جب زینت جل رہی تھی

"ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے ایک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے- –

میں نے ایک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے- -”

ماں جو اپنی اولاد کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ماں جو اپنی اولاد کی تکلیف کم کرنے کے لیے خود ہر تکلیف سے گزر جاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔

اپنی اولاد کے لیے اپنا وجود تک ختم کر دیتی ہے اپنی اولاد کے لیے دنیا سے ٹکرا جاتی ہے خود بھوکی رہتی ہے مگر اولاد کو بھوکا سونے نہیں دیتی خود گیلے بستر پر سو جاتی ہے۔۔۔
مگر….. یہ کیسی سفاک ماں تھی کہاں چلی گئی تھی اسکی ممتا
جس نے انتہاَئی قدم اٹھا کر خود اپنے ہاتھوں سے اپنی بیٹی جلا ڈالا۔۔
آئیے کچھ زینت سے ہی پوچھتے ہیں کے اس دن کیا ہوا تھا

[pullquote]میرا نام زینت ہے
[/pullquote]

ویسے میرا کوئی بھی نام ہو نام سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ۔ ۔ ۔ میں رہتی عورت ہی ہوں۔ ۔
اس معاشرے نے مجھے کئی نام دے رکھے ہیں۔ ۔ نام تو مرد ذات کا ہوتا ہے لڑکیاں تو غیرت کی ہنڈیا دھکائے رکھنے کے لیئے استعمال ہوتی ہیں جنکا کوئی نام نہیں ہوتا۔ ۔

میں زینت جو اپنی ماں کی لاڈلی تھی اتنی کے کبھی بچپن میں چولہے پاس بھی چلی جاتی تو میری ماں بھاگ کر آتی اور مجھے سینے سے لگا لیتی کے کہیں میری بیٹی اس آگ سے نا جل جائے میری ماں جو میری پسند کا خیال رکھتی ۔۔۔ مجھے گرمی سردی کے موسموں کی حدت سے بچا بچا کے رکھتی۔۔
اس نے آج میری پسند کو مسترد کردیا تھا۔۔۔۔

میں نے ساتھ کھیل کود کر بچپن سے جوان ہونے والے ایک دوست کو اپنی ذندگی کا شریک سفر چن لیا تھا
اپنے بچپن کے دوست سے شادی کرنا چاھتی تھی
ماں کے انکار کے بعد میں نے گھر چھوڑنے کی ٹھان لی تھی
گھر چھوڑ کے شادی کر لی مگر ماں مجھے اپنے ساتھ گھر لے آئی اور وعدہ کیا کے آٹھ دن بعد گھر سے رخصت کریں گے۔۔۔

میں ماں کے ساتھ جانا نہیں چاہتی تھی مجھے ڈر تھا کے گھر میں میرے ساتھ کچھ غلط سلوک نا کیا جائے۔۔۔
مگر خوش بھی تھی کے ماں نے مجھے قبول کر لیا تھا میری پسند کو اپنا لیا تھا
میرے دل پر کوئی بوجھ نہیں تھا۔۔۔
مگر یہ کیا ہوا؟

وہی ہوا نا میرے ساتھ جو آیبٹ آباد کی امبرین کے ساتھ ہوا جس نے سہیلی کی پسند کی شادی میں مدد کی اور اسے جرگے کے حکم پر زندہ جلا دیا گیا تھا وہ چیختی رہی مگر بے رحم سفاک قاتل اپنی غیرت کا بدلہ لے رہے تھے
یا پھر مری کی ماریہ جسے اسکول مالک نے زندہ جلا دیا کہ اس نے شادی سے انکار کرنے کی جرات کیوں کی

یا لاہور کے شہر کاہنہ کی صبا جس کے باپ اشرف نے اسکو اور اسکے شوہر کو پسند کی شادی کرنے پر گولیاں مار کے ہلاک کر دیا

مگر سب سے زیادہ دل دہلا دینے والا واقعہ مجھ زینت کے ساتھ ہوا مجھے محبت کی شادی کرنے کی اتنی بڑی سزا ملی کے ممتا سے اعتبار ہی اٹھ گیا

کس طرح میری ماں نے اپنے جگر کے ٹکڑے کی جان لی اسکو اپنے گھر چالاکی سے بلایا کے آٹھ دن بعد میں تیری رخصتی کر دوں گی لیکن جب میں گھر آئی تو ماں نے مجھے بے ہوش کیا اور پھر بے دردی سے پہلے میرا گلا دبایا اور جب میں آخری سانسیں لے رہی تھی تب نجانے اسکے دماغ میں کیا آیا کے وہ باہر کی جانب گئی
مجھے اپنے اوپر تیل گرتا محسوس ہوا
مٹی کے تیل کی بو سے مجھے نفرت تھی

مگر ماں تو کیسی ماں تھی تو اتنی کٹھور کیسے ہو گئی تھی ایک دم تو نے ماچس جلائی اور مجھے بے رحم آگ کے حوالے کر دیا
آگ جلاتی ہے ماں
تو نے جانتے ہوئے بھی کیوں مجھے شعلوں میں دھکیل دیا

تیری ممتا کیوں نہیں جاگی ماں اور پیٹرول چھڑک کر آگ لگاتے وقت کیوں بھول گئی کے تو نے مجھے جنا تھا
میں ہوش میں آگئی تھی ماں
میری چیخوں نے تیرا کلیجہ چھلنی کیوں نہیں کیا

جب میں جل رہی تھی تب ماں تو نے مجھے کیسے دیکھا ہوگا
ماں میں نے تجھ سے التجا کی کے میں جل رہی ہوں
سچ بتا کیا میں نے تجھ سے اپنی زندگی کی بھیک نہیں مانگی تھی
ماں مجھے بتا کیا مائیں ایسی ہوتی ہیں؟ کیا ماں اپنے بچے کی جان اتنی بربریت سے لے سکتی ہے ۔۔

وہ ماں جو زمین پر خدا کی محبت کا روپ ہے اس کے سامنے اسکے ہاتھوں ماں نے بیٹی کو جھلسا دیا
یہ تو وہ زینت تھی جو معاشرے کی جہالت کا شکار ہوئی. جسے غیرت کی آگ نے جلا ڈالا
مگر کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جس دن زینت کو جلائے جانے کی خبر نشر ہوئی اسی روز رپورٹ آئی کہ داعش نے غلامی قبول نہ کرنے پر 21 خواتین کو سرعام زندہ جلا ڈالا۔۔۔۔
کیا داعش کے ان درندوں اور ہمارے سماج میں غیرت کے خود ساختہ ٹھیکیداروں میں کوئی فرق ہے؟

یہ مسلمان اور انسان تو کیا حیوان کہلائے جانے کے حقدار بھی نہیں کیونکہ غیرت جیسے لفظ کی آڑ میں ایسی درندگی کا کھیل تو جانوروں نے بھی نہیں کھیلا ہو گا۔
یہ کیسے مسلمان ہیں جن کا یوم ِآخرت پر ایمان نہیں؟
یہ کیسے مسلمان ہیں جو روزِ محشر کو جھٹلاتے ہیں؟
یہ کیسے مسلمان ہیں جو جنت اور جہنم پر یقین نہیں رکھتے؟
ان سنگ دلوں کو شاید خدا پر بھی بھروسہ نہیں کہ وہ امبرین، ماریہ، زینت اور صبا جیسی لڑکیوں کو خود سزائیں دینا چاہتے ہیں۔۔
انہیں اتنی جلدی ہے کے خدا کے فیصلے اپنے ہاتھ میں لیکر ان معصوموں کو بے گناہ قتل کے خود فتوٰے دے رہے ہیں
خود جنت اور جہنم کے فیصلے کر رہے ہیں
یہ تو قتل کی ایسی کہانیاں ہیں کے ان کی بربریت کو بیان کرنے کے لیے مناسب الفاظ بھی نہیں
مگر ہمارے معاشرے کا دوسرا پہلو دیکھیں

خواتین کو جہاں جسمانی طور پر مارا جانا عام ہو وہاں اس صنفِ نازک کو میڈیا پر بیٹھ کر گندی گالیاں دینا کون سی بڑی بات سمجھی جائیگی
ایسا ہی ایک واقع ملک کے ایک نجی ٹی وی کے ٹاک شو میں ہوا جس میں ملک کی معروف سماجی کارکن اور ایک مذہبی سیاسی جماعت کے ایک ا ہم رکن کے درمیان کسی بات کو لیکر گرما گرمی ہو گئی
بات اس وقت بڑھ گئی جب ان مولانا صاحب نے خاتون کو غلاظت بھری گالیوں سے نوازنا شروع کر دیا

پاکستان میں خواتین پر مظالم کے واقعات بے لگام ہو رہے ہیں دو مہینوں میں غیرت کے نام پر قتل اور ظلم کے چار واقعات سامنے آئے 9 جون کو صبا 8 جون کو زینت 31 مئی کو 17 سالہ ماریہ کو 28 اپریل کو 16 سالہ لڑکی امبرین
یہ تو وہ قتل ہیں جو میڈیا تک پہنچ گئے ایسے کئی قتل جن کی آواز دبا دی جاتی ہے انکے قصے الگ ہیں

میرا سوال صرف اتنا سا ہے کہ پاکستان میں نام نہاد غیرت کے نام پر کب تک اپنو ں کے ہاتھوں بیٹیاں جلتی رہیں

ایوانِ اقتدار میں بیٹھے اس ملک کے ارباب اختیار کو اب کچھ کرنا ہوگا وقت ہے حقوق نسواں بل پر عملدرآمد کا تاکہ آیندہ کوئی ماریہ صبا زینت نا جلائی جائے اور نا انکا قتل کیا جائے۔ ۔ ۔ ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے