لوہار کی نہ سہی سنار کی تو سن لیجئے .

ایک طرف ہماری پارلیمان میں تیسرے درجے کے جگت باز بیٹھے ہوئے ہیں تو دوسری طرف پارلیمان سے باہر بھی ایک مافیا بیٹھا ہوا ہے جو ہر واقعے میں سے مذہب دشمنی اور عورت دشمنی نکالنے کے لئے خوردبین فٹ کئے ہوئے ہے ۔ بس اسے داڑھی اور اسلام نظر آجائے ، پھر اس کی پھرتیاں دیکھئے کیونکہ اس طبقے کو پراجیکٹ ہی اسی بنیاد پر ملتے ہیں ۔

ان پراجیکٹ والوں "مسیحاوں ” کو سہہ پہر سوج ڈوبنے سے پہلے والے منظر میں 30 بندے ، 10 پیلکارڈ اور دو درجن موم بتیاں چاہیے ہوتی ہیں کیونکہ اس وقت ویڈیو بھی اچھی بنتی ہے اور ڈوبتے سوج کے ساتھ تصویر کشی کا تو کیا ہی کہنا ۔

عموما ان مظاہروں کی ترتیب کچھ اس طرح کی ہوتی ہے جو میں نے گذشتہ 12 برس میں اسلام آباد میں این جی اوز کے مظاہروں میں دیکھی ۔ 10 ادھیڑ عمر خواتین ، 5 جوان العمرخواتین ، 3 چھوٹی بچیاں ، شلوار کرتے میں ملبوس 2 کم سن لڑکے ، 3 جوان لڑکے ( جو موٹر سائیکل پر پلیکارڈ اور درمیانے سائز کی 2 درجن موم بتیاں لیکر مظاہرے سے پہلے پہنچ جاتے ہیں ، عموما یہ گھر میں کام کرنے والے ملازم ہوتے ہیں ) 4 بوڑھے مرد جو لاٹھی کے سہارے آتے ہیں اور تین جوان مرد جو عموما گاڑیاں ڈرائیو کرتے ہیں ۔

جس طرح مذہب کو سب سے زیادہ نقصان اہل مذہب نے پہنچایا ہے ، اسی طرح بعض مقامات پر عورت ہی عورت کی دشمن بنی ہے ۔ کہیں جہالت ، کہیں غصہ ، کہیں خوف اور کہیں رقابت ، حال ہی میں ہونے والے انتہائی افسوسناک حادثات پر زرا غور فرمائیے۔

اس ظلم میں کوئی اور نہیں تھا بلکہ کہیں ماں تھی ، کہیں ساس تھی ، ایک جگہ نند تھی ، ایک جگہ پہلی بیوی تھی ، ایک جگہ غنڈوں کا جرگہ تھا اور بے بس ماں نے اپنے بیٹے اور خاوند کو بچانے کے چکر میں بیٹی کو قربان کر دیا ۔ ایک جگہ ماں نے اپنی دو بیٹیوں سمیت تیزاب پی لیا ۔ ملتان میں 12 ربیع الاول کے روز جب شہر میں لاکھوں روپے کی مالیت سے تیار ہونے والا کیک کاٹا جا رہا تھا ، ٹھیک اسی وقت ایک باپ نے جگ میں دو گلاس شربت بنائی ، اس میں زہر ڈالا ، بیٹی نے کہا

بابا بھوک لگی ہے تو باپ نے کہا کہ یہ شربت پی لو ، اس سے تمھاری بھوک ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی ۔ باپ بیٹی نے شربت کا گلاس اٹھایا ، پیا اور دونوں کی بھوک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی ۔دونوں مر گئے تھے ۔

ہم ایک ذہنی اور نفسیاتی بیمار معاشرے کے باسی ہیں جہاں ان تمام واقعات کی وجوہات اور اسباب کچھ اور ہیں ۔ یہاں ایک شخص ہوٹل میں کھانا کھانے کے بعد 5000 روپے ٹپ دے دیتا ہے لیکن اس کے پڑوس میں غریب روٹی نہ ملنے پر زہر کھا لیتے ہیں ۔ مجھے منظر نہیں پس منظر دیکھنا ہے اور جب بھی پس منظر دیکھتا ہوں تو مجھے اس معاشرے کا مکروہ چہرہ ہی دکھتا ہے جو ناقابل بیان ہے ۔

یہاں موقع ملتے ہی جعلی دانشوروں کو غرانے اور دندنانے کا موقع مل جاتا ہے ۔ سوشل میڈیا پر اکاونٹ بنانے کے بعد سب سے پہلا شوق جو چڑھتا ہے وہ دانشوری کا ہوتا ہے۔ ان کی دانشوروں کی دانشوری بھی ذژہن پر ہلکا پھلکا تشدد ہی ہے ۔

ایک ارسطو نے لکھا کہ چار عورتوں کو زندہ جلانے پر کوئی نہیں نکلا تاہم اگر کوئی نوارانی قاعدہ جلا دیتا تو سب سڑکوں پر ہوتے ۔

[pullquote]میرے بھائی

چار عورتوں کو جلانا بھی جہالت ہے اور درندگی ہے اور نورانی قاعدہ جلانا بھی جہالت اور ہٹ دھرمی ہے۔ اس طرح کے کام کوئی پست اور بیمار ذہنیت ہی کر سکتی ہے ۔ اس پست ذہنیت میں سے ایک کے خلاف بولنا اور دوسرے کو چھوڑ دینا بھی ذہنی پستی اور بیماری کی علامت ہے ۔[/pullquote]

ایک سقراط کے ٹھنڈے خون نے جوش مارا اور لکھا کہ عافیہ صدیقی کے لیے مظاہرے ہوتے ہیں لیکن 300 لڑکیوں کو زندہ جلانے پر کوئی مظاہرہ نہیں ہوا، تو میں نے عرض کی جس طرح آپ عافیہ صدیقی کے معاملے میں بے غیرتی کا مظاہرہ فرما رہے ہیں ، اسی طرح وہ ان تین سو لڑکیوں کے بارے میں بے غیرتی فرما رہے ہیں اور میں نے دونوں کو انچی ٹیپ لیکر پورا ماپا ہے ،ماشاء اللہ دونوں گائے سوپ کی چاکی کی طرح برابر کے بے غیرت ہیں ۔ ایک انچ کم نہ زیادہ ،

کچھ شہوت پرست خود کو لبرل کہتے ہیں ، ان کی ایک ہی خواہش ہے کہ انہیں عورت اور شراب سرعام ملے اور سر بازار ملے ، انہیں روکنے والا کوئی نہ ہو ۔ یہ لبرل ازم نہیں بلکہ بے غیرتی ہے ۔ میں یہاں لنڈے کے اور دیسی لبڑل اس لیے نہیں لکھ رہا کہ رامش فاطمہ ناراض ہو جائے گی لیکن نسیم کوثر نے ان جعلی لبرلز کی خوب کلاس لی ہے ۔

اسی طرح کچھ ملاں یہ سمجھتے ہیں کہ لبرل اور سیکولر ملک میں زنا اور شراب کے اڈے کھولنا چاہتے ہیں کیونکہ پاکستان میں جن لوگوں نے سیکولر ازم اور لبرل ازم کی چادر اوڑھی ،انہوں نے لبرل ازم اور سیکولر ازم کا وہی تعارف پیش کیا جو ملاں سمجھتا ہے۔

اسی طرح کچھ فرقہ پرست اور دہشت گرد مشٹنڈے سیکولر ازم کا لبادہ اوڑھ کر تکفیری ،وہابی ، سنی ، شیعہ کے فتوے بانٹتے پھر رہے ہیں ۔ ان کا زہر باہر نکلنے کے بجائے خود انہی کو ڈس رہا رہا ہے اور وہ اپنے زہر میں ہی گھل گھل کر مر رہے ہیں ۔

پاکستان میں سیکولرازم کی توانا آوازوں میں وجاہت مسعود ، پرویز ہود بھائی ، عامر رانا ، ڈاکٹر جعفر احمد اور ڈاکٹر اے ایچ نئیر جیسے لوگوں کی شکل میں موجود ہیں ،ان سے حمایت بھی کی جاسکتی ہے اور اختلاف بھی ، وہ تو کبھی ان مغلظات کی حمایت نہیں کرتے ۔

سیکولر ازم اور لبرل ازم ایک قدر کا نام ہے ، وہ قدر معاشرت کو مضبوط اور منظم بناتی ہے ۔ اگر کوئی ماروی سرمد ٹائپ کو سیکولر اور لبرل سمجھتا ہے اور تو اسے قریبی دیوار کے ساتھ سر مارنا چاہیے اور اگر ممکن ہوتو لبرٹی کے سامنے سمارٹ ہوٹل سے چھلانگ لگا دے تو اس ملک کے شہریوں پر اس کا احسان ہو گا ۔ جہالت کو مکمل آزادی ہے کہ وہ جس چوک پہ چاہے ، برہنہ رقص شروع کر دیتی ہے ۔

[pullquote]شیریں مزاری صاحبہ جب تک مولانا فضل الرحمان صاحب کو ڈیزل کہتی رہیں ،عمران خان صاحب کے ڈیزل کہنے پر تالیاں بجاتی رہیں ، اس وقت تک کو سب ٹھیک تھا لیکن جب شیریں مزاری صاحبہ کو خواجہ آصف نامی مقامی فنکار نے ٹریکٹر ٹرالی کہا تو سب غلط ہو گیا ۔ [/pullquote]

کیسے ہو گیا بھائی ؟ زرا مجھے سمجھا دو ۔تم کرو تو رقص ، خواجہ آصف کرے تو مجرا ،،، کیسے ؟ اگر ڈیزل ، ڈیزل کہنا ٹھیک ہے تو ٹریکٹر ٹرالی کہنا بھی ٹھیک ہے ۔ اگر ٹریکٹر ٹرالی کہنا غلط ہے تو پھر ڈیزل کہنا بھی غلط ہے ۔ معذرت کےساتھ ، یہ پارلیمینٹ نہیں بلکہ درجہ سوم کے جگت بازوں کی منڈی ہے۔

[pullquote]تحریک انصاف کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے جب مریم نواز شریف کی تصویر پر 72 سیٹر ڈبل ڈیکر بس لکھا تو کسی کو عورت کی توہین کا احساس نہ ہوا ۔ کیا عزت صرف اپوزیشن کی عورت کی ہوتی ہے ۔ [/pullquote]

اسی طرح بیرسٹر مسرور صاحب ، مولانا شیرانی صاحب کو چرسی کہیں اور مولوی سرمد اس بات کی تائید کرے ، وہ رکن پارلیمیںٹ کو ٹی وی پر بیٹھ کر ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں دے ، وہ سینیٹرکو چل اوئے کہہ کر مخاطب کرے ، وہ حافظ حمد اللہ کو کہے کہ "میں تمہں داڑھی سے پکڑ کر کھینچوں گی” اس کے جواب میں حافظ حمد اللہ شلوار اتارنے کی گالی دے تو پھر سارا الزام حافظ حمد اللہ غلط ہو جاتا ہے ۔ کچھ دو ماہ گذرتے ہیں کہ جب ایکسپریس میں جاوید چودھری کے پروگرام میں ماروی سرمد نامی عورت مفتی کفایت اللہ کو کہا ملاں ، میں تمھارے بڑے ملاں فضل سے بھی نہیں ڈرتی ۔ کوئی طوفان نہیں اٹھا ۔
دو بکواسات ہیں، ان میں سے ایک ٹھیک کیسے ہو گیا اور دوسرا غلط کیسے ہو گیا ؟

اگر چرسی کہنا ٹھیک ہے تو گالیاں دینا بھی ٹھیک ہے ۔ اگر چرسی کہنا غلط ہے تو گالیاں دینا بھی غلط ہے ۔ اب آپ کہیں گے کہ عورت کو تو گالی نہیں دینی چاہیے ، ارے بھائی جب عورت اور مرد برابر ہیں تو عزت بھی سب کی برابر ہے اور گالیاں بھی برابر ملی گیں۔

[pullquote]جمال عبداللہ عثمان صاحب نے فرمایا "ماروی سرمد صاحبہ جس کی ساری زندگی تلاش رہی، حمداللہ صاحب نے چند لمحوں میں انہیں وہ سب عطا کردیا”۔ [/pullquote]

2001 میں پشاور یونی ورسٹی میں ایک خاتون امریکا سے آئیں،ڈاکٹر رفعت نام تھا غالبا ، ، روشن خیال اعتدال پسند پاکستان کے سلسلے میں ان کا لیکچر شیخ زید اسلامک سنٹر میں رکھا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا معاشرہ اتنا گھٹیا ہے کہ دو مردوں کی لڑائی ہوتی ہے لیکن گالی عورت کو دی جاتی ہے ۔

میں کھڑا ہو گیا ۔ استاذ مکرم جناب پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب (پشاور یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر ) پروفیسر ڈاکٹر معراج الاسلام ضیاء صاحب ، پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد خان صاحب بھی پروگرام میں موجود تھے ۔ ڈاکٹر دوست محمد صاحب نے مجھے سوال کرنے سے روکا ۔ لیکن اس وقت مجھ میں ” میں ” بھی بہت زیادہ ہوتی تھی ۔ میں نے بولنا شروع کر دیا ۔

میڈم ۔ دو مرد جب لڑتے ہیں تو گالی عوت کو نہیں ، ایک دوسرے کی ماں ، اور بہن کو دیتے ہیں ۔ انہیں علم ہوتا ہے کہ اس کی ماں اور بہن کا گالی دوں گا یہ زیادہ مشتعل ہو گا۔ وہ دوسرے کو زیادہ مشتعل کرنے کے لیے ماں اور بہن کی گالی دیتے ہیں ۔ انہیں پتا ہے کہ اس کو باپ کی گالی دو ، بھائی کی گالی دو ، اسے گالی دے دو ، اس نے اتنا مشتعل نہیں ہونا ،جتنا ماں اور بہن کی گالی پر مشتعل ہوگا۔

اورمیڈم یہ گالی عورت کو نہیں دی جاتی ، اس کے سب سے حساس ترین رشتے کو دی جاتی ہے جس رشتے کے خلاف وہ کوئی بات سننا برداشت نہیں کرتا اور نا ہی کبھی سن سکتا ہے ۔ میڈم آپ غلط سمجھی ہیں ۔ یہ اس ماں اور بہن کے انتہائی احترام کی وجہ سے گالی دی جاتی ہے تاکہ دوسرے مرد کے جذبات اور احساسات کو مجروح کیا جاسکے ، پامال کیا جا سکے ، اسے پاگل کر دیا جائے ،اسے اس حد تک بے حواس باختہ کر دیا جائے کہ اس کا میٹر گھوم جائے ۔ یہ غلط ہے یا ٹھیک ، الگ بحث ہے لیکن اس کی وجہ رشتے کا تقدس اور احترام ہے ۔

پورے ہال میں تالیاں بجیں ، یہاں تک کہ لڑکیوں نے بھی تالیاں بجائیں ۔ ڈاکٹر شازیہ بابر ، جو مرحوم جنرل نصیراللہ بابر کی بھتیجی ہیں اور ہماری انگریزی کی استانی ، انہوں نے مجھے باہر نکل کر کہا ، سبوخ ، تم بولتے بھی ہو ؟ ( میں ان کی کلاس میں خاموش رہتا تھا کہ کہیں مجھ سے وہ کچھ پوچھ ہی نہیں بیٹھیں ) میری انتہائی قابل احترام اور گریٹ ٹیچر

بات چل رہی تھی ، عورت اور مرد کی برابری کی ۔ مرد اور عورت جنسی ساخت میں مختلف ہیں ، حقوق میں ایک جیسے ہیں لیکن ہمارا معاشرہ (یہاں معاشرے سے مراد تہذیب یافتہ لوگ ہیں ، تعلیم یافتہ تو اللہ بخشے مخدوم امین فہیم بھی تھے جنہوں نے اپنی بہنوں کی شادی قرآن سے کروا دی تھی لیکن عورتوں کے حقوق کے بڑے علمبرادر تھے ، اللہ ان کی مغفرت فرمائے ، آمین ) خواتین کو جو عزت اور مقام ہمارا معاشرہ دیتا ہے ، کسی اور جگہ وہ دیکھنے کو بھی نہیں ملتا ۔ ہماری خواتین ہمارا مان ، ہمارا وقار ، ہماری شان ہیں ۔ ہماری تمام عزتیں انہی کے دم قدم سے آباد ہیں ۔ ہم ان کی عزت کی حفاظت نہیں کرتے بلکہ وہ ہماری عزتوں کی حفاظت کرتی ہیں ۔ ہماری ماوں نے ہمیں جنا ، ہماری بہنوں نے اپنی جان سے بڑھ کر ہمارا خیال رکھا ، ہماری بیٹیاں اپنی ذات کو ہماری بات کے آگے قربان کر دیتی ہیں ۔(کاش کبھی ہم ان کی بھی سن لیا کریں، ہم چائے کا ایک کپ بھی کسی ایسے شخص کے ساتھ نہیں پیتے جس کے ساتھ ہمارا من نہیں کرتا لیکن جب بہن اور بیٹی کی شادی کرانے کا وقت آتا ہے تو اسے اسکی مرضی کے بغیر ہی بھیج دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب تمھاری وہاں سے میت ہی آنی چاہیے اور وہ بھی کہاں آتی ہے ۔ یہ بھی تو سوچنا چاہیے نا )۔ بیوی کی صورت میں اللہ کا بہترین تحفہ ہمیں ملتا ہے ۔ کوئی انتہائی گھٹیا اور پست ذہنیت کا شکار انسان ہی ہو سکتا ہے جو ان کے بارے میں عزت و احترام اور تکریم کا نہیں سوچتا ۔

بعض جگہ تربیت کی کمی ہوتی ہے ۔ کہیں بات کرنے کا ڈھنگ اور وقت برابر نہیں ہوتا ۔ ان باتوں کی جانب توجہ کی ضرورت ہے ۔ مدارس اور عصری تعلیمی ادروں میں بچوں کو مکالمہ ، صبر ، برادشت کی باقاعدہ عملی مشق کرانی چاہیے تاکہ ان کی گھریلو زندگی اور سماجی زندگی بہتر ہو سکے ۔ بچوں کو سکھانا چاہیے کہ سچ بولنا چاہیے اور کیسے بولنا چاہیے ۔ انہیں وقت کا بہترین استعمال کیسے سکھایا جائے ۔

ایک عرصے سے سوشل میڈیا پر ایک جگت باز طبقہ وجود میں آ چکا ہے جو روزانہ اپنی تربیت کی کمی کا عملی مظاہرہ کرکے خاندانی پس منظر سے آ گاہ کرتا ہے ۔ بہت ہو گیا بھائی اب ، طنز ، طعنوں ، مسخرے پن ، جگتوں سے معاشرے کی اصلاح نہیں ہوتی ، اس کے لیے خون جگر چاہیے ۔ ایک صاٖف دل اور صاف دماغ چاہیے ۔

جعلی سیکولرز کی جانب مذہب یا اہل مذہب کو گالیاں دینا اور اسی طرح ان پڑھ جعلی ملاوں کی جانب سے سیکولرز لبرلز کو گالیاں دینے سے معاملہ حل نہیں ہو گا ۔

ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھیں ۔ایک دوسرے سے بات کیجئے ۔

یہاں ایک نکتہ جو علی سجاد شاہ صاحب نے بیان کیا کہ

"تعزیرات پاکستان اور پاکستان پینل کوڈ کے تحت اگر شوہر، بھائی یا والد اپنی بیوی ، بہن یا بیٹی کو غیرت کے نام پر قتل کردے تو اس مقدمے میں سرکار مدعی نہیں بن سکتی تھی، ہمیشہ گھر یا خاندان کے کسی فرد کو مدعی بنا کر مقدمہ درج کیا جاتا تھا۔ بعدازاں چند پیشیوں کے بعد مدعی کی جانب سے معافی نامہ داخل کروا کر ملزم کو رہا کروالیا جاتا تھا ۔ اگر والد نے بیٹی کو قتل کیا تو والدہ مدعی بن جائیگی اور پھر ایک معافی نامہ کہ میں نے اپنے شوہر کو معاف کردیا، رہائی کا پروانہ بن جاتا تھا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے جو سفارشات اپنے حقوق نسواں بل میں پیش کیں ان میں پہلی بار یہ تجویز پیش کی گئی کہ غیرت کے نام پر قتل میں ریاست خود مدعی بنے اور کسی بھی طور اہل خانہ کے معاف کرنے پر بھی مقدمہ ختم نہ کیا جائےاور مجزم کو قرار واقعی سزا دی جائے۔

یہ ایک بہت اچھی تجویز ہے تاہم ہلکا پھلکا تشدد ایک فضول بات تھی جسے درست تناظر میں سمجھا گیا نہ بیان کیا گیا .

میں یہ کہتا ہوں کہ جہاں ایک غلط بات پر تنقید ہے تو وہیں اس دوسری ٹھیک بات کی تحسین کیوں نہیں ؟ کیونکہ پراجیکٹ مافیا کی دکان بند ہو رہی ہے ۔

میں نے اس ساری بحث میں سنار والا اسلوب ہی اختیار کیا ہے حالانکہ میرا جی چاہتا تھا کہ لوہار کی طرح ایک ہی ضرب لگاوں لیکن ویکن۔ ۔ ۔ ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے