خارجہ پالیسی اور بنارسی ساڑھی

اقوام عالم میں دوستیاں بنارسی ساڑھیوں پر مضبوط ہوتی ہیں نہ شادی کی تقریب میں نریندر مودی کی شرکت سے فرق پڑتا ہے۔ممالک کی سطح پر دوستیاں مفادات پر بنتی ٹوٹتی اور مضبوط ہوتی ہیں، ہمارے مشیر خارجہ سرتاج نے جب یہ کہا کہ نوشکی حملہ سے پاک امریکہ فرینڈشپ کو نقصا ن پہنچا تو مجھ سمیت کئی لوگ محو حیرت ہوئے ہوں گے ، امریکہ سے ہماری دوستی تھی کب ۔۔ جسے نقصان پہنچا ہے۔۔ لیکن ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے پالیسی ساز اور پالیسیوں پہ اثر انداز ہونے والے ملکی سطح کے فیصلوں میں بھی اپنے مفاد کو مد نظر رکھتے ہیں۔۔ اسی لئے ہمیں کبھی امداد کے نام پر ڈالروں سے بہلایا اور ڈی ٹریک کیا جاتاہے ۔۔ پھر پریسلر ترمیم کے نام پر کٹ لگ جاتاہے۔۔ ضرورت پڑتی ہے تو کولیشن سپورٹ فنڈز، دہشتگردی کے خلاف جنگ کیلئے مالی معاونت اور ایف سولہ سمیت دیگر سبز باغ دکھا کر اپنی پالیسیوں کی آبیاری کی جاتی ہے۔۔ اور جب وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں گھی سیدھی انگلی سے نکلنے والا نہیں تو پھر اسامہ بن لادن ایسے آپریشن، کبھی فاٹا اورکبھی بلوچستان میں ڈرون گرا کر کالک ہمارے منہ پر مل دیتے ہیں۔۔حکومتوں اور وطن عزیز کی حفاظت پر مامور ذمہ داران کے پاس قوم کے مطمئن کرنے والا کوئی جواب بھی نہیں ہوتا کہ امریکی ہیلی کاپٹر ایک ایسے شہر میں کیسے آئے اور کارروائی کرکے کیسے چلے گئے جہاں حربی ہنر سکھایا جاتاہے۔۔سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ کلھوشن یادیو کے پکڑے جانے اور بھارتی سازشوں کے بارے میں امریکہ اور عالمی برادری کو ثبوت دے رہے ہیں۔۔یہ وہ مکا ہے جو لڑائی ختم ہونے کے بعد یاد آیا ہے۔۔ جس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ جب بعد میں یاد آئے تو ایسا مکا اپنے منہ پر مارنا چاہیے ۔

وزیراعظم نواز شریف اسی کلبھوشن یادیو کے پکڑے جانے پر تب خاموش رہے جب دنیا بھر میں بھارت کو بے نقاب کرنے کا موقع تھا، میڈیا پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے بعض ثبوت شیئر کرنے اور خود کلھبوشن یادیو کے اعترافات کے باوجود خاموش رہے۔۔جب صحافیوں نے بھارتی فوجی افسر پکڑے جانے کے بارے میں لندن پہنچنے پر نواز شریف سے سوال کیا کہ آپ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ آپ خاموش ہیں تو میاں صاحب بولے کہ جب متعلقہ حکام نے سب کو بتا دیا تو میں اور کیا بولتا ۔۔ ہم تو ہر طرح کی دہشتگرد ی کے خلاف ہیں اورپڑوسیوں سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔۔اور پڑوسی ہیں کہ بھارت میں کہیں پٹاخہ بھی پھٹ جائے تو ان کے وزرا تک میڈ یا پر آ کر آئی ایس آئی اور حافظ سعید کو ملوث کر دیتے ہیں۔۔ پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملہ ۔۔ بھارتی پروپیگنڈا ۔ دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنا اور پھر دنیا بھر کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے بعد پاکستان کو کلیئرنس چٹ دینا اس بات کا ثبوت ہے ۔۔

ہم نہ بھی ملوث ہوں تو ملوث ہیں وہ پکڑے بھی جائیں تو ہم اس شدت سے بھارت کو کٹہرے میں نہیں لا رہے جس شدت سے وہ دنیا پر اپنا جھوٹ بھی سچ ثابت کر دیتا ہے۔۔امریکی کانگریس سے خطاب میں نریندرمودی نے پاکستان کے خلاف کیا کچھ کہا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔۔ حیرت اور شرم کی بات تو امریکی صدر بارک اوبامہ کا بیان ہے جس میں امریکی صدر نے پاکستان سے دوستی کے دعووں کی خود دھجیاں اڑائیں۔۔۔ اوبامہ کاکہنا تھا کہ پاکستان پٹھان کوٹ ایئر بیس حملے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے۔۔اسے یہ بات کون بتائے کہ جس پٹھان کوٹ کی بات آپ کررہے ہیں اس کے بارے میں تو خود بھارت پاکستان کو کلین چیٹ دے چکا ہے ۔۔ پھر بھی پاکستان کا نام لینے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا ۔۔نریندر مودی کے پیٹ میں مروڑ تو پاک چائنہ اقتصادی راہداری اور پاک چین دوستی کی وجہ سے اٹھ رہے ہیں۔۔ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پاکستان سے دوستی ۔۔ گوادر تک پہنچ اور پاکستان کو معاشی اور دفاعی طور پر مضبوط کرنا خود چین کے بھی مفاد میں ہے۔۔ اور پاکستان کو بھی چین کی اتنی ہی ضرورت ہے اس لئے تائیوان کا مسئلہ ہو یا چین بھارت سرحدی تنازعہ پاکستان نے ہمیشہ کھل کر چینی موقف کی حمایت کی۔۔لیکن سابق وزیراعظم لیاقت علی خان سے روس کو چھوڑ کر امریکہ سے دوستی کی جو غلطی ہوئی تھی ۔۔ اس کے پیش رو وہ غلطی بار بار دہراتے چلے گئے۔ہمیں کئی بار تاریخ نے امریکہ سے نام نہاد دوستی کا دامن چھڑا نے کے مواقعے فراہم کئے۔۔ہم بھی مفاد پر مبنی دوستی کریں لیکن ہمیں تب عقل آئی جب ہم امریکی بحری بیڑے کے انتظار کرتے رہ گئے۔۔ نہ تب عقل آئی جب ہم افغانستان پر حملہ میں جس ملک کے غیر مشروط اتحادی بنے اسی ملک نے ہمارے دشمن ملک بھارت سے سول ایٹمی ٹیکنالوجی کا معاہد ہ کرلیا۔۔ ہم التجائیں کرتے رہ گئے کہ ہمارے ساتھ بھی معاہدہ کرلیں۔۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور بھارت دوستی چین کے خلاف اور پاک چین تعلقات کی بنیا د پر ہے۔۔ افغانستان تو خیر ایک اجڑی بیوہ جسے خطے کے اوباش عذت سے رہنے ہی نہیں دیتے ۔۔ افغانیوں کی اپنی حماقتوں نے بھی کبھی روس کے حملہ آوروں سامنے لاکھڑا کیا ۔۔ اورکبھی نظام کی خرابیوں نے افغانیوں کو ایک نہیں ہونے دیا اور امریکہ کو وہ میدان مل گیا جس کا وہ ایک عرصہ سے سٹرٹیجک پلان بنائے بیٹھا تھا۔۔مشرف کا فیصلہ برا تھا، نواز شریف کی دوستیوں کے اندازے غلط تھے ، یا پس پردہ پالیسی سازوں کی توقعات پوری نہیں ہوئیں۔۔ اب اس بحث میں الجھنے کا وقت نہیں ہے۔۔خارجہ پالیسی کی سمت درست کرنے کیلئے ہمیں صرف چین اور ترکی سے دوستی پر اکتفا کی بجائے ۔۔

ایران ، افغانستان ، سعودی عرب سے خارجہ سطح پر ایسے تعلقات استوار کرنے ہیں جن کی بنیاد پر برارز اسلامی ممالک کو بھی فائدہ پہنچے اور امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کا بھی سٹرٹیجک توڑ کیا جا سکے۔۔ہمارے پالیسی سازو ں کو اب ڈالر گیم سے باہر آنا ہوگا ۔۔ہم نے پارہ چنار میں پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملے کے بعد امریکہ اور نیٹو افواج کی راہداری روک کر سخت موقف اپنایا تو ایک عرصہ تک ڈرون حملے بھی رک گئے تھے۔۔ اب اگر پاک فوج میں اعلیٰ سطح سے رچرڈ اولسن اور جنرل نکولس کو یہ پیغام ملاہے کہ علاقائی سلامتی پراب سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا ۔۔ یا بھارت اور افغان خفیہ ایجنسیوں کو دہشتگردی پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی تو پھر اس پر قائم رہنا ہی ہماری بقاء اور سلامتی کی ضرور ت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے