نیشنل ایکشن پلان ،ایک جائزہ

[pullquote]نیشنل ایکشن پلان بیس نکات پر مشتمل تھا۔[/pullquote]

پہلی شق یہ تھی کہ عدالتوں سے سنائی جانے والی سزائوں پر عمل کیا جائے ۔اس شق پر کسی حد تک عمل ہوا لیکن عدالت کی طرف سے حکم امتناع کے بعد مزید پھانسیاں رک گئیں۔ گویا اس شق پر عمل ہوا۔

دوسری شق دہشت گردوں کے کیسز کی سماعت کے لئے خصوصی (فوجی) عدالتوں سے متعلق تھی۔ فوجی عدالتیں بن گئی تھیں اور اس حوالے سے اگر کوئی رکاوٹ آئی تو حکومت یا فوج کی طرف سے نہیں بلکہ عدلیہ کی طرف لیکن یہ رکاوٹ بھی دور ہسے آئی ۔ گویا اس شق پر بھی کسی حد تک عمل ہوا۔

تیسری شق یہ تھی کہ ملک میں کسی مسلح ملیشیا کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس نکتے پر عمل درآمد کے لئے فوجی آپریشن ہورہے ہیں اور گویا اس نکتے پر بھی کسی حد تک عمل ہو رہا ہے ۔

چوتھی شق میں کہا گیا تھا کہ نیکٹاکو فعال بنایا جائے گا لیکن یہ کام بھی نہیں ہو سکا۔

پانچویں شق میں انتہاپسندانہ مواد اور تقاریر کے خاتمے کی بات کی گئی تھی لیکن اس شق پر بھی رتی بھر عمل نہیں ہوا۔

چھٹی شق میں دہشت گردوں اور ان کی تنظیموں کے مالی وسائل کو ختم کرنے کا کہا گیا تھا اور اس شق پر بھی عمل نہ ہونے کے برابر ہے ۔

ساتویں شق میں کالعدم تنظیموں کےدوسرے ناموں سے فعال ہونے کے عمل کے تدارک کا عزم ظاہر کیا گیا تھا اور یہ عمل بھی حسب سابق جاری ہے ۔ گویا اس شق پر بھی کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔

آٹھویں شق میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انسداد دہشت گردی کیلئے خصوصی اور مستعد فورس بنائی جائے گی ۔اس شق پر بھی کام جاری ہے ۔

نویں شق میں عزم ظاہر کیا تھا کہ مذہبی بنیادوں پر امتیاز اور استحصال کے عمل کو روکا جائے گا۔ اس عمل کے تدارک کیلئے بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

دسویں شق میں عزم ظاہر کیا گیا تھا کہ مدارس کی رجسٹریشن اور ریگولیشن کو یقینی بنایا جائیگا۔عمل درآمد تو درکنار موجودہ حکومت آج تک یہ فیصلہ بھی نہ کرسکی کہ یہ کام مذہبی امور کی وزارت نے کرنا ہے، تعلیم کی وزارت نے یا پھر وزارت داخلہ نے ۔

گیارہویں شق پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے متعلق تھی جس میں کہا گیا تھا کہ یہاں دہشت گرد تنظیموں کو پرکشش بناکر پیش کرنے کا عمل روک دیا جائے گا۔ اس شق پر جزوی عمل ہورہا ہے اور عسکری اداروں کے خوف سے ایک طرح کے عسکریت پسندوں کا بلیک آئوٹ کردیا گیا ہے لیکن ایک اور حوالے سے وہ کام حسب سابق جاری ہے ۔

بارہویں شق میں حسب سابق فاٹا ریفارمز کا سہانا خواب دکھایا گیا تھا لیکن نہ ریفارمز ہوئیں او رنہ ہوتی نظر آرہی ہیں ۔ تیرہویں شق میں دہشت گردوں کے کمیونیکیشن نیٹ ورک کو ختم کرنے کی بات کی گئی تھی اور یہ معاملہ بھی حسب سابق جوں کا توں ہے ۔

چودھویں شق انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنے سے متعلق تھی لیکن یہاں بھی حالات مکمل طور پر جوں کے توں ہیں ۔

پندرہویں شق میں پنجاب کے اندر سے عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی بات کی گئی تھی لیکن وہاں جو تنظیمیں جیسی فعال تھیں، اب بھی ہیں ۔

سولہویں شق کراچی آپریشن سے متعلق تھی اور اس شق پر حسب وعدہ فوج اور رینجر زعمل کر رہی ہے۔

سترہویں شق بلوچستان میں مفاہم سترہویں شق بلوچستان میں مفاہمت سے متعلق تھی اور اس ضمن میں بھی پیش رفت صفر ہے ۔

اٹھارویں شق میں فرقہ وارانہ تنظیموں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا لیکن ایک بھی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

انیسویں شق افغان مہاجرین کے مسئلے کو حل کرنے سے متعلق تھی اور یہاں بھی آزادکشمیر میں ان کے خلاف پولیس کی بے ہنگم اور ظالمانہ کارروائی کے سوا ، کوئی دوسری سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملی ۔

بیسویں اور آخری شق میں وعدہ کیا گیا تھا کہ پورے کریمینل جسٹس سسٹم کی تشکیل نو کی جائے گی لیکن اس حوالے سے بھی کسی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اب مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بیس شقوں میں سے صرف پانچ پر مکمل یا جزوی عمل ہوا ہے جبکہ پندرہ شقوں پر ذرہ بھر عمل نہیں ہوا۔ جن شقوںپر عمل ہوا ہے ، وہ بھی وہی ہیں کہ جو فوج سے متعلق ہیں ۔ جن پندرہ شقوں پر ذرہ بھر عمل نہیں ہوا، وہ حکومت کے دائرہ اختیار والی شقیں ہیں۔

 

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے