خودمختاری،تہذیب اورڈرون حملے۔۔۔!

پرویزمشرف کےعہدِصدارت سےشروع ہونےوالےڈرون حملےقبائلی علاقوں،بنوں سے ہوتےہوئےاب بلوچستان تک آپہنچےہیں۔امریکی قیادت کالب ولہجہ بتاتاہےکہ ضرورت پڑنےپریہی ڈرون جی ایچ کیو اور ایوانِ صدرجیسی جگہوں پربھی گرائے جاسکتے ہیں۔مگرہم ہیں کہ کامل آٹھ دس برسوں سےخودمختاری کاڈھول پیٹ رہےہیں۔یہ ڈرون حملےمشرف صاحب،زرداری صاحب یامیاں صاحب رکواسکےاورنہ ہی جنرل کیانی اورجنرل راحیل شریف۔بےبسی کی انتہایہ ہےکہ ہم کھلےلفظوں میں احتجاج تک کرنے کےقابل بھی نہیں۔ہم انہیں صرف یہ کہتےآرہےہیں کہ "یہ حملےہماری خودمختاری کے خلاف ہیں” اس سےزیادہ کچھ نہیں کرسکتے۔بلوچستان اورقبائلی علاقوں میں ڈرون حملے توالگ رہےہم اپنےدارالحکومت کےپہلواوراہم ترین فوجی چھائونی کےقریب 3گھنٹےتک جاری رہنےوالےایبٹ آبادآپریشن پربھی کچھ نہیں کرپائےتھے۔ڈھٹائی کایہ حال تھاکہ ہم نےدیکھاکہ برطانیہ،امریکہ،روس،بھارت اورایران جیسےممالک خوشی کےشادیانےبجارہے ہیں توشاہ جی نےبھی "وکٹری” کانشان بناڈالا۔فتح کی خوشی میں یہ بھول گئےکہ ہمارےساتھ کتنابڑاکھلواڑہواہے۔

امریکہ کی طرف سےہونےوالی دراندازی توچلئےمان لیتےہیں کہ وہ ایک طاقت ورملک ہے،ہم اس کےنمک خوارہیں توبےبسی توبنتی ہے۔مگریہاں توایران،بھارت یہاں تک کہ افغانستان جیسےملک بھی ہماری سرحدوں کوربڑکاکھلوناسمجھتےہیں اورجب چاہتےہیں ہم پرہلہ بول دیتےہیں۔ہم نےخودہی اپنی خودمختاری کواونےپونےداموں فروخت کیا.چندٹکوں کےعوض فوجی جرنیل نےملک کورہن رکھوایااورآج تک ہم ان ٹکوں کی قیمت اداکرتےآرہے ہیں۔امریکہ،ایران اوربھارت ہماری خودمختاری کوپامال کرتےہیں مگرہم ہیں کہ نجانےکس مصلحت کےتحت سب برداشت کرتےہیں۔بھارت سےبھی اس قدرخوف کہ تحقیقات کےبغیرہی ہم مسعوداظہرکوتحویل میں لےلیتےہیں۔تحقیقات کےبعدبھارت کےہی سکیورٹی ادارےہمیں کلین چٹ دیتےہیں کہ جی آپ کےملک کےملوث ہونےکےشواہدنہیں ملے۔اب کس منہ سےہم خودمختاری کاراگ الاپیں اورکیسےمان جائیں کہ ہمارارویہ ایک ذمہ داراورطاقت ورملک کاساہے۔؟کلبھوشن یادیوکےمعاملےکوہم عالمی سطح پرابھارکرایران اوربھارت دونوں کوواضح پیغام دےسکتےتھےمگرہم "امن” اور "برادرانہ” تعلقات کےتحت خاموش رہےاورزبانی جمع خرچ کےعلاوہ کچھ نہ کیا۔ہم نےامریکہ کواپنی سرحدوں کوپامال کرنےپرکچھ نہ کہاتوہمسایہ ممالک بھی اس سوچ پرکہ ہمیں بھی کچھ نہیں کہاجائےگاوہ بھی ہم پراپنارعب بٹھانےلگے۔ اس پرہمارارویہ عین ان کی سوچ کےمطابق تھاکہ ہم نےانہیں کچھ بھی نہ کہایوں وہ آئےروز آئےروزہماری خودمختاری کامنہ چڑاتےآدھمکتےہیں۔ہم بس اتناہی کہتےہیں کہ ہماری خودمختاری کاخیال کیاجئے۔یہ ہےہماری خودمختاری،اب چلتےہیں تہذیب کی طرف۔

مولانافضل الرحمٰن صاحب عمران خان کےمخالف کیوں ہیں ۔؟ اس لئےکہ مولانافرماتےہیں "عمران خان ہماری تہذیب پرڈرون حملہ ہے۔” مولاناسےسوال ہےکہ وہ کس تہزیب کی بات کرتےہیں ۔؟وہی تہذیب جس میں مائیں بیٹیوں کوزندہ جلارہی ہیں،لوگوں کاہجوم اٹھ کرکسی حواکی بیٹی کوٹرک سےباندھ کرٹرک کوآگ لگادیے اورحواکی بیٹی کی چیخیں تہیب کی نازک سماعتوں کو متوجہ نہ کرپائیں۔؟ مولانا!یہاں باپ خوداپنی بیٹی کوزہرملاپانی پلاکر صرف اس وجہ سےماردیتاہےکہ اس نےکہا تھا”ابا!بھوک لگی ہے۔”اسی تہذیب کےپالےہوئے والدین غربت کی وجہ سےاپنی اوراپنی اولادوں کی زندگیوں کےچراغ گل کررہےہیں مگر تہذیب پھربھی باقی ہے۔یہاں حواکی بیٹیاں اپنی عزت وعصمت بچانےکےلئے چھتوں سےکود پڑتی ہیں اورجان دےدیتی ہیں۔ لوگ بھوک،پیاس،غربت،بےروزگاری اورنفرتوں کی وجہ مرےاورمارےجارہےہیں مگرتہذہب باقی ہے۔

یہاں گدھےکےگم ہونےپرشروع ہونےوالی لڑائی درجن بھر بندوں کوزندگی اورموت کی کشمکش میں مبتلاکردیتی ہے۔ادھربھائی کی ناانصافیوں کابدلہ یوں لیاجاتاہےکہ اس کی بنائی مٹھائی میں زہریلی ادویات ملادی جاتی ہیں جسےکھانےسے100کےقریب افراد موت کی لپیٹ میں آجاتےہیں۔اسی مہذب معاشرےمیں غریب مزارعوں پرکتےچھوڑدئےجاتےہیں یاانہیں زنجیروں سےباندھاجاتاہے۔اسی مہذب معاشرےکےٹھیکیداروڈیرےآج بھی لوگوں کوبنیادی حقوق کی فراہمی میں رکاوٹ ہیں۔اقلیتیں توخیراقلیتیں ہی ہیں کہ "زبان چلانے” کےجرم میں تشددکانشانہ بنتےہیں مگراکثریت بھی پولیس کی درندگی کاشکاررہتی ہے۔یہاں بچوں کوذہنی وجسمانی مشقت دی جاتی ہےاوران کےمعصوم بچپنوں سےکھیلاجاتا ہے۔اس سب پریوں کہئےکہ ہمارے یہاں انسانیت تومرچکی ہےمگرتہذیب زندہ ہے۔

یونیورسٹیز،مخلوط تعلیمی اداروں،مدارس،ہوٹلز میں”مشرقی تہذیب” کےمظاہر کوآپ کئی برسوں سےبرداشت کرتےآرہےہیں توعمران خان کوبھی گواراکرلیجئے۔پھرجس حکومت کےآپ اتحادی ہیں ان کےسائےمیں ہونےوالے”یوتھ فیسٹیول” میں کس تہذیب کامظاہرہ کیاجاتاہے۔؟کسی کی ذاتیات پرسیاست مت کریں کہ یہ آپ کوزیب نہیں دیتا۔آپ ایک سلجھےاورمنجھےہوئےسیستدان ہونےکےعلاوہ عالمِ دین بھی ہیں اورپاکستان کی مذہبی سیاست کےترجمان بھی۔اس لئےعوامی مسائل اورملکی وعالمی سطح کی سیاست ہی آپ کےمنصب کےموافق رہےگی۔

ہمیں تسلیم کرناچاہئےکہ نہ ہی ہمارےیہاں کوئی تہذیب ہےنہ ہی ہم خودمختار ملک کےباشندےہیں۔ہم درندوں کےمعاشرےمیں رہنےوالےاورایک غلام قوم توہوسکتےہیں مگرمہذب اورآزادقوم نہیں۔ہمیں سب سےپہلےایک مہذب قوم بننےکی ضرورت ہےاور پھرہمیں ایک آزاداورخودمختارقوم بنناہے۔محض زبانی دعووں اورباتوں کی بجائےہمیں سنجیدگی سےان مسائل کاحل ڈھونڈناچاہئے۔قانون سازی کافی نہیں بلکہ قانون کی عملداری ممکن بناناہوگی۔اس طرح کےواقعات کسی جنگل،کسی دیہاتی علاقےیاکسی ویرانےمیں پیش نہیں آئے۔بلکہ یہ واقعات مری،لاہوراورایبٹ آبادجیسے پوش علاقوں میں ہوئےہیں جوہماری "تہذیب” کےمنہ پرطمانچہ ہیں۔

ملک کی خودمختاری اورتہذیب کےٹھیکیداروں کوپہلےان چیزوں کی کوئی شکل وصورت وضع کرلینی چاہئے۔کسی چیزکےنہ ہوتےہوئےاس کی حفاظت کاڈھنڈوراپیٹنےسےدوسرےتو ہنستےہی ہوں گےکہیں اپنےبھی آپ کومسخرے نہ سمجھنےلگیں۔خودمختاری اورتہذیب دونوں پرڈرون حملےتب تک جاری رہیں گےجب تک کہ ان کےخدوخال سامنےنہ آئیں۔کسی بھی ملک کی جارحیت کامنہ توڑجواب دیناچاہئے،اس اصول پرکہ اپناملک پہلے،بردادرانہ تعلقات اورامن کی خواہش بعدمیں۔اسی طرح بدتہذیبی کےمظاہرجس جگہ بھی ہوں وہاں روک تھام کےلئےاقدامات کرنےچاہئیں۔یہ مشن کسی خاص جماعت،گروہ یاشخص کےخلاف نہیں ہوناچاہئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے