حافظ صاحب! کچھ خیال کرتے

ہمارے ملک کے علماء کرام ہمیشہ علم اٹھائے رکھتے ہیں کہ وہ اسلام اور خواتین کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ خواتین سے متعلق کوئی بل ہو یا خواتین کے ساتھ نا انصافی ان کا دعوی ہےکہ وہ ہر اول دستے کی صورت اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

جہاں خواتین کی بات آ جائے یہ علماء کرام فورا وہ ساری احادیث اور قرآنی آیات نکال کر لے آتے ہیں جنکا انہیں شاید صحیح مطلب بھی نہ آتا ہو۔ لیکن اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق یہ کم فہم، کم عقل اور اسلام سے نا آشنا عوام کو اپنے فتووں اور باتوں سے قائل کر ہی لیتے ہیں۔

کچھ دن قبل حافظ حمداللہ اپنے ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو بہت حقوق دئیےہیں اور اسلام ہی عورتوں کے حقوق کا صحیح تحفظ کرتا ہے ۔۔ حمداللہ صاحب کاش یہ چھوٹی مگر گہری بات جناب کو بھی سمجھ آ سکتی تو گزشتہ روز ایک ٹی وی پروگرام میں بیٹھ کر ایک خاتون کے ساتھ نازیبا اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں نہ کرتے۔۔

مجھے اعتراض ہے جناب کی گفتگو میں استعمال ہونے والے الفاظ پر ۔ کیا یہ الفاظ کوئی معتبر ،باریش ، صاحب حیثیت شخص استعمال کر سکتا ہے۔۔اگر آپ قرآن کے حافظ ہیں تو جناب آپ نے یقینا رٹا نہیں لگایا ہو گا، نالائق بچوں کی طرح جو رٹا لگا کر امتحان پاس کر لیتے ہیں۔ اور اگر واقعی سمجھ کر پڑھا اور حفظ کیا ہےتو یقینا اس پاک کتاب قرآن میں ضرور پڑھا ہو گا کہ گفتگو کا معیار کیا ہے۔ خصوصا جب خواتین سے بات کی جا رہی ہو تو الفاظ کیا استعمال کئے جائیں۔

جس نبی صلی اللہ ہو الہ وسلم کے امتی ہیں انہوں نے تو خواتین کے لئےاحترام کا جو معیار مقرر کیا کم از کم اسکا تو جناب حمداللہ صاحب آپ کو یقینا علم ہونا چاہئیے تھا ۔۔ کیا حمداللہ صاحب اپنےگھر کی خواتین کے ساتھ بھی یہی زبان استعمال کرتے ہیں؟

جس مذہب کے پیروکارہیں حمداللہ صاحب انہیں پتا ہونا چاہئیے کہ اسلام نے تو کہیں سختی کا جواب سختی سےدینے کا درس نہیں دیا ۔ بہت سے حافظ صاحب کے چاہنے والوں کو بہت تکلیف ہےکہ لوگ حافظ حمداللہ پر تنقید کر رہےہیں۔ لیکن زرا اس بات کا جواب دےدیں یہ سارےپیروکار کہ اپنا حق مانگنا کہاں کی زیادتی ہے۔

آئےدن جب خواتین کو غیرت کے نام پر مارا جا رہا ہے۔ تب یہ سب لوگ کہاں مر جاتے ہیں۔ آج تک کسی مولانا کو توفیق ہوئی کہ وہ کسی خاتون کو قتل کرنے والے کو سزا دلوانے کے لئے منہ کھول سکے ۔ کیا کسی ملا کو یہ توفیق ہوئی کہ خاتون کو قتل کرنے والےکے خلاف فتوی دےسکیں

خواتین کو بلکل اسی طرح مارا جا رہا ہےجیسے اسلام سےقبل مارا جاتا تھا۔ بس فرق یہ ہے کہ پہلے پیدا ہوتے ہی مار دیا جاتا تھا ۔ اب پالنے کے بعد مار دیا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی اس پر آواز اٹھا لے تو اس پر ماروی سرمد کی طرح لبرل ہونے کا الزام لگا کر اسےبد کردار اور ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔

ٹھیک ہے جناب ماروی سرمد ایک لبرل اور ایجنٹ ہے مان لیتے ہیں ،لیکن حافظ حمداللہ کس بنیاد پر یہ الفاظ استعمال کر رہا تھا ۔ ایک ایجنٹ غلط بول رہا تھا تو حافظ صاحب کو کنٹرول ہونا چاہئیے تھا ۔

ماروی سرمد نے جو کہا سو کہا لیکن مولانا نے جو رویہ اور جو زبان استعمال کی کیا اسلام اسکی اجازت دیتا ہے ۔ کیا یہی وہ اسلام کے علم بردار ہیں جو ہمیں دین کی تعلیم دیں گے۔ جب علمدینے والے کا یہ حال ہے تو شاگرد کیسےہو سکتے ہیں یہ سوچ کر ہی روح کانپ جاتی ہے۔ اور اگر حق کا ساتھ دینا اور حق کی آواز اٹھانا کفر ہے تو جناب ہم کافر ہی اچھےہیں۔

اگر کسی مظلوم پر ظلم کے خلاف بولنا لبرل ازم ہے تو ہمیں یہ گناہ بھی منظور ہے۔ لیکن ہم ایسے مذہب کو قبول نہیں کر سکتے جو مظلوم پر ظلم کی اجازت دیتا ہو ۔ جو خواتین کا احترام نہ سکھاتا ہو۔ جس مذہب کے سکھانے والوں کو محفل کے آداب تک نہ آتے ہوں وہ کتنے پانی میں سب انداذہ لگا سکتے ہیں ۔

اگر سخت قوانین کی راہ میں یہ ملا رکاوٹ نہ بنیں کو وہ وقت دور نہیں جب خواتین بھی محفوظ زندگی گزار سکیں گی۔ انہیں بھی یہ یقین ہو گا کہ انکی عزتیں لوٹی نہیں جائیں گی ۔ انہیں بھی حق حاصل ہو گا کہ وہ زندگی کو غلام کی طرح نہیں ایک انسان کی طرح گزاریں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے