سدھر جاؤ پاکستانیو!

لاہور میں شاہراہ قائد اعظم نامی ایک سڑک ہے ۔اسے مال روڈ بھی کہا جاتا ہے ۔شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے لاہور سے محبت تو ہو مگر مال روڈ سے شناسائی نہ ہو۔یہ لاہور کی معروف اور اہم ترین سڑک ہے ۔اس کا ایک سرا لاہور کی فوجی چھاؤنی کو سلام کرتا ہے تو دوسرا سرا بر صغیر کے مشہور رومانوی کردار انارکلی سے منسوب بازار کے قدم چھوتا ہے ۔

اس سڑک پر فائیو سٹار ہوٹلز ،پارکس ،تفریح گاہیں،تجارتی مراکز یہاں تک کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی قانون ساز اسمبلی بھی ہے۔ایوان اقتدار اور اہم عمارات کی موجودگی نے اسے احتجاج کر نے والوں کے لیے ایک محبوب ترین جگہ بھی بنا دیا ہے۔

جو لوگ یہاں سے گزرتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وی آئی پی موومنٹ کے سبب یہاں خاصی سختی رہتی ہے ۔وہ ہلڑ بازی جو آپ سارے لاہور میں کر سکتے ہیں ،یہاں اس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔یہاں مجبورا آپ کو قانون کا احترام کرنا پڑتا ہے بالخصوص ٹریفک قانون کا ۔

اس سڑک کی خامیوں میں سے ایک بڑی خامی یہ ہے کہ یہاں ٹریفک اشاروں کے نام پر لال پیلی بتیوں کی بھر مار ہے۔جو ہم جیسے مصروف نوجوانوں کا خاصا وقت ضائع کر دیتی ہیں۔خیر ہم کتنے مصروف ہیں یہ ہم ہی جانتے ہیں۔

کچھ ہی دن پہلے اس شاہراہ سے گزر ہوا ۔چار پانچ اشارے تو خاصے تحمل کے ساتھ برداشت کیے اور خود کو ایک اچھا شہری ثابت کرنے کی ناکام کوشش بھی کی مگر آخر کب تک۔ایک اشارے سے جان چھوٹی ہی تھی کہ لاہور میوزیم والے اشارے نے آن لیا۔کچھ تنگ بھی پڑ گیا۔دوست یار ساتھ تھے ،ذرا طبیعت مچلی توان سے کہا چلو تمہیں ایک تماشا دکھاتا ہوں ۔

وہ بھی بڑے انہماک سے مجھے دیکھنے لگے کہ آخر اب کی بار میری زنبیل سے کیا نکلتا ہے۔میں نے دائیں بائیں کی ٹریفک کو دیکھا سامنے دیکھا وارڈن غائب ۔حالات ذرا مناسب لگے تو بند اشارے پر ہی موٹر سائیکل چلا دی ۔اب ہونا کیا تھا ،مجھے چلتا دیکھ کر میرے ساتھ کھڑے موٹر سائیکل سوار جو بے چینی سے اشارہ کھلنے کے منتظرتھے وہ بھی اشارے کی لال بتی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نکل لیئے ۔

اب ان کی دیکھا دیکھی ٹریفک کا ایک بے ہنگم سیلاب تھا جو ٹریفک اشارے کو توڑتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔کہنے کو یہ ایک شرارت تھی مگر اس حرکت نے مجھے ایک بات پر سوچنے کو مجبور کر دیا کہ ہم لوگ کیسی بھیڑ چال ہیں۔

حقیقت کا ادراک کیے بغیر کسی کے پیچھے چل دینا ہمارا قومی رویہ بن چکا ہے ۔آزادی سے لے کر آج تک ہماری قوم نے جو کچھ گنوایا ہے وہ اسی بھیڑ چال رویہ کے سبب ہے۔کیونکہ اب ہم اطاعت اور پیروی کے لیے نظریات کی بجائے شخصیات کا انتخاب کرتے ہیں۔

جب اقوام نظریات پرستی کو چھوڑ کر شخصیات پرستی کا شکار ہو جاتی ہیں تو ہر آن زوال انکا مقدر ہو جاتا ہے۔غلط اور گمراہ قائدین کے پیچھے یوں آنکھیں بند کر کے چلنے نے ہمیں تباہی کے اس دھانے پر لا کھڑا کیا ہے جہاں کوئی فرستادہ خدا اور پختہ انقلاب ہی ہماری نجات کا ضامن ہو سکتا ہے۔

مگر سچ پوچھیں تو میں ان مایوس کن حالات میں بھی بڑا پر امید ہوں مجھے لگتا ہے کہ یہی بھیڑ چال رویہ ہی ایک دن ہمارے شب و روز بدل دے گا۔یہ قوم جو غلط لوگوں کی اندھا دھنداطاعت کر کے اس حال کو پہنچی ہے ۔جس دن اسے ایک صحیح لیڈر مل گیا تو اس قوم کو اس منزل تک جانے سے کوئی نہیں روک سکے گا جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا۔

مگر رکیئے !!!!!

سوچنے کی بات یہ کہ وہ لیڈر آئے گا کہاں سے ۔آسمان سے نازل ہوگا یا پاتال کی تہہ سے نکلے گا۔جب ہم پوری قوم ہی ذہنی طور پر کرپٹ ہو چکے ہیں ۔ایسے حالات میں کسی اچھے لیڈر کا آنا ایک معجزے سے کم نہیں ہو گا اور معجزے کی آس پر اپنے شب و روز کو یوں برباد کر دینا کوئی عقلمندی تو نہیں لہذا ہم سب کے لیے ایک ہی مشورہ ہے کہ

"سدھر جاؤ پاکستانیو! اپنے حالات کو خود بدلنا سیکھو کیونکہ خدا بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت خود نہیں بدلتی”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے