ڈونلڈ ٹرمپ، مذہبی جماعتیں اور گالیاں

ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں اور انکے ممبران آجکل امریکی صدارتی انتخابات کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے سیاست سیکھنے کی پوری پوری کوشش کررہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نہ پوپ کا احترام کرتا ہے اور نہ ہی کسی مذہب کا، دوسری باتوں کے علاوہ وہ اختلاف کرنےوالی خواتین کےساتھ کھلے عام بہت ہی نامناسب رویہ اوربہت ہی بے ہودہ کلمات جو کسی غنڈئے بدماش کے منہ سے ہی ادا ہوتے ہیں وہ ٹرمپ کےریکارڈ کا حصہ ہیں۔ہمارئے پاس بھی اس طرح کی مثالیں موجود ہیں اور شاید پاکستان کی آئندہ سیاست کی بنیاد ہیں۔ پاکستان سنی تحریک و دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں نے اتوار 27 مارچ 2016کی دوپہر ممتاز قادری کے چہلم کے اختتام پر اپنے مطالبات کے حق میں پارلیمنٹ ہاوس کی طرف مارچ شروع کیا۔ مظاہرین نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دیا، اس دھرنے میں جس قسم کی شرمناک حرکتیں اور گالم گلوچ کی گئی وہ باعث حیرت تھی۔ شاہ احمد نورانی کے صابزادے اور جمعیت علماء پاکستان (نورانی) کے سربراہ شاہ اویس نورانی نے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں گالیاں دینے والوں کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ نوجوان ہیں، غصے میں تھے اس لیے جذبات میں آکر یہ حرکتیں کربیٹھے۔گویا ان کے نزدیک ملک کے وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صابزادی مریم نواز، ممتاز مذہبی اسکالرطاہرالقادری اور ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے رہنما عمران خان کو مغلظات بکنا اور گالیاں دینا کوئی غلط بات نہیں تھی۔

اگر وہ بات غلط نہیں تھی تو یقیناً 10 جون کو ایک نیوز چینل جو نیوز ون کہلاتا ہے اس کے ایک پروگرام میں ہونے والے بےہودہ واقعے پر جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پاکستان کی ممتاز کالم نگار اور انسانی حقوق کی کارکن ماروی سرمد کے ساتھ جو برتاو انکی پارٹی کے ایک ممبر حافظ حمد اللہ جو سینیٹربھی ہے نےکیا ہے، اس کو یہ کہہ کر ختم کردینگے کہ حافظ صاحب ذرا گرم دماغ کے ہیں ، اسلام سے بہت محبت کرتے ہیں اور قبایلی روایت کے زبردست حامی ہیں، لہذا جلد غصہ آجانا قدرتی بات ہے، غلطی تو اس عورت کی ہے جو حافظ صاحب سے زبان چلارہی تھی، حالانکہ حافظ صاحب نے کہا بھی تھا کہ بیوی ہے بیوی بن، شوہر نہ بن۔ یہ وہی مولانا فضل الرحمان ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کے اسلام آباد کے دھرنے میں شریک ہونے والی خواتین کے بارئے کہا تھا کہ یہ دن میں دھرنا دیتی ہیں اور رات کو مجرا کرتی ہیں۔ ان دو واقعات کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ کو مذہبی شدت پسندوں یا مذہب کے نام پر سیاسی دوکانداری کرنے والوں سے اچھا مقابلہ کرنا ہے تو پھر آپکو ہر قسم کی گالیوں اور بےہودہ باتوں سے واقفیت لازمی ہے۔بہتر ہوگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان اسلام فروشوں کی ویڈیو دیکھتے رہا کریں۔

پاکستان میں روزانہ شام 7 بجے سے رات 11 بجے تک ہر نیوز چینل پر سیاسی مجرا ہورہا ہوتا ہے، اس مجرئے کا واحد مقصد چینل کی ریٹنگ میں اضافہ کا حصول ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نیوز ون پر 10 جون کو جو گھٹیا سیاسی مجراکیا گیا اسکا مقصد محض ریٹنگ کا حصول تھا۔ ماروی سرمد یسوع مسیح کو نہیں مانتیں، انکا کہنا ہے کہ اگر کوئی میرئے ایک گال پر تھپڑ مارئے گا تو میں اپنا دوسرا گال پیش نہیں کرتی بلکہ جیسے کو تیسا کرتی ہوں، لیکن شاید ماروی سرمد ابھی کچی ہیں لہذا وہ حافظ حمداللہ کے جیسی فحاش زبان استمال نہیں کرپائی، دوسرئے ماروی سرمد کو ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ اب چونکہ ٹاک شو فائٹ شو بن چکے ہیں لہذا جتنی جلدی ممکن ہو جوڈو کراٹے سیکھ لیں، تاکہ حافظ حمد اللہ جیسے بدماش کو وہ ناک آوٹ بھی کرسکے۔ حافظ حمد اللہ کوئی عالم دین نہیں ہے لیکن وہ مذہبی سوداگرمولانا فضل الرحمان کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک ہے۔ مولانافضل الرحمان ایک اچھے سیاسی بلیک میلر ہیں اور آج کل نواز شریف کی پانامہ لیکس سے جان چھڑانے کےلیے دوسروں سے سودئے بازی وہی کررہے ہیں، یہ ہی وجہ ہے حافظ حمد اللہ نیوز ون کے سیاسی مجرئے میں ایک خاتون کی شلوار اتارنے کی باتیں کررہا تھا۔

دس جون کے سیاسی مجرئے کا موضوع تھا ‘‘خواتین کا زندہ جلانا’’۔ اس پروگرام میں حافظ حمد اللہ نے بھرپور طریقے سے اپنی غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا، مولانا شیرانی کو چرسی بیرسٹر مسرور نے کہا تھا ماروی نے نہیں اور جب حافظ حمد اللہ نے بیرسٹر مسرور کو مارنے کی بات کی تو بیرسٹر مسرور کا جواب تھا کہ جواب بھی ملے گا۔ مگر اس پروگرام میں جو کچھ ہوا اس میں ماروی سرمدکا کوئی قصور نہ تھا، پہل قابل نفرت حافظ حمد اللہ نے کی اور بے شرمی کی ہر حد پار کر گیا۔ کیا وجہ تھی کہ وہ ماروی سرمد کے منہ سے آدھا لفظ نکلنے سے پہلے ہی بولنے لگا؟ صاف نظر آ رہا تھا کہ حافظ حمد اللہ پہلے سے اس گھٹیا حرکت کا ذہن بنا کر بیٹھا تھا۔ مگر اسکے باوجود مخصوص فکر کے حامل مذہبی لوگ ماروی سرمد کو بد تمیز ثابت محض اسلیے کرنا چاہ رہے ہیں کہ وہ ایک بے غیرت کو معصوم ثابت کر سکیں۔ اگر واقعی اس کو مولانا شیرانی کو چرسی کہنا برا لگا تھا تو بیرسٹر مسرور کو مارتا یا گالی دیتا، اس کو شاید ماروی سرمد کے ساتھ ہی اپنی بےغیرتی کا مظاہرہ کرنا تھا، ملا کے بارئے میں کہا جاتا ہے کہ منافقت مری تھی اور ملاپیدا ہوا تھا۔

مولانا شیرانی کی والدہ بھی ایک عورت ہیں اور اگر خدا نے کوئی بیٹی دی ہے تو وہ بھی ایک عورت ہی ہے، لیکن افسوس مولانا جب سے اسلامی نظریاتی کونسل کےچیرمین بننے ہیں انکا ایک ہی مقصد رہا ہے کہ عورت کی تذلیل کیسے کی جائے۔ چلیں مان لیا کہ مولانا شیرانی کے بارئے میں غلط کہا گیا لیکن مذہب کے ٹھیکیدار کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ وہ روز عورت کی تذلیل کرئے، وہ جب چاہے کسی پر کفر کے فتوے لگا دے، کسی کی ماں بیٹی کو فاحشہ بلائے، کسی عورت کو شلوار اتارنے کی دھمکی دے، اس پر ہاتھ اٹھائے؟ یہ کون سا اسلام ہے؟ اقدس طلحہ سندھیلا اپنے مضمون “ش”سے شیرانی،”ش” سے “شلوار” میں لکھتی ہیں کہ ’’مولانا کو لبرلز سے مسئلہ ہے، ان کے مطابق یہ ہماری روایات کو تباہ کرنے پر تلے ہیں اس لیے انہوں نے ماروی کو دھمکایا کہ میں تمہارا ایجنڈا پورا نہیں ہونے دوں گا۔ مولانا اگر آپ باہمت ہیں تو براہ کرم ذرا ان لبرلز کے حق میں جب کل دنیا بھر کے اخباروں میں خبریں لگیں گی اور آپ کے گاڈ فادر امریکہ سے جب کوئی مذمتی بیان دے گا تو آپ ان سے کہنا کہ تمہاری اور تمہاری ماں کی شلواریں اتاروں گا، پھر آپ کو سمجھ آئے گا کہ شلورایں کیسے اترتی ہیں‘‘۔

مولانا فضل الرحمان اور انکے ساتھ جو بھی مذہب کے ٹھیکیدار ہیں ایک بات یاد رکھیں کہ اس طرح کی غنڈہ گردی کے بعد جب آپ کہتے ہیں کہ اسلام ایک مہذب معاشرہ ہے تو کوئی آپکی بات ماننے کو تیار نہیں ہوتا، مذہب کے نام پر کی جانے والی اس غنڈہ گردی سے عام لوگوں کے دلوں میں آپ کےلیے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ نواز شریف کی حکومت میں خواتین کے ساتھ جو بدترین سلوک ہورہا ہے، وہ قابل مذمت ہے، اس واقعہ کے بعد شاید نواز شریف حافظ حمد اللہ کوجو سینیٹربھی ہے وزارت مذہبی امور کا وزیر بنادیں، کیونکہ بیچارئے حاجیوں کو بھی بہت گالیاں سننے کو ملتی ہیں۔ یہاں ایک امتہان سینٹ کے چیرمین کا بھی ہے کہ کیا اس واقعہ کے بعد یہ غنڈا حافظ حمد اللہ سینیٹر رہ سکتا ہے، اپنے آپ کو بہت زیادہ لبرل ظاہر کرنے والےسینیٹ کے چیرمین رضا ربانی اس کے خلاف کیا کارروائی کرتے ہیں جلد ہی معلوم ہوجائے گا۔اگر ان حرکات کو نہیں روکا گیا تو آیندہ ہونے والے انتخابات میں مذہبی سیاسی جماعتیں ڈونلڈ ٹرمپ کا ہی انداز اپنایں گیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے