” وکلاء کا کالا لباس..”

سقراط کے سامنے ایک صاحب نہایت اعلیٰ لباس زیب تن کر کے آئے. سقراط نے کہا: ‘کچھ بولیے تاکہ آپ کی قابلیت معلوم ہو’.

اس میں دو رائے نہیں کہ کہ لباس انسان کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے. لیکن لباس فطرت کے اصولوں کے خلاف ہو تو انسانی عقل پر سوال ضرور اٹهتا ہے _

سخت ترین گرمیاں، تیز مچلتی دهوپ میں جب اکثر وطنِ عزیز کا پارا چالیس اور پچاس ڈگری سے بھی شوٹ کر جاتا ہے تو اس وقت بھی ضلعی کچہریوں میں کهلے آسمان تلے ‘سوٹ’ میں ملبوس ہونا کسی عجوبے سے کم ہونا نہیں معلوم ہوتا_

فزکس کے مطابق کالا رنگ گرمی absorb کرتا ہے. دوسرا انسانی جسم سے خارج ہونے والی radiation کی اپنی حدت ہوتی ہے. دونوں مل کر انسانی جسم کا درجۂ حرارت مزید بڑها دیتی ہیں_

1810 میں برطانیہ میں متعارف کروائے جانے والے کوٹ یونیفارم یا بزنس سوٹ آج بھی ہمارے ہاں پچاس ڈگری درجۂ حرارت میں بھی پہننا لازم ہے. یہ ذہنی غلامی کی بدترین مثال ہے. لطف کی بات یہ ہے کہ گورے خود بھی گرمیوں میں یہ لباس زیب تن نہیں کرتے. پاکستان بار کونسل کو اس حوالے سے غور و فکر کرنا چاہیے.

جس طرح گرمیوں میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں گاؤن کی شرط ختم کر دی جاتی ہے اسی طرز پر گرمیوں میں ضلعی کچہریوں میں at least ٹائی اور کوٹ کی شرط ختم ہونی چاہیے. ویسے بہتر تو یی ہے کہ گرمیوں میں سفید شلوار قمیض کو dress code قرار دیا جائے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے