خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لئے اسلام کا استعمال

لندن ۔ فروری میں سکاٹ لینڈ کی مسلمان خواتین سرکاری طور پر گھریلو تشدد کے خاتمے کے لئے ایک نئی مہم کا آغاز کریں گی۔ اگرچہ عورتوں کے خلاف تشدد ایک عالمی مظہر ہے جو قومیت، نسل اور مذہب کی بنیاد پر کوئی تمیز نہیں برتتا لیکن کچھ لوگ مسلمان ممالک میں عورتوں کے خلاف تشدد کو دیکھتے ہیں اور یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ اس کا لازمی تعلق مذہب کے ساتھ ہے۔ تاہم برطانیہ میں قائم مسلمان عورتوں کی فلاحی تنظیم "امینہ” کی رضاکار عورتیں دلیل دیتی ہیں کہ اس کے برعکس اسلام کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے حل کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔

اس مقصد کے لئے انہوں نے حال ہی میں ایک مہم شروع کی جو اس غلط فہمی کا ازالہ کرے گی کہ اسلام کسی بھی طرح کے تشدد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ "امینہ” کمیونٹی میں اماموں کے ساتھ کام کرے گی اور اس تصور کی حمایت کے لئے حدیث اور قرآن کی آیات استعمال کرے گی کہ نہ صرف اسلام تشدد کی مذمت کرتا ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کا متن بار بار عورتوں کے ساتھ نرم، منصفانہ اور عزت دارانہ سلوک پر زور دیتا ہے۔

عورتوں کے خلاف تشدد کے جواز کے لئے جس قرآنی آیت کا بہت زیادہ حوالہ دیا گیا ہے وہ قرآن کی آیت 4:34 ہے۔ اس کا ترجمہ یوسف علی نے کیا ہے: "۔ ۔ ۔ اور جن عورتوں کی نافرمانی (نشوز) اور بددماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار (ہلکی) کی سزا دو (اضربوھن) ۔ ۔ ۔”۔

عربی الفاظ "نشوز” اور "اضربوھن” کی سیاق و سباق سے ہٹ کر اور غلط تشریح اس آیت کی ایسی غلط تفہیم کا باعث بنی ہے جو نفوذ کر گئی ہے۔ مثال کے طور پر لفظ "ضرب” (جو اضربوھن کا مادہ ہے) کے 25 مختلف مطالب ہیں جن میں "دور چلے جانا” یا "کچھ وقت کے لئے چھوڑ دینا” بھی شامل ہیں۔ مؤخر الذکر مطلب کی بنیاد پر ترجمہ اس طرح بنتا ہے: "جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں خوف ہو، پہلے ان کو نصیحت کرو، پھر ان سے بستر علیحدہ کر لو اور پھر ان سے دور چلے جاؤ”۔

مزید برآں یہاں لفظ "نشوز” اس آیت کے تین مرحلوں کو صرف بہت مخصوص اور سنجیدہ صورتوں میں قابل اطلاق بناتا ہے۔ سکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز لندن میں اسلامی تعلیمات کے پروفیسر محمد عبدالحمید دلیل دیتے ہیں کہ یہ لفظ خصوصی طور پر ازدواجی بے وفائی کے حوالے سے ہے۔

یہ احساس کرنے کے لئے کہ اسلام عورتوں کے خلاف کسی بھی قسم کے تشدد کی واضح طور پر مذمت کرتا ہے، ہمیں صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالوں اور قرآن کے عمومی پیغام کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کی آیت 30:21 میں کہا گیا ہے، "اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ۔ اس نے تمہارے درمیان محبت قائم کر دی، یقیناً غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت نشانیاں ہیں”۔

یہ یقینی بنانے کے علاوہ کہ ایسے پیغامات معاشرے میں پھیلیں، "امینہ” کی مہم عورتوں اور مردوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ تشدد کے خلاف بات کریں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ ایک فرض ہے کہ مسلمان زیادتی کے خلاف بات کریں اور بھرپور انداز میں ان غلط عقائد کی مخالفت کریں کہ اسلام عورتوں کے ساتھ بدسلوکی کی حمایت کرتا ہے۔

اگر یہ کام کمیونٹیوں میں مذہبی رہنماؤں تک پہنچ جائے تو یہ تشدد کے حل کا اہم حصہ بن سکتا ہے۔ اماموں کا مقامی مسلمان کمیونٹیوں پر قابل قدر اثر ہوتا ہے کیونکہ یہ وہ افراد ہیں جن پر اعتماد کیا جاتا ہے اور جنہیں قابل بھروسہ سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے مساجد میں مردوں اور عورتوں تک پیغام کی ترسیل کو یقینی بنانے کے لئے ان کے ساتھ کام کرنا انتہائی اہم ہے۔ آئمہ کی مشترکہ آوازوں میں یہ قوت ہے کہ وہ عورتوں کے ساتھ سلوک میں درکار اشد ضروری تبدیلی کو رواج دے سکیں۔

یہ کام خاندان کی سطح پر بھی ہو سکتا ہے۔ یہ برمحل ہے کہ بچے چھوٹی عمر سے عورتوں کے احترام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ان کے ساتھ خلیقانہ سلوک کی اہمیت کو سمجھیں۔ اس بات پر گھروں اور مذہبی سکولوں میں زور دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ والدین بالخصوص باپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نرم رویئے کی اتباع میں اپنے بچوں کے لئے اس سلوک کا نمونہ یا رول ماڈل بن سکتے ہیں۔

اسلام عورتوں کے ساتھ سلوک سمیت زندگی کے تمام پہلوؤں کے بارے میں اپنے متن میں بڑے واضح رہنما اصول فراہم کرتا ہے۔ یہ علم اور تفہیم، جس کو توڑ مروڑ کر عورتوں کے ساتھ نفرت کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہےِ، مسلمان کمیونٹیوں میں گھریلو تشدد کے مسئلے کے حل کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

نہال مگدی لندن میں مقیم ایک مسلمان، برطانوی مصری بلاگر اور مارکیٹنگ کی ماہر ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے