نشانہ کون؟ اسلامی نظریاتی کونسل یا اسلام؟

پاکستان میں ایک عرصے سے بحث چل رہی ہے کہ پاکستان کا مستقبل سیکولر ریاست میں ہے یا اسلامی ریاست میں۔ دونوں فریقین کی جانب سے دلائل دیے بھی جاتے ہیں اور ٹھونسے بھی۔ بدقسمتی سے اہل مذہب کا بھی اس حوالے سے کرداد مایوس کن رہا ہے۔

پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور دو قومی نظریہ ہی پاکستان کی نظریاتی اساس ہے یہ وہ کلمات ہیں جو کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود ایک مخصوص مکتبہ فکر کو ہضم نہیں ہورہے۔ وہ ٹولہ پاکستان بننے سے لیکر آج تک طرح طرح کے حیلے بہانوں سے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ آور ہوا ہے۔ ایسے لوگ لبرل ازم کے نام پر ان معاملات پر بھی بحث کرنے سے نہیں چوکتے جس سے متعلق قرآن مجید کا واضح فیصلہ موجود ہو۔

پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان کے اس آئینی ادارے کو ہدف تنقید بنانے کے ساتھ ساتھ اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے جس کے قیام کا مقصد ہی یہ تھا کہ پاکستان کے آئین میں اگر کوئی شق اسلامی قوانین کے برخلاف ہے تو اس کی نشاندہی کی جائے یا پھر حالات حاظرہ کے مطابق کسی بھی مسئلے میں کوئی رائے درکار ہو تو شریعت کی روشنی میں سفارشات تیارکی جائیں۔ کچھ دن پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں ایک ممبر نے انفرادی حیثیت میں بل پیش کیا کہ اگر عورت خودسری بدزبانی پر اتر آئے تو ہلکا تشدد کیا جاسکتا ہے تاکہ اس کی اصلاح ہوسکے۔ اس بات پر لنڈے کے انگریز دانشوروں نے وہ طوفان بدتمیزی مچایا کہ الامان الحفیظ ۔

سورة النساء میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ
مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس لیے کہ اللہ نے بعض کو بعض پر افضل بنایا۔ اس لیے بھی مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ تو جو نیک بیویاں ہیں وہ فرمانبردار ہوتی ہیں۔ اور انکے پیٹ پیچھے اللہ کی حفاظت میں (مال و آبرو) کی خبرداری کرتی ہیںٕ۔ اور جن عورتوںٕ کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی (اور بدخوئی) کرنے لگی ہیں تو(پہلے) انکو (زبانی) سمجھاؤ (اگرنہ سمجھیں تو) پھر ان کے ساتھ سونا ترک کردیں، اگر اس پر بھی باز نہ آئیں تو زدوکوب کرو پھر اگر تمہارا کہنا مان لیں توپھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانا مت ڈھونڈو ۔ بے شک اللہ بہت اونچا ہے بڑا ہے۔

اگر ایک ٹی وی ٹاک شو میں اختلاف رائے کی آڑ میں کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائیں گے اوئے چپ کر جا۔۔۔ ٹانگیں توڑ دوں گی تیری میں۔۔۔۔ جیسے پھول برسائے جائیں گے تو کوئی شریف آدمی تو چپ رہ سکتا ہے مگر پٹھان نہیں۔ پھر جب اسی کے معیار کے مطابق جواب آتا ہے تو وہی طبقہ جو عورت کو مردوں کے مساوی حقوق کی باتیں کرنے والے صنفی امتیاز کی آڑ میں کیوں چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حافظ حمد اللہ کا رویہ کسی طور پر مناسب نہیں بلکہ قابل مذمت ہے مگر محترمہ کو بھی اپنی اداؤں پر غور کرنا چاہیے۔

قصہ مختصرنشانہ اسلامی نظریاتی کونسل نہیں بلکہ خود اسلام ہے جس کی بنیاد ہر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا۔ مسلسل پاکستان کی نظریاتی اسا س پر حملے ہورہے ہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے سرے سے ہی نظریہ پاکستان کو متنازعہ بنانے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں ۔ قائد اعظم کو ہی سیکولر بنانے کے کوششیں کی جاتی ہیں۔ حالانکہ بانی پاکستان نے 15 نومبر 1942 کو آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن سے خطاب میں واضح طور ہر فرمایا تھا کہ مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟؟؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت کو آج سے تیرہ سو سال پہلے قرآن مجید نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمداللہ قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور تا قیامت موجود رہے گا۔

اسلام میں زمینی خطوں سے کہیں زیادہ تعلیمات اور نظریات کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جغرافیے بدل بھی جائیں تو دوبارہ متشکل ہو جاتے ہیں مگر قوم کا مزاج فکر و عمل بدل جائے، اس کی روایات دم توڑ دیں یا تعلیمات کی روح فوت ہو جائے تو وہ صدیوں تک دوبارہ بحال نہیں ہو پاتیں۔ سماجی روایات اور ثقافت صدیوں کی جانفشانی سے تعمیر ہوتی ہیں۔ اس کی حالیہ اور بہت خوبصورت مثال ترکی ہے، جو ایک صدی کے بعد اسلامی روایات کی طرف پھر سے لوٹنا شروع ہوا ہے۔ نہ جانے پاکستان میں ان اقدار کو اپنانے اور معاشرے میں نافذ کروانے میں مزید کتنا عرصہ درکار ہوگا۔

Sharjeel Khawaja

[pullquote]محمد شرجیل خواجہ[/pullquote]

نے بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان سے صحافت میں ماسٹر کیا
گزشتہ ڈیڑھ سال سے ابتک نیوز اسلام آباد بیورو میں بطور رپورٹر کام کررہے ہیں ۔ تعلق ملتان کی تحصیل جلالپور پیروالہ سے ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے