داڑھی اور شلوار کا قصہ

یہی وہ نکتہ ہے جس پر میں بار بار زور دیتی ہوں کہ اپنے مخالفت نظریات کو بھی وقعت دینا سیکھیں. خود کو ہی حق پر مت سمجھیں. دنیا کا کوئی نظریہ یا نظام آخری اچھا اور سچا نظام نہیں ہے. ایسا خیال کر لینا اپنے اوپر علم اور نشوونما کے دروازے بند کر لینے کے مترادف ہے. یہ انتہائی سماجی رویوں کی ترویج کا بھی سبب ہے. باہمی احترام اور رواداری جو ایک دوسرے کے نقط نظر کو سمجھنے کی کوشش کرنے اور ناقد نقطہ نظر کو سپیس دینے سے حاصل ہوتی ہے پر امن سماجی تعلق کی پہلی شرط ہے.

ہمارا نظام تعلیم چاہے وہ مدرسے کا ہو یا مکتب کا ایسا ہونا چاہیے جس میں mono ideology فوکس نا ہو. مخلوط نظریات و مظاہر کو غیر جانبداری سے پیش کرتے ہوئے اس کے مثبت و منفی پہلو اجاگر ہونے چاہیں. جب تقابل، موازنہ اور اینٹی تھیسز ہو گا تو فرد کی نفسیات میں ہٹ دھرمی، انتہا پسندی اور self rightness کے عناصر مفقود ہوں گے.

ماروی سرمد اور مولانا صاحب دونوں کا ہی رویہ قابلِ ستائش نہیں ہے. ماروی سرمد کو البتہ اتنی سی چھوٹ دی جا سکتی ہے کہ ابتدا اسکی طرف سے نہیں ہوئی. مولانا بیرسٹر صاحب کی دروغ گوئی پر اپنے اعصاب پر قابو نا رکھ سکے اور ماروی کو نقطہ نظر پیش کرنے سے روکنے لگے. دو دفعہ ویڈیو دیکھ کر مجھے یہی محسوس ہوا کہ مولانا صاحب communicate skills کی کمی کے باعث behavioral collapse کا شکار ہوئے ہیں. لیکن یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ انہوں نے بیرسٹر صاحب کی بجائے ماروی صاحبہ کو ہی قابلِ گرفت کیوں سمجھا؟ اس کے پیچھے بھی پوری سائنس ہے جو نظریات کے نفسیات میں نفوذ ہو کر adopted behavior کہ صورت میں ظاہر ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے.

رویہ مکمل طور پر ایسی شے ہے جسکی تربیت ہو سکتی ہے اور جسے پریکٹس سے سیکھا اور بدلہ جا سکتا ہے. لیکن یہ پریکٹس کہاں ہو؟ یقیناً ان تعلیمی اداروں میں جہاں سے ہم سب زندگی جینے کے طریقے سیکھنے جاتے ہیں اور اب جنکا نمبر بطور تعلیم و تربیت کے ماخذ گھر سے پہلے آتا ہے. کیا ہمیں وہاں یہ سہولت میسر ہے؟

مکاتب میں ہمارے اساتذہ چاہے کتنے ہی دقیانوس یا جدید علوم اور تعلیمی مہارتوں سے بے بہرہ ہیں. لیکن سیکھنے والوں کے لیے وہاں پھر بھی کچھ نا کچھ سامان موجود ہے. اردو لٹریچر، انگلش لٹریچر، لائبریری کی کتب، ٹی وی ڈرامہ، فلم، سائنس کی کتب یہ وہ سب دروازے ہیں جن کے زریعے ہمیں اپنا علمی کینوس بڑا کر کے کچھ نا کچھ ذہنی وسعت پیدا کر لیتے ہیں جو ہمارے متحمل رویے کی صورت اجاگر ہو جاتی ہے. لیکن مدارس کی صورت حال کیا ہے؟ وہاں کے طالب علم کی شخصیت پالش کرنے کے لیے کن ذرائع اور کن حوالوں کا استعمال کیا جاتا ہے؟ سوائے کراچی، اسلام آباد اور دیگر چند ایک بڑے مدارس کے جہاں جدید تعلیم کا انتظام ہے باقی چالیس پینتالیس ہزار مدارس بنیادی اسلامی تعلیم جو کہ خالص احکامات سے آگاہی کی تعلیم ہے اور mono ideology کی سختی سے مقلد ہے پر ہی تکیہ کیے ہوئے ہیں. ہر قسم کی دیگر اخلاقی و دنیاوی تعلیم انہوں نے خود پر حرام قرار دے رکھی ہے. نصاب کے علاوہ ایسی غیر نصابی سرگرمیاں بھی وہاں ممنوع ہیں جو کسی قسم کی تربیت میں حصہ لے سکتی ہیں. ہم مدارس کے نظام تعلیم پر انگلی اٹھا کر ترامیم اور اصلاحات کی بات کرتے ہیں تو ہمیں مذہب دشمن کہا جاتا ہے.

مذہب زندگی کے مخصوص پہلوؤں پر ہماری رہنمائی کرتا ہے لیکن بہت سے دنیاوی معاملات ایسے ہیں جن میں مہارت حاصل کرنے کے لیے ماہرین کے ان تربیتی course and discourse سے رہنمائی لینے کی ضرورت پیش آتی ہے جو انہوں نے مختلف سائنسی و نفسیاتی تجربات conduct کر کے اخذ کیے ہیں. ہماری خواہش اتنی ہے کہ فقہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مدارس میں زیر تعلیم طلباء کاز اینڈ ایفیکٹ کے ذریعے behavioral and evolved پہلوؤں کے متعلق جدید تعلیم و تربیت بھی حاصل کریں. یہ انہیں عملی زندگی میں بہتر طریقے سے ایڈجسٹ کرنے اور بہتر اور قابلِ تقلید انسان بننے میں مدد کرے گا. کیا مدارس میں پڑھتے ہمارے ہم نفس ہم وطنوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مخصوص سماجی موقع پر دانشمندی سے کم از کم communication tactics سے ہی آگاہی حاصل کر لیں اور جان لیں کہ گفتگو کے اداب کیا ہیں. کسی کی بات کاٹنا،اسے بات مکمل نا کرنے دینا کتنا نامعقول رویہ ہے، دوران گفتگو دروغ گوئی کے بغیر محض استدلال اور اخلاقی پریشر سے ہی فریق کو چت کیا جا سکتا ہے. اور اڑتے جہازوں کو چپلیں مارنا کوئی قابلِ فخر فعل نہیں. قرآن کی تعلیم کے ساتھ The Home مووی دیکھنا بہت سود مند ہے کیونکہ اس میں حقیقی دوستی اور باہمی روابط کو بہت اچھے طریقے سے پورٹریٹ کیا گیا ہے.

اگر مدارس میں ایسی تربیت و مخلوط تعلیم کا انتظام ہو جائے تو ہمارے مرر و زن ایک دوسرے کو دیکھ کر اپنے عصبی نظام میں اتنے اجڈ طریقے سے ہیجان محسوس نا کریں. مشہور زمانہ Shuttle and cage تجربے کے مستند شدہ نتائج کی روش میں ڈیزائن کردہ کلاس روم یا تربیتی ماحول فراہم کرنا سود مند ہے رہے گا جہاں مشرق و مغرب نظر آنے والی یہ مخلوق (مرد و زن) جو اصل میں ایک دوسرے کا جز اور پرتو ہیں بار بار ایک دوسرے کو سامنے دیکھ کر، ایک دوسرے سے ڈیلنگ کر کے، ایک دوسرے سے communicate کرنے کے مختلف مگر جذباتی و عصبی حوالوں سے کنٹرولڈ طریقے دریافت کرکے اچھے طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنا سیکھ جائیں گے. کچھ بعید نہیں کہ پھر معتبر حلقے ماروی سرمد کو بھی ایسے اداروں میں تعلیم کے لیے بھیجنے کی ضرورت محسوس کریں.

ماروی صاحبہ مولانا کی داڑھی کو کوس رہی تھیں اور مولانا انکی شلوار کو. میں سوچ رہی ہوں کہ لندن جہاں بقول ہمارے اسلامی بھائیوں کے مساجد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے. وہاں کی ماروی سرمد داڑھی والوں کو کسے tolerate کرتی ہو گی اور وہاں کا داڑھی والا ملکہ برطانیہ کی منی سکرٹ اور لال سوہی لپ اسٹک سے کیسے نمبٹا ہو گا؟
یہ سب سماجی رواداری اور behavioral learning phenomenon کا گیم ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے