکن عام حالات میں یہ خاوند کی رضامندی سے مشروط ہے کہ وہ بیوی کو حق طلاق تفویض کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ قانون اس کو پابند نہیں کرتا۔ لڑکی مطالبہ کرے تو شوہر کہہ سکتا ہے کہ میں یہ حق نہیں دیتا۔ ایسی صورت میں اگر مصلحت کا تقاضا ہو تو ریاست قانون کا اختیار استعمال کرتے ہوئے خاوند کو پابند کر سکتی ہے۔ قانون اس کا پورا اختیار رکھتا ہے کہ کسی بھی فردکے حق کو restrict کر دے یا کسی بھی فرد کو ایسا حق جو عام طو رپر اس کو حاصل نہیں ہوتا، مخصوص صورت حال میں وہ حق اس کو دے دے۔ تو اگر آپ ایک قانونی پابندی لگا دیں کہ ہر نکاح کے موقع پر خاوند اپنا حق طلاق ان ان شرائط کے ساتھ بیوی کو دے دے تو میرے نزدیک فقہی طور پر اس کی گنجائش موجود ہے۔ ۔۔۔ اس سلسلے میں مثال کے طور پر یہ شرط لگائی جا سکتی ہے کہ بیوی اگر کسی موقع پر یہ مطالبہ کرے کہ مجھے طلاق چاہیے اور بیوی کا باپ یا سرپرست یا خاندان کا کوئی دوسرا ذمہ دار آدمی اس مطالبے کی توثیق کر دے کہ ہاں اس کا مطالبہ بجا ہے تو پھر خاوند پابند ہوگا۔‘‘ (براہین، ص ۸۲، ۸۳)

’’بعض صورتوں میں عورت بالکل جائز بنیادوں پر طلاق لینے کی خواہش مند ہوتی ہے، لیکن خاوند اس کے لیے آمادہ نہیں ہوتا، جبکہ عورت کسی جائز وجہ سے خاوند سے علیحدگی چاہتی ہو تو یہ اس کا حق ہے اور خاوند شرعاً اس کے اس مطالبے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ۔۔۔معاصر تناظر میں اس الجھن کا حل یہ ہو سکتا ہے کہ نکاح کے وقت طلاق کے حق کو مناسب شرائط کے ساتھ کسی ثالث یا خود عورت کو تفویض کر دینے کو قانونی طو رپر لازم کر دیا جائے یا یہ قرار دیا جائے کہ اگر عورت خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے تو ایک مخصوص مدت کے اندر شوہر بیوی کو مطمئن کرنے یا اسے طلاق دینے کا پابند ہوگا، ورنہ طلاق ازخود واقع ہو جائے گی۔ ‘‘ (براہین، ص ۴۹، ۵۰)

[pullquote]۱۰۔ قادیانیوں سے متعلق حکمت عملی
[/pullquote]

قادیانیوں سے متعلق راقم الحروف کا رجحان کچھ عرصہ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ کے موقف کی طرف رہا ہے جو انھیں تاویل کا فائدہ دیتے ہوئے ان کی تکفیر نہ کیے جانے کے قائل تھے۔ تاہم بعد میں غور سے واضح ہوا کہ جمہور علما کا موقف شرعی وعملی مصالح کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہے۔ اس ضمن میں میری وضاحتی تحریر الشریعہ کے مئی ۲۰۱۲ء کے شمارے میں شائع ہو چکی ہے۔ البتہ قادیانیوں کے ساتھ بطور ایک طبقے سماجی تعلقات منقطع کر دینے کی حکمت عملی سے مجھے اختلاف ہے۔ راہ حق سے بھٹک جانے والے ایک گروہ کو حق کی تبلیغ کی جو ذمہ داری امت پر عائد ہوتی ہے، اس کے لحاظ سے یہ حکمت عملی اصولاً بھی درست نہیں اور عملاً بھی اس کے نتیجے میں قادیانی مائل بہ اصلاح نہیں ہوئے، بلکہ قادیانی قیادت کو اپنے متبعین کو کفر اور گمراہی کے دائرے میں محصور رکھنے میں مدد ہی ملی ہے۔ چنانچہ اس حکمت عملی سے اختلاف کرتے ہوئے میں نے محولہ بالا تحریر میں لکھا ہے کہ:

’’میرے نزدیک قادیانیوں کو من حیث المجموع قانونی اعتبار سے کافر قرار دینے کا فیصلہ تو بالکل درست اور دینی وشرعی مصالح کے مطابق ہے، تاہم یہ نکتہ اپنی جگہ برقرار رہتا ہے کہ عام مسلمانوں میں سے جو لوگ لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے قادیانی تاویلات کے فریب کا شکار ہو چکے ہیں، ان کے ساتھ نفرت و مخاصمت اور سماجی مقاطعہ کا رویہ درست نہیں، بلکہ وہ اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ ایک داعیا نہ ہمدردی کے ساتھ انھیں مسلمانوں کے قریب تر کرنے اور ان کے لیے اسلام کے صحیح عقائد سے متعارف ہونے کے مواقع پیدا کیے جائیں، اس لیے کہ دعوت دین کا کام لوگوں کو حق اور اہل حق سے دور رکھنے کا نہیں، بلکہ راہ حق سے بھٹک جانے والے لوگوں تک پہنچ کر انھیں حق کے قریب لانے کی جدوجہد کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ ‘‘ (مئی ۲۱۰۲ء، ص ۲۴، ۲۵)

[pullquote]۱۱۔ صحابہ کرامؓ پر طعن وتشنیع کا الزام
[/pullquote]

صحابہ کرامؓ پر طعن وتشنیع ایمان کے منافی ہے اور کوئی مسلمان ارادتاً اور دیدہ ودانستہ ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ میرے جس اقتباس کو صریح بددیانتی سے کام لیتے ہوئے اور میری طرف سے وضاحت کے باوجود مسلسل صحابہؓ پر طعن کی مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، وہ دراصل عہد نبوی کے منافقین سے متعلق ہے اور اس میں بھی طعن وتشنیع کے پہلو سے نہیں، بلکہ قرآن مجید کی ایک آیت کا مصداق متعین کرنے کے ضمن میں بعض ایسے افراد کا ذکر کیا گیا ہے جو بدکاری کو بطورِ عادت اختیار کیے ہوئے تھے۔ متعلقہ اقتباس (براہین، ص ۱۶۰ تا ۱۶۲) حسب ذیل ہے:

’’سورۂ نساء کی آیات ۱۵، ۱۶ میں ’واللاتی یاتین الفاحشۃ‘ اور ’والذان یاتیانہا‘ کا مصداق کون سے زانی ہیں اور پہلی آیت میں خواتین کو الگ ذکر کر کے ان کی سزا الگ بیان کرنے کی وجہ کیا ہے؟۔۔۔ ہم نے آیات کے داخلی قرائن کی روشنی میں اس رائے کو ترجیح دی ہے کہ یہاں زنا کا اتفاقیہ ارتکاب کرنے والے عام مجرم نہیں، بلکہ اس کو پیشہ اور عادت کے طو رپر اختیار کر لینے والے مجرم زیر بحث ہیں اور قرآن نے پہلی آیت میں پیشہ ور بدکار عورتوں کی سرگرمیوں کی روک تھام کی تدبیر بیان کی جبکہ دوسری آیت میں یاری آشنائی کا مستقل تعلق قائم کر لینے والے جوڑوں کی تادیب وتنبیہ کا طریقہ بیان فرمایا ہے۔ ۔۔۔

مولانا محترم نے ہماری اس رائے پر تنقید کرتے ہوئے ۔۔۔یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ اس توجیہ کو ماننے کی صورت میں یہ تصور کرنا پڑے گا کہ ’’ایک انتہائی صالح مسلمان معاشرہ میں جس کی تربیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کر رہے ہوں، اس میں ایسے مسلمان افراد بھی ہوں جو بدکاری کے اڈے چلا رہے ہوں یا جن کا ناجائز تعلق یاری آشنائی کی صورت میں روز مرہ کے معمول کی صورت اختیار کر چکا ہو۔‘‘ مولانا کا فرمانا ہے کہ ’’کوئی بھی باغیرت مسلمان اس تصور کو اپنے دل ودماغ میں جگہ نہیں دے سکتا۔‘‘ (مقام عبرت، ص ۳۰)

تاہم مولانا محترم نے یہ سامنے کی بات نظر انداز کر دی ہے کہ عہد نبوی کے معاشرے نے اخلاقی تزکیہ وتطہیر کے سارے مراحل ایک ہی جست میں طے نہیں کر لیے تھے، اور اس معاشرے میں آپ کے تربیت یافتہ اور بلند کردار صحابہ کے علاوہ منافقین اور تربیت سے محروم کمزور مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو مختلف اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں میں مبتلا تھی اور ان کی اصلاح وتطہیر کا عمل، جتنا بھی ممکن تھا، ایک تدریج ہی کے ساتھ ممکن تھا۔ اس طرح کے گروہوں میں نہ صرف پیشہ ورانہ بدکاری اور یاری آشنائی کے تعلقات کی مثالیں پائی جاتی تھیں بلکہ اپنی مملوکہ لونڈیوں کو زنا پر مجبور کر کے ان کے ذریعے سے کسب معاش کا سلسلہ بھی جاری وساری تھا، چنانچہ قرآن مجید کو اس تناظر میں اس بات کی باقاعدہ وضاحت کرنا پڑی کہ جن لونڈیوں کو اپنی مرضی کے خلاف مجبوراً اس دھندے میں ملوث ہونا پڑتا ہے، اللہ تعالیٰ ان سے کوئی مواخذہ نہیں کرے گا۔‘‘

[pullquote]۱۲۔ توہین رسالت کے قانون پر اعتراض
[/pullquote]

چند سال قبل پاکستان میں توہین رسالت کی سزا سے متعلق نافذ قانون کے حوالے سے بحث اخبارات وجرائد میں چھڑی تو راقم الحروف نے بھی ایک مفصل مقالے میں، جو اب ’’براہین‘‘ میں شامل ہے، اس مسئلے کے مختلف پہلووں سے متعلق اپنا نقطہ نظر واضح کیااور مروجہ قانون میں بعض اصلاح طلب امور کی نشان دہی کرنے کی کوشش کی۔ بحث کے خلاصے کے طور پر میں نے ’’براہین‘‘ (ص ۵۹۵، ۵۹۶) میں لکھا ہے کہ:

’’توہین رسالت سے متعلق حالیہ قانون چند بنیادی اور اہم پہلووں سے نظر ثانی کا محتاج ہے، اس لیے جید اور ذمہ دار علما کی راہ نمائی میں مذہبی جماعتیں درج ذیل امور کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک ترمیم شدہ اور جامع مسودۂ قانون پارلیمنٹ میں کریں:

الف۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شہریت کے لیے اسلام اور پیغمبر اسلام کے احترام کو بنیادی شرط قرار دیا جائے اور کوئی بھی شخص جو اپنے قول وفعل سے اس شرط کی دانستہ خلاف ورزی کرے، اس کے حقوق شہریت منسوخ کر دیے جائیں۔

ب۔ توہین رسالت کا جرم کسی ایک فرد کے خلاف نہیں، بلکہ پورے مسلمان معاشرے اور ریاست کے خلاف جرم ہے، اس لیے اس میں قانونی طور پر مدعی بھی کسی فرد کو نہیں، بلکہ ریاست کو ہونا چاہیے، جبکہ عام لوگوں کا کردار ایسے کسی بھی معاملے کو محض قانون کے نوٹس میں لانے تک محدود ہونا چاہیے۔

ج۔ مجرم سے پہلی مرتبہ جرم سرزد ہوا ہو تو اسے توبہ، معذرت اور معافی کا موقع دیا جائے، البتہ جرم کے مکرر ارتکاب کی صورت میں قرائن وشواہد سے یہ واضح ہو جائے کہ مجرم صرف دفع الوقتی کے لیے معذرت کا سہارا لے رہا ہے جبکہ حقیقی طو رپر اپنے رویے کی اصلاح پر آمادہ نہیں تو اس کی توبہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جائے۔

د۔ جرم کی نوعیت اور اثرات کے لحاظ سے سزائے موت کے ساتھ ساتھ متبادل اور کم تر سزاؤں کی گنجائش بھی قانون میں شامل کی جائے، جبکہ موت کی سزا کو اس جرم کی انتہائی سزا قرار دیتے ہوئے اسی صورت میں نافذ کیا جائے جب جرم کے سد باب اور اس کے اثرات کا ازالہ کرنے کے لیے یہی سزا ناگزیر ہو۔

ہ۔ اگر توہین رسالت کا الزام جھوٹا ثابت ہو تو الزام لگانے والے کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ شخصی اور گروہی وطبقاتی نزاعات میں اس الزام کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔‘‘

شق ’’ج‘‘ او ر ’’د‘‘ میں توہین رسالت کے مجرم کو توبہ کا موقع دیے جانے اور موت سے کم تر تعزیری سزاؤں کی گنجائش کا جو موقف پیش کیا گیا ہے، وہ طبع زاد نہیں بلکہ احادیث، آثار صحابہ اور فقہائے احناف میں سے بالخصوص امام ابویوسفؒ ، امام طحاویؒ اور علامہ شامیؒ کی تصریحات پر مبنی ہے اور بہت سے معاصر اہل علم نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ اس ضمن میں تفصیلی حوالہ جات ’’براہین‘‘ میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔

[pullquote]۱۳۔ افغان طالبان کے دفاعی جہاد کی حیثیت
[/pullquote]

الشریعہ کے اکتوبر ۲۰۱۰ء کے شمارے میں افغانستان پر امریکی حملے کے پس منظر، جواز اور اس کے خلاف طالبان کی مزاحمت کی شرعی حیثیت کے موضوع پر مختلف اہل قلم کے مابین ہونے والی ایک تفصیلی بحث شائع ہوئی تھی۔ میں نے اس بحث میں یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ کیا طالبان کا القاعدہ کی قیادت کو، ان کے عالمی منصوبوں سے واقف ہونے کے باوجود، افغانستان میں ٹھکانہ مہیا کیے رکھنا اور پھر نائن الیون کے بعد براہ راست معلومات کی روشنی میں ان کے خلاف عدالتی تحقیق کے بجائے مخالفین سے ثبوت کا مطالبہ کرنا، شرعی واخلاقی طور پر کس حد تک درست تھا اور کیا اس پوری صورت حال میں ان کے طرز عمل کو سیاست وجہاد سے متعلق شریعت کے اعلیٰ اخلاقی تصورات کے مطابق کہا جا سکتا ہے؟ اس ساری بحث کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو اپنے طرز عمل کی خامیوں اور کمزوریوں کا داخلی طور پر بھی احتساب کرنا چاہیے اور کھلے بحث ومباحثہ کی مدد سے ایسے کمزور پہلووں کی نشان دہی کرنی چاہیے تاکہ آئندہ ان کے اعادہ سے اجتناب کیا جا سکے۔ بعض حضرات نے اس کو یہ مفہوم پہنایا ہے کہ میں نے امریکی حملے کے خلاف طالبان کے حق دفاع کا ہی انکار کر دیا ہے، حالانکہ مذکورہ بحث میں ہی پوری صراحت کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ طالبان کی دفاعی جنگ بالکل جائز اور مشروع ہے اور یہ کہ دشمن اگر کھلی جارحیت کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ آور ہو جائے تو بعض عملی کوتاہیوں یا غلط فیصلوں کی بنیاد پر مسلمانوں کے حق مزاحمت ودفاع ہی کی نفی کر دینا کسی طرح بھی قرین انصاف نہیں۔ متعلقہ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
’’گیارہ ستمبر کے حملوں کے جواب میں طاقت کے بے محابا اور غیر ضروری استعمال سے ]افغانستان کے[ پوری ریاستی نظم کو تباہ کر دینے کا کوئی جواز نہیں تھا اور دہشت گرد عناصر کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے متبادل اور زیادہ حکیمانہ طریقے اختیار کیا جا سکتے تھے۔ چنانچہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر طالبان یقیناًاس کا حق رکھتے تھے اور رکھتے ہیں کہ اپنی حکومت اور اقتدار کا دفاع کریں اور اسے بچانے یا بحال کرنے کے لیے حملہ آور طاقتوں کے خلاف جنگ کریں۔‘‘ (الشریعہ، اکتوبر ۲۰۱۰ء ، ص ۱۶)

’’افغانستان پر حملے کے متعلق میرا کہنا یہ ہے کہ امریکہ القاعدہ کے ملوث ہونے کا قانونی ثبوت فراہم کر دیتا تو بھی یہ حملہ جائز نہیں تھا۔ بین الاقوامی قانون میں اس طرح کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقہ تجویز کیا گیا ہے جس کی امریکہ نے خلاف ورزی کی۔‘‘ (ص ۲۸)

’’القاعدہ کے، حملوں میں ملوث ہونے کے اثبات سے مقصود امریکی حملے کو جواز فراہم کرنا نہیں۔ قانونی طور پر طالبان کا ثبوت مانگنا بالکل درست تھا اور یہ بھی ان کا حق تھا کہ وہ ثبوت نہ دیے جانے پر بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہ کریں۔ فرض کریں، امریکہ ثبوت دے دیتا اور طالبان اسامہ کو حوالے نہ کرتے، تب بھی بین الاقوامی قانون کی رو سے حملے کا کوئی جواز نہیں تھا۔‘‘ (ص ۳۱)

[pullquote]۱۴۔ القاعدہ کی قیادت پر تنقید
[/pullquote]

راقم الحروف پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ میں نے القاعدہ کی قیادت کی شان میں ’’گستاخی‘‘ کا ارتکاب کیا ہے۔ جہاں تک القاعدہ کے قائدین کی جرات وحوصلہ، وقت کی سپر پاور سے ٹکر لینے کے عزم، امت مسلمہ کی پستی اور زبوں حالی پر اضطراب اور آسودگی وآسائش کی زندگی چھوڑ کر جنگ کا کٹھن راستہ اختیار کرنے کا تعلق ہے تو شخصی اوصاف کے طور پر یہ چیزیں یقیناًقابل تحسین ہیں، لیکن اس بنیاد پران حضرات کی اختیار کردہ منفی حکمت عملی اور امت مسلمہ کے حق میں اس کے تباہ کن نتائج سے کسی طرح صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ میرے نزدیک یہ پہلو بے لاگ اور بے رحم تنقید کا تقاضا کرتا ہے اور اسی تناظر میں، میں نے بعض تحریروں میں القاعدہ کی قیادت پر سخت لب ولہجے میں تنقید کی ہے۔ یہاں ان میں سے بعض اقتباسات نقل کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے:

’’القاعدہ اور اس قبیل کے عناصر کی اب تک کی ساری جہد وکاوش کا خلاصہ یہی ہے کہ وہ مسلم معاشرے کی تائید اور ہمدردی حاصل کرنے کے لیے نعرہ تو بلند کرتے ہیں اسلام دشمن طاقتوں کے مقابلے کا، لیکن حکمت عملی ایسی اختیار کرتے ہیں کہ ان کی سرگرمیوں، جدوجہد اور تباہ کاریوں کا سارا رخ خود مسلم معاشروں کے داخلی نظام اور ڈھانچے کی طرف ہو جاتا ہے۔ پھر جب ایک طرف امت کی مشکلات کے حل میں کوئی کامیابی نہیں ہوتی اور دوسری طرف خود مسلم معاشرے بھی اس طرز فکر کو عمومی تائید فراہم نہیں کرتے تو اس سے ایک نفسیاتی فرسٹریشن پیدا ہوتی ہے جس کا اظہار مسلم حکمرانوں اور بارسوخ فکری طبقات کی تکفیر اور عام مسلمانوں کی کم سے کم تفسیق اور تنفیق کے فتووں کی صورت میں اور جہاں موقع ملے، ان کے خلاف مسلح جدوجہد کی شکل میں ہوتا ہے۔ جذباتی لفاظی اور الفاظ کی ملمع سازی سے صرف نظر کر لیا جائے تو القاعدہ کا اب تک کا نامہ اعمال اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس نے ’’جہاد‘‘ کے نام پر نائن الیون اور سیون سیون جیسے غیر شرعی کارنامے انجام دیے جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی نہایت منفی تصویر ابھری اور امریکہ کو وار آن ٹیرر کے نام سے افغانستان اور عراق پر حملے کرنے کا موقع ملا۔ اسی کے براہ راست نتیجے کے طور پر افغانستان کی امارت اسلامیہ کا سقوط ہوا اور پھر افغانستان میں گھیرا تنگ ہونے پر ان عناصر نے پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں آ پناہ لی۔ یوں اپنے وجود اور حرکتوں سے اس علاقے کے مسلمانوں کو بھی شدید مشکلات ومصائب کا نشانہ بنا دیا۔ اور اب امت مسلمہ کے مفاد میں یہ ساری ’’خدمات‘‘ انجام دینے کے بعد ان کی نظر کرم پاکستان پر ہے اور وہ یہاں کے عوام اور اہل علم کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے امن وامان اور ریاستی وحکومتی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے اس ’’کار خیر‘‘ میں ان کا ہاتھ بٹائیں تاکہ عراق اور افغانستان کی طرح امریکہ اور عالمی طاقتوں کو یہاں بھی گھس آنے کا موقع ملے اور یوں ’’مجاہدین‘‘ امت مسلمہ کی سربلندی کا ایک اور کارنامہ اپنے نامہ اعمال میں درج کرا سکیں۔‘‘ (الشریعہ، فروری ۲۰۱۲ء، ص ۶۲۶، ۶۲۷)

’’اس تصور جہاد کے نمایاں خط وخال یہ ہیں: مسلمانوں کی ایک ریاست میں بیٹھ کر وہاں کے ارباب حل وعقد کی اجازت اور رضامندی کے بغیر ایک غیر مسلم ملک کے خلاف عسکری کارروائیاں کرنا، دشمن کی فوجی طاقت کو ہدف بنانے کی صلاحیت کے فقدان کا بدلہ دشمن کی عام آبادی کو نشانہ بنا کر لینا اور اس کے لیے احمقانہ شرعی جواز گھڑنا، چند برخود غلط جہادی نظریہ سازوں کا اپنی ذات کو لاکھوں مسلمانوں کی جان ومال سے زیادہ اہم سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو قربانی کے لیے پیش کرنے کے بجائے پوری کی پوری قوم کو جنگ کے بے پناہ مصائب وآلام کا شکار بنا دینا، عالمی طاقتوں کو اس ملک پر حملہ آور ہونے کا موقع فراہم کرنے کے بعد اپنے غیور میزبانوں کے ساتھ میدان جنگ میں ٹھہرنے اور ان کے شانہ بشانہ دشمن سے لڑنے کے بجائے وہاں سے فرار ہو کر ایک پڑوسی ملک میں پناہ لے لینا اور اس طرح اپنے وجود نامسعود سے اس ملک کے عوام اور فوج کو بھی جنگ کے شعلوں کی نذر کر دینا، پھر اپنی اور اپنے ہم نوا عناصر کی موجودگی کے خلاف اس ملک کی افواج کی طرف سے مجبوراً فوجی آپریشن کیے جانے پر پوری فوج کو مرتد قرار دینا اور اس بنیاد پر وہاں کے عوام کو اپنی ہی فوج کے خلاف برسر پیکار کر دینا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دو مسلمان ملکوں میں قتل وغارت اور فساد کی یہ ساری آگ لگانے کے بعد خود ’’شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن‘‘ کی تصویر بن کر بیوی بچوں سمیت کسی پرفضا مقام کی خفیہ سکونت اختیار کر لینا۔‘‘ (الشریعہ، جولائی ۲۰۱۳ء، ص ۳۱، ۳۲)

آخر میں اس بات کی وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ میرے مطالعہ وتحقیق کا میدان بنیادی طور پر فقہ وشریعت کے مباحث اور بالخصوص عصر حاضر کے تناظر میں ان کی تشریح وتنفیذ سے متعلق مسائل ہیں اور اس دائرے میں، میں نے اپنے طالب علمانہ فہم کے مطابق اہل سنت کی مستند علمی روایت کی روشنی میں بعض روایتی فقہی مواقف پر ازسرنو غور وفکر کی ضرورت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اعتقادی وکلامی امور بنیادی طور پر میری بحث وتمحیص کا دائرہ نہیں اور اس حوالے سے میں دور قدیم میں ’’الفقہ الاکبر‘‘ اور ’’العقیدۃ الطحاویۃ‘‘ کو، دورِ متوسط میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کے افکار کو اور اس پچھلے دور میں حضرت مجدد الف ثانیؒ اور حضرت شاہ ولی اللہؒ کی تشریحات کو بحیثیت مجموعی اہل سنت کے اعتقادی منہج کا مستند ومتوازن ترجمان تصور کرتا ہوں۔ ہذا ما عندی واللہ اعلم

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے